شٹ اپ کیپٹن صفدر!


بچہ مر گیا
جمہوریت کا قافلہ آگے بڑھ گیا
نواز شریف کی جدوجہد کو بس شہید کے خون کی ضرورت تھی، سو بالآخر ایک بچہ جمہوریت کی راہ میں کچلا گیا اور صد آفرین کہ کیپٹن صفدر جیسے درویش صفت مجاہد نے بچے کی کچلی گئی لاش کو اس جدوجہد کا شہید ہونے کا تمغہ بھی عطا کر دیا، جو سیدھا بچے کے باپ کے دل میں جا لگا ہے۔

کہنے کو بہت سے جذباتی جملے کہے اور لکھے جا سکتے ہیں اور شاید لکھے بھی جا رہے ہیں، جن میں کیپٹن صفدر اور مریم نواز کے بچوں کے لیے بد دعائیں بھی ہیں جو اللہ نہ کرے قبولیت حاصل کریں۔
مگر جو تلخ حقیقت کہے جانے کے لیے منہ پھاڑے سوالیہ نشان کی صورت موجود ہے، وہ یہ ہے کہ کیپٹن صفدر ہوتے کون ہیں انسانیت اور قانون سے گرا ہوا حیوانی بیان دینے والے؟

اس ملک کے سینے پر جس طرح طنطنے کے ساتھ گردن اکڑا کر وہ ایک بچے کے کچلے جانے پر بیان جاری کر رہے تھے اور اس ملک پر قربان ہونے والی جانوں کی تعداد میں ایک اور جان کا اضافہ کر رہے تھے، اس ملک میں ان کی اپنی حیثیت کیا ہے؟
ان کی اپنی قربانی کا حساب کیا ہے؟

ایک دولت مند حکمران خاندان کی بیٹی کو اپنے جال میں گھیر لینے کی قربانی ہے نا آپ کے کھاتے میں؟
اس بیٹی کے ذریعے حکومتی ایوانوں میں گھس جانے کی قربانیاں دی ہیں آپ نے؟
وزیراعظم ہاؤس کے مفت مزے لوٹنے کی قربانیوں کی فہرست ہی تو ہے آپ کے پاس؟
بیوی کے ذریعے براہِ راست اور بلواسطہ طریقوں سے حکومتی معاملات میں مداخلت کے کارنامے ہیں آپ کے حصّے میں؟
اس سے زیادہ کیا ہیں آپ؟

صرف سابق وزیراعظم کے متوسط طبقے کے نکھٹو گھر داماد ہونے کے جو بقول آپ کے درویش بھی ہے اور ان کی لوٹ مار سے بے خبر بھی۔
مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ آپ ایک بچے کی لاش پر اس دھڑلے سے بیان جاری کریں۔
آپ کو پتہ بھی ہے کہ بچہ کیا ہوتا ہے؟

آپ کے بچے منہ میں مفت کے سونے کے چمچ لیے حکمرانوں اور دولتمندوں کی گود میں پیدا ہوئے ہیں نا، آپ ہرگز نہیں جانتے کہ بچہ کیا ہوتا ہے۔
بچہ نو مہینے ماں اپنی کوکھ میں رکھ کر جیتی مرتی رہتی ہے۔ خون پسینہ بلو بلو کر ماں باپ بچہ پالتے ہیں اور ہتھیلی کے چھالے کی طرح دنیا میں لیے لیے پھرتے ہیں۔ اس کے لیے ایک اچھی طویل زندگی کی آرزو لیے۔

گو کہ آپ کو تو یہ بچہ ننگے پیروں، دھول میں اٹا ہوا، پھٹے میلے کپڑوں میں شاندار مگر گمنام گاڑی کے پہیوں تلے پڑا ہوا ملا ہوگا مگر بارہ سال۔ پورے بارہ سال ماں باپ نے اس کے لیے خواب بُنے ہیں۔ اس کی جوانی کے خواب۔ گھبروُ جوان ہونے کے خواب۔ اس کے خوشحال روزگار کے خواب۔ اس کے ماتھے پر سہرے سجنے کے خواب۔ اس کی اولاد کے خواب۔ دنیا میں اسے شاد و آباد چھوڑ کر جانے کے خواب۔
اور آپ نے کھڑے کھڑے حساب برابر بھی کر دیا سات لاکھ شہیدوں میں ایک نمبر کا اضافہ کر کے؟
محض ایک نمبر!
ٹوٹل ہوئے سات لاکھ ایک شہدا!

اور اتنا تکبر ہے آپ کے اندر اپنی دینداری کا کہ نوید بھی سنادی کہ بس اب اللہ اس کے درجات بلند کرے گا!
آپ کو اللہ نے اختیار دیا ہے درجات طے کرنے کا؟ ثواب کی بندر بانٹ کا؟
اللہ کی پکڑ کی کچھ خبر بھی ہے آپ کو؟ درویش قرار دیتے ہیں خود کو آپ اور دینداروں کی صحبت کے دعویدار بن کر اِتراتے پھرتے ہیں!

کچھ خبر بھی ہے کہ کتنا نازک ترین معاملہ ہے یہ اللہ کے حضور!
ایک انسانی جان!
ایک ماں کی فریاد!
ایک باپ کی آہ!
بمقابلہ
ظلم، جبر، تکبر، نا انصافی، حکمرانی کا زعم، دولت کا خمار، طاقت کا مظاہرہ!
کچھ جانتے بھی ہیں آپ کہ اللہ کے ترازو میں ان دونوں کا تول مول کیا نکلے گا؟

ہم جانتے ہیں کہ صبح ہونے تک اپنا سیاسی وقار بحال کرنے کے لیے آپ لوگ پیسہ لے کر ان غریبوں کے پاس پہنچ جائیں گے۔
مریم نواز بھی اس بیچ سُرخ جوڑا زیب تن کیے، میک اپ کروا کر، سج دھج کر میڈیا کی اسکرین پر بیان جاری کر چکی ہیں بچے کی موت پر ہمدردی کا۔
مگر کیپٹن صفدر
معاملہ صرف بچے کے والدین کا نہیں ہے۔ معاملہ عوام کا بھی ہے۔
معاملہ آپ کی حیثیت کا بھی ہے۔

ہم عوام اپنی اور اپنی نسلوں کی جانوں پر کھیلنے اور بیان بازی کرنے کا حق حاضر سروس یا سابق وزیراعظموں کے نکھٹو گھر دامادوں کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتے۔
آپ سے زیادہ جمہوریت کی ہمیں سمجھ ہے۔ ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چاہیے جس کے پہیوں تلے ہمارے معصوم بچے کُچلے جائیں۔
ہمیں وہ جمہوریت چاہیے جو دولتمند حکمرانوں کے گھر دامادوں کی مفت خوری سے اور ان کی لاڈلی بیٹیوں کے چونچلوں سے آزاد ہو۔

ہمیں اپنے ووٹ بھی بچانے آتے ہیں اور جمہوریت بھی بچانی آتی ہے۔
مگر اس سے بہت پہلے ہمیں اپنے بچے عزیز ہیں۔
ہمارے پیارے پیارے معصوم اور ہنستے کھیلتے بچے۔

آپ کو سیاپا ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنا منہ بند رکھیے اور چپ ہو جائیے۔
شٹ اپ۔ جسٹ شٹ اپ کیپٹن صفدر!

 

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah