جنرل ضیا الحق کا قوم سے خطاب


خواتین و حضرات اسلام علیکم! میں آج اس ملک کی عظیم قوم سے خطاب کرنے کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالی کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ حکومت ختم ہو چکی ہے اور اس کی جگہ ایک عبوری حکومت قائم کی گئی ہے۔ یہ تبدیلی جو گزشتہ شب آدھی رات کو شروع ہوئی آج صبح ختم ہو گئی اور اللہ تعالی کا شکر ہے کہ پر امن طور پر ختم ہوئی۔ یہ تمام کارروائی میرے حکم پر عمل میں آئی، اس عرصے میں وزیر اعظم اور ان کے اکثر رفقاء اور اسی طرح کے قائدین کو بھی حفاظت میں لیا گیا ہے۔

اس اقدام پر موصول ہونے والے تاثرات حسب توقع نہایت حوصلہ افزاء ہیں، مختلف جگہوں سے مبارکباد کے پیغامات کی بھرمار لگ گئی ہے، میں اپنی قوم اور اپنی زندہ دل و مومن افواج کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہو گا کہ چند حضرات نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ کہیں یہ کارروائی کسی کے ایماء پر تو نہیں کی گئی؟ کہیں یہ جنرل کی سابق وزیر اعظم سے کوئی خٰفیہ ملی بھگت تو نہیں ہے؟ اس کے متعلق یہ عرض کروں گا کہ حقائق کبھی چھپے نہیں رہتے۔ پچھلے چند ماہ کے تجربے سے اتنی زیادہ بد گمانی ہو گئی ہے کہ اچھے بھلے لوگ بھی شک و شبہ میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

آج صبح آپ نے سن لیا ہو گا کہ افواج پاکستان نے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے۔ افواج پاکستان کے لیے ملکی نظام سنبھالا کوئی مستحسن اقدام نہیں کیوں کہ افواج پاکستان دل سے چاہتی ہے کہ ملک کی بھاگ دوڑ عوام کے ہاتھوں میں رہے جو صحیح طور پر اس کے حق دار ہیں۔ عوام اپنا حق اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں جس کے لیے ہر جمہوری ملک میں وقتاً فوقتاً انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی گزشتہ انتخابات ہوئے جس کا نتیجہ ایک فریق نے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، انتخابات میں دھاندلی کے الزامات نے جلد ہی ملک میں دوبارہ انتخابات کے مطالبے کی شکل اختیار کر لی۔ اس مطالبے کو تسلیم کرانے کے لیے ایک تحریک چلائی گئی جس کے دوران یہ خیال آرائی کی گئی کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں چل سکتی لیکن میں دلی طور پر سمجھتاہوں کہ اس ملک کی بقاء جمہوریت اور صرف جمہوریت میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اشتعال انگیز حالات اور مختلف سیاسی دباؤ کے باوجود افواج پاکستان نے حالیہ حالات میں اقتدار سنبھالنے سے گریز کیا۔

افواج پاکستان کی یہی کوشش رہی کہ سیاسی بحران کا کوئی سیاسی حل تلاش کیا جائے، اس مقصد کے پیش نظر افواج نے حکومت وقت پر کئی بار زور دیا کہ وہ جلد از جلد مذاکرات کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین سے کوئی تصفیہ کر لے، ان مذاکرات کے لیے وقت درکار تھا جو افواج پاکستان نے نظم و نسق برقرار رکھ کر مہیا کیا، بعض حلقوں میں فوج کے اس کردار پر نکتہ چینی بھی کی گئی لیکن یہ سب کچھ ہم نے اس وجہ سے برداشت کیا کہ یہ وقتی چیز ہے جب قوم اس ہیجانی اور جذباتی کیفیت سے نکلے گی تو اسے افواج پاکستا ن کے صحیح اور آئینی کردار سے متعلق تمام شک و شہبات دور ہو جائیں گے۔ میں نے ابھی آپ کے سامنے ملک کو درپیش صورتحال کا نقشہ پیش کیا ہے جس سے آپ پر واضح ہو گیا ہو گا کہ جب سیاستدان ملک کو بحران سے نکالنے میں ناکام رہیں تو افواج پاکستان کے لیے ایک خاموش تماشائی بنے رہنا ایک جرم ہے یہی وجہ ہے کہ فوج کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑی۔

یہ اقدام صرف ملک کو بچانے کی خاطر کیا گیا ہے، یہاں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مجھے فریقین میں آپس میں سمجھوتے کا کوئی امکان نظر نہیں آیا، اس کی خاص وجہ آپس کی بے اعتمادی اور ایک دوسرے پر بد گمانی تھی، ان حالات میں اس بات کا اندیشہ تھا کہ اس صورتحال میں ملک ایک بار پھر افرا تفری اور سنگین بحران کا شکار ہو جائے گا، یہ خطرہ مول لینا قوم کے مفاد میں ہر گز نہیں تھا۔ چنانچہ یہ فوجی کارروائی عمل میں لانی پڑی۔ اب حکومت ختم ہو چکی ہے، سارے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئیں ہیں صوبائی گورنرز اور وزیر ہٹا دیے گئے ہیں۔

البتہ آئین کو منسوخ نہیں کیا گیا ہے اس کے بعض حصوں پر عمل در آمد روک دیا گیا ہے اور اسی آئین کے تحت صدر مملکت نے حسب سابق اپنی ذمہ داریاں جاری رکھنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں، وہ سربراہ مملکت کے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ اہم مسائل میں ان کی مدد کر کے لیے ایک ملٹری کونسل کی تشکیل دی گئی ہے، یہ کونسل چار افراد پر مشتمل ہو گی جس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور بری، بحری، ہوائی افواج کے چیف آف اسٹاف شامل ہوں گے۔

میں چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر کی ذمہ داریاں ادا کروں گا، حسب ضرورت مارشل لاء آرڈر اور مارشل لاء انسٹریکشن جاری کیے جائیں گے، آج صبح میں چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی ملا، میں ان کے مشورے اور قانونی مشورے کے لیے از حد مشکور ہوں، میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ نہ تو میرے کوئی سیاسی عزائم ہیں اور نہ فوج اپنے عزائم سے اکھڑنا چاہتی ہے مجھے صرف اس خلا کو پر کرنے کے لیے آنا پڑا ہے جو سیاستدانوں نے پیدا کیا اور میں نے یہ چیلینج صرف اسلام کے ایک سپاہی کی حیثیت سے قبول کیا ہے، میرا واحد مقصد آزادانہ، منصفانہ انتخابات کرانا ہے، انتخابات مکمل ہوتے ہی میں اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپ دوں گا اور میں اس لائحہ عمل سے ہر گز انحراف نہیں کروں گا۔ آئندہ تین دنوں میں میری ساری توجہ انتخابات پر مرکوز ہو گی اور میں اپنے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات کو اور معاملا ت میں ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اس موقع پر یہ ذکر کرنا بھی بے محل نہ ہو گا کہ ملک کی عدلیہ کے لیے میرے دل میں بے حد احترام ہے، میری پوری کوشش ہو گی کہ جہاں تک ممکن ہو عدلیہ کے اختیارات محدود نہ ہوں۔ تا ہم بعض ناگزیر حالات میں مارشل لاء آرڈر اور مارشل لاء ریگولیشن جاری کرنا ضروری ہوں گے اور مجھے توقع ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اس کام میں مجھ سے تعاون کریں گی۔ حالیہ سیاسی محاذ آرائی سے سیاسی ماحول میں خاصی کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اس لیے جذبات کو ٹھنڈا کر نے کے لیے وقت درکار ہے۔ چنانچہ آج سے تا حکم ثانی ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے اور انتخابات سے پہلے سیاسی سرگرمیاں بحال کر دی جائیں گیں۔

میرے عزیز ہم وطنو میں نے اپنے دل کی بات کھول کر آپ کے سامنے رکھ دی ہے، میں نے آپ کو اپنے عزائم کے بارے میں اعتما د میں لے لیا ہے، اب میں اس مشن کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالی سے راہنمائی اور آپ سے مدد کا طلب گار ہوں، امید ہے کہ عدلیہ، انتظامیہ اور عام شہری میرے ساتھ تعاون کرے گی۔ میری یہ کوشش ہو گی کہ مارشل لاء نہ صرف انصاف اور سب سے برابری کا بر تاؤ کرے بلکہ عوام کو اس بات کا انصاف دے۔ سول انتطامیہ کو اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنا ہے، لہذا میں یہ اعلان کر کے خوشی محسوس کرتا ہوں کہ میری درخواست پر صوبے کی ہر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے قائم مقام گورنر بننا قبول کر لیا ہے۔

انتظامیہ میں بعض افسران کو اپنے مستقبل کے بارے میں خدشات ہوں تو میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ کسی کو بھی نا کردہ گناہوں کی سزا نہیں دی جائے گی۔ البتہ اگر کسی سرکاری افسر نے اپنے فرائض سے کوتاہی برتی، جانبداری سے کام لیا یا ملک و قوم سے بے وفائی کی تو اس کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی شہری نے امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تو اس سے بھی سختی سے نمٹا جائے گا۔ میری خواہش ہے کہ اخبارات آذادی صحافت کے علمبردار ہوں مگر ضابطہ اخلاق سے انحراف نہ کریں۔ قوم میں ہوش مندی پیدا ہو، ہر شخص کا جان و مال محفوظ ہو، ملک میں امن و امان قائم رہے اور غنڈہ گردی کا خاتمہ ہو۔ درس گاہیں سیاسی اکھاڑ ہ نہ بنیں، شکریہ پاکستان پائندہ باد۔

عزیز ہم وطنو۔ مندرجہ بالا تحریر کا ایک لفظ بھی میرا نہیں ہے یہ تمام الفاظ سابق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے ہیں۔ یہ وہ تقریر ہے جو انہوں نے پانچ جولائی انیس سو ستتر کو بھٹو حکومت کو بر طرف کرنے کے بعد کی تھی۔ اس کے بعد اس ملک خداداد میں گیارہ سالہ دور آمریت مسلط کر دیا گیا۔ بھٹو کو پھانسی، طلباء تنظیموں پر پابندی، مذہبی منافرت، سیاسی کارکنوں کو عقوبت میں سزائیں، سرعام کوڑے، دہشت گردی، جہادی مدارس، لسانی جماعتیں، کلاشنکوف کلچر، سانحہ اوجڑی کیمپ، فرقوں کی سیاست، غیر جماعتی انتخابات اور جونیجو حکومت کی بر طرفی اس دور ستم ظریفی کی یاد گاریں ہیں۔ فسا د خلق اور طوالت سے بچنے کے لیے اس خطاب میں سے صرف چند نام اور جملے حذف کیے ہیں۔ حالات وواقعات سے کوئی مماثلت اتفاقی ہو سکتی ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar