تاریخ اور ننکانہ صاحب کی ملازمہ


یہ بات بتانا شاید بالکل ضروری نہیں کہ میں ان دنوں پاکستان سے پوری آدھی دنیا دور ، ایک یادگار قسم کی چھٹیاں منارہا ہوں۔ وقت کا فاصلہ بھی 12گھنٹے کا ہے۔ یعنی جو کچھ میں چار ہفتوں کے اس وقفے میں لکھوں اس پر اس دوری کا سایہ پڑتا رہے گا۔ اور اگر نہ لکھ سکوں تو یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی ہے۔ دور کی دنیائوں سے اب ہمارا رشتہ ، ذاتی اور خاندانی سطح پر ، اتنا عام ہے کہ کسی روایتی سفر نامے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سو میں صرف یہ کہوں گا کہ یہاں آکر پاکستان کو دیکھنے کا انداز کچھ بدل سا جاتا ہے۔ ایک تو یہ کہ دن میں دو تین بار میں پاکستان کے نیوز چینل دیکھ لیتا ہوں۔ یہ وہ کام ہے جو میں نے کراچی میں کرنا تقریباً چھوڑ دیا تھا۔ آپ کو احساس ہے کہ یہ دن کتنے ہنگامہ خیز ہیں۔ سیاست کی ہلچل نے سب کو بے چین کردیا ہے۔ اور یہ ہفتہ تو حالات حاضرہ کی حدوں سے آگے، قومی زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل کو اپنے دامن میں سمیٹے ہے۔ یوم آزادی کی دستک سنائی دے رہی ہے اور اس سالگرہ کی تاریخی اہمیت کا ذکر عالمی میڈیا میں کیا جارہا ہے۔ گزرے ہوئے 70سالوں پر ناقدانہ نظر یوں ڈالی جارہی ہے کہ دیکھو، پاکستان نے اور ہندوستان نے اپنی آزادی کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ ایک طرف 1947کے فسادات اور دس لاکھ کے قریب انسانوں کے قتل اور اس سے دس گنا افرادکی ہجرت کا المیہ ہے تو دوسری طرف دونوں ملکوں کی موجودہ صورت حال کا نوحہ۔

 

جو کچھ میں نے پڑھا اور دیکھا ہے اس میں ہندوستان میں ہندوقوم پرستی کی وحشتوں کا کافی ذکر ہے۔ لیکن ہمیں تو اپنے پاکستان کی خیر منانا ہے۔ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ نواز شریف نے اقتدار کے شہر سے نکل کر جی ٹی روڈ پر کہاں جانے کے سفر کا آغاز کیا تھا اور اس کا بھی ہمیں اندازہ ہے کہ عمران خاں ایک جگہ بیٹھ کر بھی کہاں جانے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ کسے معلوم ہے کہ پاکستان کہاں جارہا ہے۔ یہ کون دیکھ اور سمجھ رہا ہے کہ پچھلے 70سالوں میں پاکستان نے کس جانب کتنا فاصلہ طے کیا ہے اور اس راستے میں کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔ مشکل تو یہ ہے کہ جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے وہی ہمیں دکھائی نہیں دیتا ۔ تعصب اور جانب داری کی پٹی ہماری آنکھوں پر بندھی رہتی ہے۔ اپنے اپنے لیڈروں کی خامیوں اور اخلاقی بے راہ روی کو ہم جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں اور ہمیں شرم بھی نہیں آتی۔ ایک پارٹی کا جوکر اپنی وفاداری تبدیل کرکے دوسری پارٹی کا دانشور بن جاتا ہے۔ بہت کم کردار یہ سمجھ پاتے ہیں کہ اس سارے کھیل کا اسکرپٹ کون لکھ رہا ہے۔

یہ دیکھئے کہ کتنے گمبھیر سوال تاریخ ہم سے پوچھ رہی ہے۔ یہ وہ موسم ہے جب قائداعظم کے وژن کے بارے میں بہت گفتگو ہوتی ہے۔ لیکن ان کے پیغام کو سرکاری سطح پر تبدیل کردینے کی ایک مثال مجھے بہت تنگ کرتی ہے اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک کے مقتدر طبقے ایسی فکری بددیانتی کو کیسے قبول کرسکتے ہیں۔ میرا اشارہ قائداعظم کے تین لفظوں کے اس نعرے کی طرف ہے جس میں اب ایک تبدیلی کردی گئی ہے یعنی ’’یونٹی ، فیتھ اور ڈسپلن کی ترتیب میں اب ’’فیتھ‘‘ کو پہلے لکھا جاتا ہے اور اس کا ترجمہ ایمان کیا جاتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس نعرے کا ترجمہ پہلے ’’اتحاد ، یقین محکم اور تنظیم‘‘ کیا جاتا تھا۔ کراچی میںتین تلواروں کے چوراہے سے ہر روز ہزاروں افراد گزرتے ہیں اور وہ اس یادگار پر لکھے لفظ پڑھ سکتے ہیں۔ تو یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ یہ فیصلے کون کرتا ہے؟ کیا تاریخ کی سچائیاں ، خواہ وہ کچھ بھی ہوں، تبدیل کی جاسکتی ہیں؟ لیکن ہم ایسا کرتے ہیں۔ یہی پاکستان کی کہانی ہے اور اسی لئے ہماری نظر میں حقائق کی کوئی حیثیت نہیں۔ قائداعظم کی 11؍اگست 1947ء کی تقریر کا معاملہ بھی اسی طرح انتہائی پیچیدہ ہے۔ ہاں ، جو کچھ انہوں نے کہا اس پر حیرت کا اظہار تو جائز ہے۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ انہوں نے آزادی کے وقت ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور بربریت سے کیا نتائج اخذ کئے ۔ آخر آزادی کی تحریک کے دوران تو کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ اتنا خون بہے گا اور اتنے گھر اجڑیں گے اور 70 سال بعد، ابھی تک ہم تاریخ کے اس ستم کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں۔

میں معذرت چاہتا ہوں میرا مقصد تاریخ کے زخموں کو کریدنا بالکل نہیں۔ اگر ہم تاریخ کا سامنا نہیں کر سکتے تو چھوڑیئے، ماضی کے بجائے آج کے حالات کی بات کرتے ہیں۔ اس پاکستان کی بات کرتے ہیں جس میں ہم آج زندہ ہیں۔ میں نے سیاسی ہلچل کا ذکر کیا ۔مجھے ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے ہم سیاست کے نشے میں اتنے مدہوش رہتے ہیں کہ معاشرے کے خدوخال ہمیں دکھائی بھی نہیں دیتے۔ پاکستان سے اتنی دور، میں نے انٹرنیٹ پر پاکستان کی چند ایسی خبریں دیکھی ہیں جن سے نباہ کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ ویسے ایسی ہی خبریں آئے دن ہم دیکھتے اور پڑھتے ہیں اور ان کا ہماری حکمرانوں کی سوچ اور پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ میں تو اب کسی ایسے سانحے ،حادثے یا واقعہ کا تصور بھی نہیں کر سکتا جو ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھول دے اور وہ انقلابی پیمانے پر اپنا راستہ بدل دیں۔ ملک کے ٹوٹنے کے بعد ایسا نہیں ہوا۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو بہیمانہ قتل کے بعد شور تو بہت مچا مگر پاکستان تبدیل نہ ہوا۔ نیشنل ایکشن پلان تک پوری طرح عمل نہیں ہوا۔ مختاراں مائی کے واقعہ کو 15سال گزر چکے ہیں اور ویسے ّ ہی ظلم کسی جرگے کے فیصلے کی صورت میں اب بھی ہورہے ہیں

 

تو اب میں جن ایک دو خبروں کا ذکر رہا ہوں ان کی کیا حیثیت ہے۔ بہرحال میں نے یہ خبر پڑھی کہ ایک گھریلو ملازمہ یوں ہلاک ہو گئی کہ اس پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔ بتایا یہ گیا کہ اس نے اپنے مالکوں سے قرض لیا تھا جو ادا نہ ہوا، اچھا، میں مالک کہہ رہا ہوں تو ملازمہ کو صحیح معنوں میں غلام کہنا چاہئے۔ اب یہ ممکن ہے کہ اس خبر کی تفصیلات مختلف ہوں۔ لیکن ملازموں کے ساتھ ایسے سلوک کی دوسری مثالیں تو پچھلے دنوں منظر عام پر آچکی ہیں۔ تو کہنے کی بات یہ ہے کہ آزادی کے 70سال بعد بھی ہمارے معاشرے میں انسانی رشتوں کی صورتحال کیا ہے۔ یہ واقعہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب سے رپورٹ کیا گیا ہے۔ ایک اور خبر اسی ہفتے کی یہ تھی کہ ملتان میں، لاہور ہائی کورٹ کی مقامی بنچ کی عدالت کے باہر ایک شادی شدہ خاتون کو اس کے چھوٹے بھائی ّنے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ غیرت کے نام پر قتل کا ایک اور واقعہ اسلام آباد کے مضافات میں پیش آیا جس میں ایک خاتون اور اس کی بیٹی اور ایک مرد کی جان گئی۔ کئی دوسری ایسی خبریں بھی ہیں جو ہمارے معاشرے کی پس ماندگی اور جہالت کا پتہ دیتی ہیں۔ لیکن ہماری سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں اور بڑی حد تک میڈیا کو ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اور جولوگ معاشرے کی ناانصافیوں کے بارے میں پریشان رہتے ہیں اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں ان کی اپنے وطن سےمحبت پر شک بھی کیاجاتا ہے۔ اور یہ شک وہ لوگ کرتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف انہیں کو یہ معلوم ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).