جی ٹی روڈ تے بریکاں لگیاں


میں نے ہارے ہوئے لشکر کا ایسا جی دار سپہ سالار نہیں دیکھا، جو روپ رنگ آج نوازشریف پر چڑھا ہے، وہ پاکستان میں ایک نئے سیاسی دور کی ابتدا ہے

وہ قانون کی میز پر اپنی جنگ ہارچکا ہے، جی ٹی روڈ کی یہ ریلی نوازشریف کو نیب کے ریفرنسز سے نہیں بچاسکتی، تاحیات نا اہلی اب اہلیت میں نہیں بدلے گی، میاں نوازشریف کی یہ ریلی سول سپرمیسی کے لیے ہے، یہ پنجاب کی سیاست میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز ہے، یہ ریلی اسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے مرکز میں ایک بڑی دراڑ کے مترادف ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل اینکرز میاں نوازشریف کی اس کامیابی سے بوکھلاچکے ہیں اور وہ ہر قیمت پر اسے ناکام قرار دینے پر تلے ہیں، ریلی کے دوسرے دن جب نوازشریف کی گاڑی کی اسپیڈ تیز ہوئی تو کہا گیا کہ یہ ریلی کی ناکامی کی دلیل ہے مگر درحقیقت انہیں سعد رفیق کے ذریعے سیکیورٹی خدشات سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد اچانک اسپیڈ تیز ہوئی، راولپنڈی میں چوہدری نثار کے حلقے کے علاوہ دیگر علاقوں سے زیادہ لوگ نہیں آئے، جس کی وجہ سے تعداد وہ نہیں تھی جس کی توقع مسلم لیگ ن نے کی تھی مگر جیسے جیسے ریلی آگے بڑھتی گئی، عوام کا جم غفیر ساتھ ہوتا گیا۔

پاکستان میں سیاست دانوں کے لیے سیکیورٹی خدشات ایک بحران بن چکے ہیں، مخصوص سیاست دان ان سیکیورٹی خدشات سے ماورا مسلسل سیاسی ایونٹس کررہے ہیں جبکہ یہ خدشات پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے لیے تو اتنے شدید ہیں کہ وہ گزشتہ الیکشن میں اپنی کمپئن تک نہیں کرسکے، پاراچنار میں تو دلچسپ صورت حال ہوئی جب سانحے کے متاثرین سے ہمدردی کے لیے پی پی اور اے این پی کے راہنما پہنچے تو انہیں سیکیورٹی خدشات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ عمران خان اگلے روز گئے تو سیکیورٹی خدشات نہیں تھے، نوازشریف کی ریلی کے ذریعے پہلی بار ان سیکیورٹی خدشات کو کھلے عام چیلنج کیا گیا ہے۔

میاں نوازشریف نے اپنے خطابات میں کھل کر اعلان کردیا ہے کہ کسی عدالت کو حق نہیں کہ وہ عوام کے منتخب نمائندے کو گھر بھیجے، انہوں نے اسے عوام کے ووٹ کی توہین قرار دیا، میاں نوازشریف پہلی بار کسی سیاست دان کے بجائے اسٹیٹس مین کے روپ میں نظرآئے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ عوام ان کو بحال نہیں کرائیں بلکہ اس سسٹم سے نجات حاصل کریں جو اوسطاً ڈیڑھ سال میں ہر وزیراعظم کو گھر بھیج دیتا ہے، نوازشریف نے کہا کہ عوام کے نمائندے کو عوام ہی نکالنے کا اختیار رکھتے ہیں، آئندہ کسی اور کو جرات نہ ہو، اس وجہ سے وہ یہ ریلی نکال رہے ہیں۔

میاں نوازشریف نے نہ صرف دلیری سے یہ اعتراف کیا کہ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ درست نہیں تھا بلکہ یوسف رضاگیلانی کے عدالتی فیصلے کو بھی غلط قرار دیا حالانکہ ماضی میں اس فیصلے کی پرزور تائید کرچکے ہیں، یہ اعتراف ایک بہادری کی بات ہے، پاکستان میں سیاست چند لوگوں کے ہاتھ سے نکل کر عوام کے ہاتھوں میں جاتی دکھائی دے رہی ہے۔

میاں نوازشریف کی ریلی کو گناہوں کا کفارہ بھی کہا جاسکتا ہے، یہ ایک مکافات عمل کا حصہ بھی ہے، آج عمران خان کو وہی حیثیت حاصل ہے جو کل نوازشریف کو حاصل تھی اور عمران خان کے بعد پھر کوئی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا ہوگا، عوامی سیاست اور سول سپرمیسی میں ہی ایک عوامی نمائندے کی بقا ہے۔

ریلی کے بعد میاں نوازشریف کے سیاسی مستقبل میں کسی تبدیلی کا چانس نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ کا ایک سپاہی ڈوبتے ڈوبتے اسٹیبلشمنٹ کے گڑھ میں اسٹیبلشمنٹ کو لے کر ڈوبنا چاہ رہا ہے مگر وہ اس میں کامیاب ہوگا، شتربے مہاروکیل اینکرز کے آگے عوام کا فیصلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، وہ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر کروڑوں کا مستقبل طے کردیتے ہیں تو ایسے میں کہیں میاں نوازشریف کی کوشش بے کار نہ چلی جائے، اگر میاں صاحب اسٹیٹس مین بنے ہیں تو اپنے کارڈز دیکھ بھال کر کھیلیں۔ یہ ان کی سیاسی زندگی کی آخری اننگ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).