نظریاتی میاں صاحب یا نظریہ ضرورت کے میاں صاحب


پانامہ سکینڈل، پانامہ کیس اور نواز شریف صاحب کی نا اہلیت کے دوران کئی ایسے مرحلے آئے کہ ہم جیسے کئی خوش فہموں کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف صاحب ایک لیڈر، ایک راہنما کا کردار ادا کریں گے۔ دعویٰ بھی ساتھ ساتھ یہ رہا کہ میں اب نظریاتی شخص بن چکاہوں۔ ایک بڑی سیاسی پارٹی کے قائدکی حیثیت سے ان سے توقع تھی کہ اس موقع پر اپنی غلطیوں پر نظر کرتے، قوم کے سامنے آتے اور جہاں جہاں ماضی میں دانستہ یا نادانستہ کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کو عوام کے سامنے تسلیم کرتے، کرسی کی بجائے سسٹم کی مضبوطی کو ترجیح دیتے، دوسری سیاسی پارٹیوں سے مل بیٹھتے، جمہوریت کی مضبوطی کے لئے کوئی لائحہ عمل بناتے، جہاں جہاں دوسرے ادارے قصور وار تھے حکمت کے ساتھ ان کے بارے میں اپنی پارٹی اور عوام کو شعور دیتے، الزامات کی سیاست سے نہ صرف خود بلکہ اپنی پارٹی کے دوسرے لوگوں کو بھی دور کرتے۔

لیکن ہوا اس کے برعکس۔ کئی مراحل آئے جہاں عزت سادات بھی نہ جاتی اور مقبولیت بھی بڑھتی۔ نوشتۂ دیوار پڑھنے کی بجائے مست ہو کر دیوار کے نیچے اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک دیوار اوپر نہ آن گری۔ اور اب لاہور واپسی پر وہی پرانی باتیں اور وہی روایتی ہتھکنڈے۔ میاں صاحب کی طرف سے بھی اور آپ کی پارٹی کی طرف سے بھی۔ کیونکہ ایک قائد کی حیثیت سے پارٹی بھی آپ ہی کی ذمہ داری تھی۔

آپ کب سے نظریاتی ہوئے ہیں خدارا یہ خلش دور فرما دیجئے۔ آپ ضیاء الحق کی آمریت کا حصہ تھے۔ آپ نے نصرت بھٹو اور بے نظیر کی کردار کشی کی مہم چلائی۔ دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا، آپ جس اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کی آج بات کرتے ہیں اسی کے ساتھ مل کرآپ آئی جے آئی تشکیل دی تھی۔ آپ نے اداروں کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی اور جس عدلیہ کی آپ آج بات کرتے ہیں اسی عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلوں کی داغ بیل آپ نے ڈالی، سپریم کورٹ پر حملہ کس نظریے کے تحت تھا؟ چلیں آپ نے فرمایا آپ پہلے نظریاتی نہیں ہوتے تھے۔ نئے دور کی بات کرلیتے ہیں۔ جنرل مشرف کے سامنے اپنی ذات کے لئے آپ جھک گئے۔ دس سال کا معاہدہ کرکے قوم کے سامنے پہلے بالکل ہی مکر گئے پھر مدت کے معاملہ میں آپ نے الو بنانے کی کوشش کی۔ جرنیلوں سے رات کے اندھیروں میں ملاقاتیں آپ نے کیں۔ سڑکوں پر گھسیٹنے اور بجلی کے جھوٹے وعدوں کو آپ نے سیاسی اور انتخابی نعرے کہہ کر ٹال دیا۔ 63، 62جب تک کسی اور کو نقصان پہنچا رہی تھی اس وقت آپ نے رضا ربانی کی بھی نہ سنی۔ ملک کے وزیر اعظم کو نا اہل کرانے کالا کوٹ پہن کر نہ صرف آپ عدالت پہنچے بلکہ اپنے اس کارنامے پر فخر بھی کرتے رہے۔

ہو سکتا ہے آپ اپنے آخری دور حکومت میں نظریاتی ہوئے ہوں۔ لیکن یہ کیا کہ آپ ایک عرصہ تک قومی اسمبلی میں نہیں آئے، جب آئے تو اپنے ذاتی مفاد کے لئے آئے۔ آپ کی اپنی پارلیمانی پارٹی آپ سے ملنے کو ترستی رہی۔ آپ ہر حکومتی دورے میں اپنے بچوں اور ان کے بچوں کو لئے پھرتے رہے اور یہ بچے غیر ممالک اور اپنے ملک کی اعلیٰ سطحی میٹنگوں میں بیٹھے نظر آئے۔ آپ اپنی ہی پارٹی پر بعض بڑی وزارتوں کے حوالے سے اعتماد نہ کر سکے۔ آپ کی کچن کیبینٹ اور گھر کے لوگ ہی سارے فیصلے کرتے رہے۔ سب کچھ نظر آیا لیکن نظریاتی میاں صاحب نظر نہ آئے۔
لیکن نا اہلی اوراس کے پیچھے چھپی سازشوں نے تو ضرور آپ کو نظریاتی بنا دیا ہوگا یہ اس قوم کی آخری آس تھی۔ یقین کیجئے میاں صاحب آپ نے یہ امید بھی توڑ دی۔ آپ نے خود عدالت میں معاملات حل کرنے کا کہا، اس نے جس دن جے آئی ٹی بنائی آپ نے منہ میٹھا کیا لیکن اسی جے آئی ٹی نے جب حسب منشاء سوالات نہ کیے تو آپ نے فیصلے سے پہلے ہی جے آئی ٹی کے ساتھ ساتھ عدالت کو بھی مطعون کرنا شروع کردیا۔

آپ نے خود متنازعہ معلومات جے آئی ٹی کو فراہم کیں۔ آپ کے اپنے اور اپنے خاندان کے بیان میں بڑے بڑے تضادات تھے۔ لاہور واپس جاتے وقت جہلم کی تقریر تک آپ کے بیانات بھی وہی بیس سال پہلے والے ہیں اور حرکات بھی: ’’پانچ ججوں نے ایک منٹ میں نا اہل کیسے قرار دے دیا؟ نواز شریف نے یہ کیا، نواز شریف نے وہ کیا۔ وزیر اعظم بننے کا شوق نہیں آپ کی تقدیر بدلنے کا شوق ہے۔ ستر سال سے کوئی وزیر اعظم اپنا عرصہ پورا نہ کرسکا، ستر سال سے قوم کا استحصال ہورہا ہے۔ ‘‘آپ اداروں کے خلاف ہیلی کاپٹر سے پرچیاں پھینک رہے ہیں۔ آپ کے پومی بٹ عوام پر نوٹ پھینک رہے ہیں۔ آپ کے گلو بٹ صحافیوں کی ٹھکائی کررہے ہیں۔

میاں صاحب نظریہ اور نظریہ ضرورت میں بہت فرق ہے۔ نظریہ ضرورت کا سہارار تو اس ملک میں بہتوں نے لیا اور کامیابی سے لیا۔ لیکن کہاں ہے تین دفعہ کے منتخب وزیراعظم کا نظریہ اور کہاں ہے نظریاتی نواز شریف جس کی اس قوم کو اشد ضرورت رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).