اوراق ہوگئے شجرِ زندگی کے زرد


صبح آٹھ سوا آٹھ بجے سے ایک نئی طرح کی گہما گہمی نظر آنے لگتی۔ آغا خان اسپتال کی شان دار عمارت کے اطراف، جسے کسی نے ’’گلابی محل‘‘ بھی کہہ دیا تھا، ایک عارضی تعمیر تھی جسے اس کے رنگ کی مناسبت سے بلیک آفس کہا جاتا تھا۔ اس کے باہر صبح کے وقت خوب چہل پہل ہوتی۔ سوزوکی گاڑیاں تیار کھڑی ہیں، ہر ٹیم نکلنے کو تیار ہے، نرسیں اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرز لپک جھپک آرہی ہیں، میڈیکل طالب علم کبھی کتابیں سنبھالے سنجیدہ نظر آرہے ہیں تو کبھی ہنسی مذاق کررہے ہیں، ڈاکٹروں میں سے کسی کو عین وقت پر ضروری کاغذات یاد آرہے ہیں تو کوئی اپنی ٹیم کے باقی افراد پورے کررہا ہے۔ حفاظتی ٹیکوں کے فلاسک اور بچوں کی نشوونما ناپنے کا سامان رکھا جارہا ہے۔ ذرا دیر میں یہ گاڑیاں مختلف کچّی بستیوں اور پسماندہ علاقوں کو روانہ ہو جاتی ہیں۔ ان کو ’’فیلڈ سائٹ‘‘ قرار دیا گیا ہے جہاں سماجی تنظیم اور صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ ہر علاقے کی ایک ٹیم مقرر ہے جو باقاعدگی سے وہاں جاتی ہے اور ان کے ساتھ میڈیکل، نرسنگ کے طالب علموں کو ان علاقوں میں کام کرنے، سیکھنے، سمجھنے اور پاکستان کے حقیقی مسائل جاننے کا موقع ملتا ہے۔ نوجوان ڈاکٹرز ہیں جو ایک باضابطہ پروگرام کے تحت یہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور اپنے کیریئر کی سیڑھیاں بھی چڑھ رہے ہیں۔ طالب علموں کے ساتھ ہی ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔

اب تو ایک شان دار، کئی منزلہ عمارت بن گئی ہے ورنہ ان دنوں بلیک آفس میں کمیونٹی ہیلتھ سائنسز کا شعبہ قائم تھا۔ اس کے تحت میڈیکل اور نرسنگ کے طلباء کی تعلیم اور کمیونٹی ڈیولپمنٹ کے مختلف منصوبوں پر کام ہورہا تھا۔ اس شعبے سے وابستہ افراد کی خاصی بڑی تعداد تھی لیکن صحیح معنوں میں اس کے روح رواں ڈاکٹر برائنٹ تھے۔ ڈاکٹر جان ایچ برائنٹ۔ 5  جولائی 2017ء کو ان کا ریٹائرڈ زندگی گزارتے ہوئے انتقال ہوگیا۔ خاصی تاخیر سے یہ خبر یہاں پہنچی ہے تو اندازہ ہورہا ہے کہ اس ایک شخص نے تن تنہا کتنے بہت سے کام کیے، ایک پورے ادارے میں اعلیٰ ترین کارکردگی کا معیار برقرار رکھا، کتنے ہی لوگوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں، ان کو ایک وژن عطا کیا اور اس کے لیے کام کرنے کی راہ سُجھائی۔ ان کے ساتھ کام کرنے میں میرے جیسے کتنے لوگوں کی زندگیاں ایک نئے معنی اور مقصد کی علم بردار بن گئیں۔

دل امنگوں سے بھرپور اور آنکھوں میں بہت سے خواب لیے ہوئے، ہم پانچ چھ نوجوان ڈاکٹر تھے۔ جنھوں نے 10 اگست 1985ء کو اس شعبے میں کام کا آغاز کیا جسے جلد ہی ڈاکٹر برائنٹ کا شعبہ کہا جانے لگا۔

امریکی حکومت کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں، اقوام متحدہ میں، کولمبیا یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلتھ میں، تھائی لینڈ کی مختلف یونیورسٹیوں میں ڈاکٹر برائنٹ کے اتنے کارہائے نمایاں ہیں کہ ان کی تفصیل بیان کرنے کے لیے پوری ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ لیکن آغا خان یونیورسٹی میں کمیونٹی ہیلتھ سائنسز کے ذریعے جو کارنامہ انھوں نے سرانجام دیا، وہ شاید ان سب سے بڑھ کر تھا اور اس کو اپنی آنکھوں سے بنتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملا۔ اور اسی میں سیکھنے کا ایک پورا عمل تھا کہ جس نے زندگی بدل کر رکھ دی۔

اب سوچتا ہوں تو ڈاکٹر برائنٹ سے ملاقات اور ان سے گفتگو کا موقع زندگی بدل کر رکھ دینے والے لمحوں میں سے ایک تھا جن کے بارے میں اس سے پہلے صرف کتابوں میں پڑھا تھا۔ انھوں نے سوچنے کا انداز بدل کر رکھ دیا اور اس طرح کہ ہمیں پہلے پہل پتہ بھی نہیں چلا۔ کراچی کے درمیانی طبقے کے عام نوجوانوں کی طرح میں ان کچی آبادیوں سے واقف بھی نہیں تھا جن کے گلی محلّوں میں گھر گھر جاکر لوگوں سے بات کرنے اور مل کر کام کرنے کا قرینہ انھوں نے بتایا۔ یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ کچی آبادیاں ایک جیسی سیاہ اور سفید ساکت تصویریں نہیں ہیں بلکہ ان کی اپنی زندگی اور ہمہ ہمی موجود ہے جس کے اپنے رنگ ڈھنگ ہیں۔ کراچی کے مختلف کونوں میں پھیلی ہوئی یہ کچّی آبادیاں اس شہر کے مخصوص مزاج پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہیں کہ ان کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ کئی برس اس پروگرام کے تحت ان بستیوں میں کام کرنے کا تجربہ بہت کچھ سکھا گیا۔ ضلع ٹھٹھہ کے چھوٹے چھوٹے گائوں جن میں غربت اور محرومی کا ناقابل فراموش نقشہ دیکھا اور پھر گلگت کے پہاڑی علاقے جن میں قدرت کی فراوانی کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولیات کی محرومی نے وہاں کے رہنے والے جفاکش لوگوں کے حوصلے پست نہیں کیے۔ آغا خان یونیورسٹی سے نکل کر پبلک ہیلتھ کے شعبے کی اعلیٰ ترین درس گاہ ہارورڈ یونیورسٹی اسکول آف پبلک ہیلتھ میں داخلہ ملا اور میں بڑے فخر کے ساتھ وہاں گیا۔ پہلے ہی لیکچر میں اندازہ ہوا یہ ساری باتیں تو ڈاکٹر برائنٹ ہمیں بتا چکے ہیں، ہارورڈ میں میرے ہم سبق ڈاکٹر بزمی انعام کو اور مجھے لوگ اس وجہ سے پہچاننے لگے کہ یہ وہاں سے آئے ہیں جہاں ڈاکٹر برائنٹ کام کرتے ہیں۔ انھوں نے اس مقام کو پبلک ہیلتھ کے عالمی نقشے پر ایک سارے کی طرح روشن کر دیا۔

جنیوا میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رعب دار عمارت کے برآمدوں میں گھومتے ہوئے اور ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے اجلاس میں ساری دنیا کے مندوبین کی موجودگی (جہاں اس وقت پاکستان کے محکمۂ صحت کے اعلا افسر جنیوا میں شام گزارنے کے رنگین منصوبے تیار کرتے رہتے تھے) یہ اندازہ ہونے لگا تھا کہ اس شعبے میں ڈاکٹر برائنٹ کیا عزّت و مقام رکھتے ہیں۔ اس کا رنگ سی ایچ ایس کی کارکردگی سے بھی جھلکنے لگا۔ پوری تیاری کے ساتھ لیکچر، بین الاقوامی رابطے، اعلیٰ ترین اداروں کے سامنے اپنے کام کو پیش کرنا اور ہر چیز کو سلیقے سے پورا کرنا، یہ سب معمول کے کام بن گئے۔ نیپال، سری لنکا، ہندوستان، تھائی لینڈ، میکسیکو، کینیا__ پبلک ہیلتھ کے کتنے ہی منصوبے دیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے کہ گلگت کی پُنیال وادی میں شیر قلعہ سے آگے (جہاں اس وقت تک سڑک نہیں پہنچی تھی) رسّی اور لکڑی کے تختوں کے پل پر پھولتے ہوئے سانس اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے میں نے سوچا تھا، یہ مشن ناکام نہیں ہوسکتا۔ اسی جذبے کے ساتھ کام کیے جانا ہے۔ نیچے سیکڑوں فٹ دور، شور مچاتا ہوا دریا دھوپ میں چمک رہا تھا۔ میں شہر کی سیدھی، سپاٹ سڑکوں پر چلنے کا عادی تھا مگر اس لمحے میں نے اونچائی کے خوف پر قابو پا لیا تھا۔

ڈاکٹر برائنٹ کا ذہن ایک بڑے وژن کا حامل تھا۔ اس کے باوجود وہ سادہ مزاج تھے۔ دن میں اٹھارہ گھنٹے کام کرتے۔ ہم سوچا کرتے کہ یہ کبھی سوتے بھی ہیں۔ سفر کے دوران رات گئے کوئی کاغذ ان کے کمرے کے دروازے کے نیچے سے سرکا دو، صبح اس پر نوٹس تیار اور ہشاش بشاش ناشتے کی میز پر ملیں گے۔ وہ معمولات میں بہت پابند تھے۔ ایک ایک لمحے کو پوری طرح استعمال کرنا جانتے تھے۔ اپنے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے دُکھ درد سمجھتے تھے، ان کے ساتھ گھل مل کر باتیں کرتے اور پوری اپنائیت کا سلوک کرتے کہ سب کو گرویدہ بنا لیتے۔ خوش مزاج تھے اور سادگی پسند۔ ادارے کے اندر اور باہر، ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر میں نے ان کی تیوری پر بل نہیں دیکھا۔ کراچی میں رہتے رہتے موضوعاتی مقالوں کے ساتھ انگریزی میں نظمیں بھی لکھنے لگے جن سے یہاں کے مسائل پر ان کے حساس دل و دماغ پر پڑنے والے گہرے اثر کا اندازہ ہوتا تھا۔

مجھے کٹھمنڈو کی وہ شام بھی یاد ہے جب میٹنگ کے بعد ڈنر کے دوران انھوں نے اپنے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ ڈاکٹر برائنٹ یہاں سے جا بھی سکتے ہیں، یہ سوچ کر میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور مجھے اپنی تقریر ادھوری چھوڑنا پڑی تھی۔ پھر وہ اور نینسی، ان کی بیگم جو نرسنگ اسکول سے وابستہ تھیں، یہاں سے چلے گئے۔ انھوں نے تھائی لینڈ میں ایک یونیورسٹی میں کچھ عرصہ کام کیااور کینیا کے ایک ادارے میں جو ایچ آئی وی کے نتیجے میں یتیم بن جانے والے بچوں کی پرورش اور نگہداشت کرتا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریٹس مقرّر ہوئے۔ کئی بار یہاں آئے، بوڑھے تو وہ پہلے بھی تھے، ہر بار تھوڑے اور بوڑھے معلوم ہوتے۔ مگر حوصلے بلند اور اسی طرح دنیا کو بدل دینے والے منصوبوں کے خیال و خواب۔

ڈاکٹر برائنٹ کے بعد سی ایچ ایس بھی بدل گیا۔ ہم بھی وہ نہ رہے۔ زندگی کے سفر میں کون ایک جگہ رُک کر رہ سکتا ہے؟ پھر یہ معلوم ہوا کہ ورمونٹ میں اپنے فارم میں گزر بسر کرنے کے بعد وہ اور نینسی ورجینیا کے ایک ریٹائرمنٹ ہوم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہاں سے خیر تو نہ آئی مگر کسی نے اخبار کے تعزیتی کالم میں ان کا نام دیکھ کر یہاں اطلاع بھیجی۔ وہ بڑی سادگی سے چلے گئے مگر اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ گئے جو بھرنہ سکے گا اور بہت سارے لوگوں کے دل و دماغ میں یادوں کا اجلاس جس میں ان کا نام بہت عرصے تک چمکتا دمکتا رہے گا۔ ان کی یاد برابر آتی رہے گی۔ حالاں کہ ہم جانتے ہیں کہ کیا وہ ، کیا ہم سبھی قانون قدرت کے پابند ہیں۔ اقبال کے الفاظ میں:

ایک ہی قانون عالم گیر کے ہیں سب اثر

بوئے گل کا باغ ہے، گُل چیں کا دُنیا سے سفر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).