ہم نے دشمن کیسے ایجاد کیا؟


آپ کہاں سے ہیں؟

اٹلی سے۔

آپ کے دشمن کون رہے ہیں؟

میں سمجھا نہیں۔

میرا مطلب ہے وہ کون لوگ ہیں، جن کے خلاف صدیوں تک آپ لڑتے رہے ہیں، زمین کی ملکیت، نسلی رقابت، سرحدی در اندازیوں وغیرہ پر؟

ہم کسی کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہے۔

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے تاریخی دشمن کون تھے؟ وہ جنھیں آپ لوگوں نے قتل کیا، اور جنھوں نے آپ لوگوں کو۔

ہم گزشتہ نصف صدی سے کسی کے خلاف جنگ نہیں کر رہے۔

یہ بات میرے پلے نہیں پڑی۔

یہ اس مکالمے کا ڈھیلا ڈھالا ترجمہ ہے، جو ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور اور امبرٹو ایکو کے درمیان، نیویارک میں ہوا۔ ممتاز اطالوی فلسفی، نقادو ناول نگارامبر ٹو ایکو نے اسے اپنے مضامین کے مجموعے Inventing The Enemyمیں درج کیا ہے۔ جیسا کہ اس مکالمے سے ظاہر ہے کہ پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کو یقین نہیں آتا کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی بھی ہوسکتی ہے جس کا کوئی دشمن نہ ہو۔ اس کے مطابق اگر اس وقت دشمن موجود نہیں تو تاریخ میں ضرور موجود رہا ہو گا۔

 یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نیویارک کی سڑکوں پر، بھانت بھانت کے لوگوں کو ان کی منزل پر پہنچا کر اپنی روزی روٹی کماتا ایک پاکستانی، 2008ء میں، ایک یورپی سے یہی سوال کیوں پوچھتا ہے؟ اس کے ذہن میں یہ بات کیسے بیٹھ گئی ہے کہ قوم کا تصور دشمن کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا؟ کیا یہ نائن الیون کے بعد امریکا میں خصوصاً شروع ہونے والے اسلامو فوبیا کا نتیجہ اور ردّ عمل ہے، یا اس پاکستانی کے ذہن کی ساخت کی نشان دہی کرتا ہے، جو گزشتہ ڈیڑھ صدی میں قوم پرستی کے ہاتھوں تعمیر ہوئی ہے، اور وہ کبھی اپنی جغرافیائی حدود میں اور کبھی اس سے باہر اپنا تاریخی دشمن تلاش کرتی ہے، یا واقعی دنیا کی ہر قوم، اپنا ایک دشمن رکھتی ہے؟ اگر دشمن نہ ہو تو اپنا ایک دشمن ایجاد کر لیتی ہے، اور اس میں پاکستانی، ہندوستانی، یورپی، امریکی، افریقی کی تخصیص نہیں؟ ہمارا خیال ہے کہ ان سب باتوں میں کچھ نہ کچھ سچائی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ میں زیادہ سچائی ہے، کچھ میں کم۔ مثلاً یہ بات بڑی حد تک سچ ہے کہ انیسویں صدی سے رائج ہونے والے قوم کے نظریے میں کسی نہ کسی دشمن کی طرف اشارہ موجود ہے۔ قومیت کی بنیاد پر وجود میں آنے والی سلطنتیں اپنی حقیقی یا نظریاتی یا دونوں سرحدوں پر کسی نہ کسی دشمن کی دراندازی کا خوف رکھتی ہیں، اور اس کے مقابلے کے لیے عسکری اور نظریاتی تیاری میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کی معیشت کا بڑا حصہ عسکری تیاریوں پر اور ان کی تخلیقی و ذہنی صلاحیتوں کا بڑا حصہ نظریاتی دفاع پر خرچ ہوتا ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ نائن الیون کے بعد شدت سے ظاہر ہونے والا اسلامو فوبیا بھی، قوم کے تصور میں دشمن کی موجودگی میں یقین کرنے کا ذمہ دار ہے۔

 اسی طرح اس بات میں بھی سچائی کا عنصر زیادہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سوسال کے دوران میں، جنوبی ایشیا کے مسلمان کے ذہن میں یہ تصور راسخ ہوا ہے کہ اس کی سیاسی، علمی، معاشی اور ثقافتی سطحوں پر ہونے والی پسپائی میں اہم ترین عامل دشمنی کا ہے۔ ’ اسلام کے دشمنوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا‘۔ ’ہماری تہذیب کے دشمنوں نے ہمیں اس حال کو پہنچایا‘۔ ’دین وملت و قوم کے دشمنوں کا یہ کیا دھرا ہے‘۔ یہ وہ بنیادی بیانیہ ہے جو نصابات، ذرائع ابلاغ، منبر کے خطبوں اور عام گفتگوﺅں کے ذریعے جنوبی ایشیائی مسلمانوں تک پہنچا اور پہنچ رہا ہے، اور اپنی اور معاصر دنیا سے متعلق تصورات کی بنیاد بنا ہے۔ نیویارک کا ٹیکسی ڈرائیور بھی اس بیانیے میں شریک ہے۔

یہ بات جس قدر واضح ہے کہ تاریخی طور پر اور معاصر دنیا میں ہمارے (یعنی جنوبی ایشیائی مسلمانوں کے خصوصاً) دشمن موجود ہیں، اس دشمن یا ان دشمنوں کی شناخت اسی قدر مبہم رہتی ہے۔ مختلف لوگ، مختلف قوموں، گروہوں، اداروں، افراد، فلسفوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ صہیونی تحریک، عیسائی مشنری، مغرب، ہندو، سامراجیت، ملوکیت، مستشرقین، سیکولرزم، لبرلزم، مادیت پسندی، کمیونزم، جمہوریت، سرمایہ داریت غرض یہ کہ کئی نام اور عنوان لیے جاتے ہیں۔ یہ سب ’باہر‘ کے ہیں، کچھ اندر کے دشمنوں کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ ان کی شناخت بھی دھندلی رہتی ہے۔ ’باہر‘ کے دشمنوں سے کسی بھی سطح کا تعلق رکھنے والے، اندرونی دشمن سمجھے جاتے ہیں۔ نیز وہ سب بھی اندرونی دشمن خیال کیے جاتے ہیں، جن کا تعلق اقلیتی فرقوں سے ہو۔ ان کا اقلیتی ہونا ہی، کسی نہ کسی باہر کے دشمن ملک سے تعلق رکھنے کا مفہوم رکھتا ہے۔

 دین وملت وتہذیب کی ابتری کا باعث دشمن ہیں، یہ بیانیہ اس شدت سے دہرایا جاتا ہے کہ دشمن کے خلاف شدید جذبات تو پیدا کر لیے جاتے ہیں، مگر اس سوال کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دشمن ہوتا کون ہے، اور اس کے خدوخال کیا ہیں؟ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی راہنما جس شخص، گروہ، یا جس علامت کو دشمن کہہ دے، اس کے پیروکار خصوصاً، اورعوام الناس عموماً اسے کچل ڈالنا عین ثواب سمجھتے ہیں۔ دشمنی کا جذبہ، انسانی جذبات میں غالبا ً سب سے پیچیدہ جذبہ ہے۔ یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو کہ دشمنی کا جذبہ صرف انسانوں سے مخصوص ہے۔ انسانوں کے علاوہ شاید ہی کوئی مخلوق ہو جو خیالی و نظری چیزوں سے بھی شدید جذبات وابستہ کر لیتی ہو، اور مختلف و متضاد جذبات کو باہم ملا کر ایک نہایت ہی پیچیدہ جذبہ تشکیل دے سکتی ہو۔ انسان ہر بات میں اختراع سے کام لیتا ہے۔ دشمنی کا جذبہ پیدا کرنے میں بھی اس نے انوکھی اختراع پسندی سے کام لیا ہے۔ دشمنی کے جذبے میں اس نے تباہ کن نفرت، بربادکردینے والی اندھی تحقیر پسندی و ذلت پسندی، خود اپنے تباہ ہونے کا سخت اور شدید خوف، اور ان کے ساتھ ساتھ، شکوہ آمیزتقدیس کے احساسات شامل کر لیے ہیں۔ علاوہ ازیں، دشمنی کے جذبے میں اپنی منفرد شناخت قائم کرنے اور دشمن کے روبرو، اوردشمن کی ذلت کی قیمت پر، اپنی قدرومنزلت باور کرانے کی آرزو بھی ہوتی ہے۔ اس جذبے کی پیچیدگی، اور ا س سے بڑھ کر اس کی شدت کا غلبہ، ایک شخص کو یہ سمجھنے کی مہلت ہی نہیں دیتا کہ دشمن ہوتا کون ہے؟ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ وہ دشمنی کے پیچیدہ جذبے کا مظاہرہ جس کے خلاف کر رہا ہے، وہ واقعی اس کا دشمن ہے یا اسے ایجاد کیا گیا ہے؟

 ہمارا خیال ہے کہ دشمن کے خدوخال پہچان لینے سے، اس کا ڈر کم ہوجاتا ہے، اور دشمنی کا جذبہ بھی دھیما پڑ جاتا ہے۔ دشمن کا ڈر ہی دشمن کو اس کے کسی ممکنہ قدم سے پہلے اسے ختم کرنے کی تحریک دیتا ہے۔

ذاتی زندگی، اور مختلف قوموں میں دشمن کے بارے میں مختلف تصورات ہوسکتے ہیں۔ تاہم، امبرٹو ایکو کے مطابق دو خصوصیات ایسی ہیں، جو غالباً تمام دشمنوں میں پائی جاتی ہیں: فرق اور خطرہ۔ جو ہم جیسا نہیں، اور جس سے ہمیں خطرہ ہے۔ ہمار اخیال ہے کہ ایک تیسری خصوصیت بھی ہے، اور وہ ہے، اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے کسی تخیلی ہدف کی تلاش!

فرق کا احساس، دوسرے کا سامنا کرنے سے بھی ہوتا ہے، اور دوسروں کے بارے میں، ان کی غیر موجودگی میں سوچنے سے بھی ہوتا ہے۔ عیسائیوں اورمسلمانوں نے یہودیوں کے بارے میں، فرانسیسیوں نے جرمنوں کے بارے میں، انگریزوں نے ہندوستانیوں اور افریقیوں کے بارے میں، برہمنوں نے شودوں کے بارے میں، یورپیوں نے مشرق کے بارے میں، اور ایک مذہب کے مختلف فرقوں نے ایک دوسرے کے بارے میں، اور مردوں نے عورتوں کے بارے میں جو تحقیر آمیز باتیں لکھی ہیں، اور جن سے دشمنی کے جذبات پیدا ہوئے ہیں، ان کی بنیاد فرق ہی ہے۔ اس فرق کو مذہب، رسوم ورواج، لباس، نظریات وغیرہ میں دیکھا گیا ہے۔ جو ہماری طرح نہیں، جس کا رہن سہن ہم سے مختلف ہے، جس کی رائے ہم سے مختلف ہے، جس کا ناک نقشہ ہم سے مختلف ہے، جس کا قبیلہ، خون، زبان وغیرہ ہم سے جدا ہے، وہ ہمارا دشمن ہے، ہمارے لیے خطرہ ہے۔ اس ضمن میں خاص بات یہ ہے کہ انسانوں کے مابین فرق بلاشبہ موجود ہیں، اور وہ ایک حد تک ان کی شناخت کا سبب بھی ہیں، مگر جب اس فرق کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے، اور اسے پتھر کی لکیر سمجھا جائے، یعنی تعاون کے امکان کے بجائے صرف مسابقت دیکھی جائے، تو دشمنی کے جذبات جنم لیتے ہیں۔

فرق کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ نسلی تفاخر، پارسائی کا تکبر، تہذیبی و علمی برتری کا غرور وغیرہ۔ برتری کے یہ سب احساسات، اپنوں سے مختلف لوگوں، گروہوں، فرقوں کی ایک بھیانک مگر اساطیری تصویر بناتے ہیں۔ اور اسی تصویر سے سٹریو ٹائپ جنم لیتے ہیں، اور جب انھیں مسلسل دہرایا جاتا ہے تو دشمنی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ جب تک ان سٹیریوٹائپ کا تجزیہ نہیں کیا جاتا، اور انھیں ترک نہیں کیا جاتا، قوموں کی باہمی دشمنی ختم نہیں ہوسکتی۔ موجودہ سیاسی فضا میں بھی آپ کو یہ سٹیریو ٹائپ نظر آئیں گے۔ ایک سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت کے حوالے سے بھیانک تصویر بناتی ہے، اسے مین سٹریم اور سوشل میڈیا کے ذریعے عام کرتی ہے، اوراسے اس جماعت کے ہمدرد حرز جاں بنا لیتے ہیں، اور اپنے اندر، خود سے مختلف نظریے یا جماعتی وابستگی کے حامل افراد کے لیے دشمنی کے پیچیدہ جذبات پیدا کر لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ سب مرنے مارنے پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس ملک کی سیاسی فضا اس قسم کی ہو، اس کے کسی حقیقی دشمن کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔

دشمن ان سب معاشروں کی نفسیاتی ضرورت ہیں، جن میں اپنی ناکامیوں کے سیدھے سادے اعتراف کے مقابلے میں، اپنی ابتری کے دفاع کی عادت ہو۔ حقیقت میں وہ دشمن تلاش نہیں کرتے، تاریخ میں اپنا دشمن ایجا د کرتے ہیں۔ وہ اپنی ہر کمزوری، شکست، ناکامی کا ذمہ دار تاریخی دشمن کو قرار دیتے ہیں۔ انھیں یہ احساس تو ہوتا ہے کہ انھیں اپنے اجتماعی ضمیر کی عدالت میں جواب دہ ہونا ہے، اس عدالت میں وہ اپنا دفاع، اپنے تاریخی دشمن کی سازشوں، چالاکیوں، عیاریوں کا پردہ چاک کرکے دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کے دل کو کچھ اطمینان مل جاتا ہو، لیکن اس سے نہ تو ان کے تاریخی دشمن کا کچھ بگڑتا ہے، نہ ان کی ابتر صورتِ حال میں بہتری آتی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).