ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی جنت اور جہنم کے فیصلے


اک عظیم انسان، اور اک عظیم عورت، ڈاکٹر رُتھ فاؤ، کل87 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ میرا اللہ، جو تمام جہانوں، مکانوں اور مخلوقوں کا رب ہے، انہیں اپنے سائے میں جگہ دے، ان کے مقام بلند کرے، اور اگر مجھ گناہگار سے زندگی میں کبھی کبھار نیکی کا حادثہ سرزد ہو بھی گیا ہو تو جو ایک ڈیڑھ کنال کا محل جنت میں میرے نام کا بننا ہے، وہ بھی اس نیک روح کے حوالے کر دے۔ میرا اللہ الصمد (بےنیاز) ہے، تو اس سے اپنی ہی بےنیازی میں مانگ لینے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔

ڈاکٹر فاؤ کے بارے میں آپ نے جاننا ہو تو آپ بہت آرام سے Dr. Ruth Pfao لکھ کر گوگل کر سکتے ہیں، اور محترمہ گوگل صاحبہ، پل بھر میں آپ کو ان کے بارے میں لامتناہی معلومات لا فراہم کرے گا۔ خادم کی اس تحریر کا مقصد، ڈاکٹر فاؤ کی عظمت کی دلیل فراہم کرنا نہیں کہ پاکستان میں ہزاروں لاکھوں، اللہ کے ہی بنائے ہوئے انسان، جو کوڑھ و جذام کے مرض کا شکار ہوئے، ان کی عظمت کی چلتی پھرتی دلیل ہیں۔ میرے چار حرف لکھنے سے ان کی میں کیا بڑھوتری ہونی، یا چار حرف نہ لکھنے سے کیا کمی ہونی بھلا؟ یہاں مقصد، پاکستانی نوجوان، اور بالخصوص پڑھی لکھی مڈل کلاس کے پنجابی، پشتون اور کراچی میں موجود خواتین و حضرات کے دماغی و دہنی کوڑھ اور جذام کے بارے میں اک دو مشاہدات بیان کرنے ہیں۔

کل سوشل میڈیا پر گو کہ اکثریت ان احباب کی رہی جو ڈاکٹر فاؤ کی عظمت کے دلائل دے رہے تھے، مگر ان کے حق میں ان کی بعد از موت زندگی کے بارے میں دعائیں مفقود تھیں۔ تقریبا تمام نے ان کا شکریہ ادا کیا، یہ کہا کہ وہ اک عظیم خاتون تھیں، اور بس۔ اس کی بھی اک وجہ ہے صاحبو، جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ خیر، کُل تین پوسٹس نظر سے گزریں، جن میں تین جاننے والوں نے ان کے حق میں ان کے مقام کی بلندی، جنت میں گھر اور ان پراللہ کی رحمت کے حوالے سے دعائیں کی ہوئی تھیں۔ اور ان پوسٹس کے نیچے پڑھی لکھی مڈل کلاس کے پنجابی، پشتون اور اردو بولنے والے خواتین و حضرات کے عمومی فتاویٰ اپنے اپنے لشکارے مار رہے تھے کہ جس میں وہ اپنے تشریحاتی اسلام کے تحت اک ”کافر“ اور ”غیر مسلمہ“ کے حق میں دعا کرنے کے خلاف حوالہ جات نہ صرف لا رہے تھے، بلکہ ڈاکٹر فاؤ کے حق میں دعا کرنے والے دوستوں کا ایمان و ایقان بھی چھان رہے تھے، اور یہ کام اس شدت اور دلجمعی سے کررہے تھے کہ جیسے کل رات، اپنے سمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے دل میں ٹھرک کی خواہش رکھتے ہوئے، جنس مخالف سے راہ رسم بڑھانے کی دل لگی نہ کی ہو، بلکہ ساری رات رو رو کر نوافل ادا کیے ہوں، اور صبح تہجد اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد، اشراق کے نوافل پڑھے ہوں اور پھر سیاہ رنگ کے عربی گھوڑے پر بیٹھ کر اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہوئے ہوں۔

خواہش تو ہے کہ کھل کر تحریر کر دیا جائے، مگر صاحب، شہادت کا کوئی شوق نہیں، کہ زندگی اللہ کی نعمت ہے، اور شہادت کے لیے اک ماحول اور چیلنج چاہیے ہوتا ہے۔ نہ میں فوجی ہوں، نہ پولیس والا، اور تو اور، میں تو سیاستدان بھی نہیں کہ جن کی جبری شہادتیں بھی لے لی جاتی ہیں۔ بس کہنا صرف یہ ہے کہ اگر تقریبا تمام مذاہب میں موجود تصوراتِ خدا نے ہر بندے کا سفرِ آخرت فرد کی حیثیت میں الگ الگ رکھا ہے، تو براہ کرم، آپ کسی کے سفر آخرت کے تجزیہ کار نہ بنا کریں۔

آپ کے پاس حوالہ جات ہوں گے، بھلے ہوں، تو ایسے قرآنی احکامات بھی ہیں جس میں دوسرے مذاہب کے نیکوکاروں کے لیے بھی بہترین جزا کی نوید ہے۔ ان کا حوالہ ہے میرے پاس، مگر یہاں شئیر اس لیے نہیں کرونگا کہ پڑھی لکھی مڈل کلاس کے، کتابوں سے دور، اختلافی اخلاقیات سے نابلد، بحث کو گفتگو سمجھنے اور گفتگو سے قاصر، ”جھینگر سے ٹڈے“ بن جانے والے، بالخصوص مرد اور بالعموم خواتین، یہ کام خود کر لیں۔ یقین کریں کہ انٹرنیٹ پر فیس بک، ٹویٹر اور ”نسخہ ہائے برائے امراض خصوصی“ کے علاوہ بھی بہت کچھ مہیا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فاؤ جیسی نیک روح ہوں، یا مبشر اکرم جیسا سیاہ کار، آپ کو کچھ معلوم نہیں کہ کس کا انجام کیا ہے، اور بعد از انجام، کیا ماجرہ ہے۔ آپ کو کیا اپنا معلوم ہے؟ اور جب آپ کو اپنا ہی معلوم نہیں، تو براہِ کرم، نیوز میڈیا پر نظر آنے والےآفاقی بقراطان کی طرح دوسروں کے سفرِ آخرت پر اپنے تجزیات اپنے تک ہی محدود رکھا کریں۔ اور جس دن اپنے سفرِ آخرت کے بارے میں معلوم ہو، تو خادم خود کو پیش کرتا ہے کہ اس کے سفرِ آخرت کے بارے میں تجزیہ فرما دیجیے۔

تو پھر جناب، آج شام، گھر والوں کے سو جانے کے بعد، کتاب پڑھنی ہے، یا نسخہ ہائے امراضِ خصوصی کی تلاش میں فرہاد کی طرح انٹرنیٹ کا پہاڑ کاٹنا ہے؟

جواب مجھے معلوم ہے، آپ کو بھی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).