مغل بادشاہ کا موج میلہ اور عوام کی موت


روایت ہے کہ صدیوں پہلے بھی اس خطے پر مغل بادشاہوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ خاندان مغلیہ کے بانی بابر کو مار دھاڑ کا شوق تھا۔ وہ جنگ کرتا رہا۔ ہمایوں کو ستارے پسند تھے۔ اسی چکر میں جان گنوا دی۔ اکبر کو مستحکم اور پرامن سلطنت اور کلچر کا شوق تھا۔ اسی میں مصروف رہا۔ نہایت دانشمند تھا اس لئے خود پڑھائی میں وقت ضائع کرنے کی بجائے روپیہ دے کر دانشور ملازم رکھ لئے۔ جہانگیر کو نورجہاں پسند آئی۔ امور سلطنت اس کے حوالے کر کے خود لوگوں کی فریادیں سنتا رہا۔ شاہ جہاں کو ممتاز محل سے محبت ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بچاری شادی کے محض انیس برس بعد چودھویں زچگی کے دوران 38 برس کی عمر میں جان سے تو گئی مگر ساتھ ساتھ اتنی اولاد چھوڑ گئی کہ اس کے بعد مغل سلطنت مسلسل خانہ جنگی کا ہی شکار رہی۔ آغاز اورنگ زیب عالمگیر نے کیا اور اپنے بھائیوں اور باپ کی سرکوبی کرنے کے بعد پچاس برس عوام کی شورشیں رفع کرتا رہا۔

اس کی اولاد شہزادوں اور شہزادیوں پر مشتمل تھی۔ انہوں نے شہزادوں کے انداز میں ہی ملک کو چلایا۔ ہماری نظر میں ان میں سے سب سے اہم اس کا پڑپوتا شہنشاہ غازی ابو الفتح معیز الدین محمد جہاندار شاہ صاحب قراں پادشاہ جہاں تھا۔ اس نے محض ایک برس حکومت کی مگر تاریخ پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑے جو آج بھی ہمارے حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔

جہاندار شاہ اپنے بھائی مرزا عظیم الشان کو قتل کر دینے کے بعد سنہ 1712 میں لاہور میں تخت پر بیٹھا۔ ہماری رائے میں وہ ایک مفکر بادشاہ تھا۔ اس نے سوچا ہو گا کہ اتنی قتل و غارت کا کیا فائدہ۔ ویسے بھی رواج چلا آ رہا ہے کہ مغل بادشاہ بہت جلد قتل کر دیے جاتے ہیں تو بہتر ہے کہ بچی کھچی زندگی عیش و عشرت میں بسر کی جائے۔ اس نے چوتھی شادی کے لئے میاں تان سین کی نسل سے اپنا تعلق بتانے والی لال کنور نامی رقاصہ سے کی اور امتیاز محل کے خطاب سے اس کی عزت بڑھائی۔

لال کنور نہایت نرم دل والی عورت تھی۔ اس نے اپنی کلاونت برادری کے لوگوں کو امرا کی کلاس میں شامل کر دیا۔ ان کو خوب زمینیں جاگیریں دیں۔ یعنی آج کی زبان میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اپنے رشتے داروں کو یقینی جیت والے حلقوں میں قومی اسمبلی کے ٹکٹ بانٹے اور راج دربار میں ہر طرف وہی دکھائی دینے لگے۔ مغل بادشاہوں کی تاریخ میں نور جہاں کے بعد یہ دوسری ملکہ تھی جسے اتنا عروج ملا۔ اس کے کانوائے کو اتنا پروٹوکول ملتا تھا کہ اسے بادشاہ کا جھنڈا اور نقارہ استعمال کرنے کی اجازت حاصل تھی۔

لال کنور ہر خوشی غمی میں جہاندار شاہ کا ساتھ دیتی تھی۔ ایک روایت کے مطابق ایک مرتبہ بادشاہ اور ملکہ ایک پارٹی سے واپس محل آ رہے تھے کہ ان دونوں پر مے ارغوانی نے خوب غلبہ پایا۔ ملکہ لال کنور اپنی گاڑی سے اتریں اور کھٹ کھٹ کرتیں سیدھی شاہی خواب گاہ میں چھپرکھٹ پر جا کر ڈھیر ہو گئیں۔ صبح اٹھیں تو انہوں نے غل مچایا کہ کہ بادشاہ سلامت کو کون اٹھا کر لے گیا؟ ہر طرف ڈھنڈیا پڑی تو علم ہوا کہ بادشاہ سلامت تو رات سے شاہی رتھ میں ٹن پڑے ہوئے ہیں۔ ملکہ لال کنور نے شہنشاہ ہندوستان کا منہ ہاتھ دھلا کر واپس تخت پر بٹھایا۔

ملکہ لال کنور کی اسی محبت نے شہنشاہ جہاندار شاہ کو اپنا اسیر کر لیا تھا اور وہ ملکہ لال کنور کی ہر خواہش کو پورا کرنے کو بے قرار رہتے تھے۔ رقاصہ، مغنیہ، ساقی سب کچھ ہی تو تھیں ملکہ عالیہ تو شہنشاہ ہند ان کی زلف گرہ گیر کا اسیر کیوں نہ ہوتا؟ بادشاہ سلامت نے ایک دن ملکہ عالیہ کو اداس پایا تو دلگرفتہ ہوئے۔ پوچھا کہ کیا ہوا، ملکہ لال کنور بولیں کہ اتنی زندگی گزری مگر آج تک کسی انسان کو ڈوبتے نہیں دیکھا۔ ہندوستان کے اس عظیم مغل شہنشاہ کو اپنی نا اہلی پر شدید غصہ آیا کہ اب تک ملکہ ہند کی اتنی چھوٹی سی خواہش پوری نہ کر سکے۔

ان کے حکم پر ایک کشتی میں ایسے درجنوں افراد کو بٹھایا گیا جو تیرنا نہیں جانتے تھے۔ بیچ منجدھار میں ملاحوں نے کشتی ڈبو دی اور خود تیر کر دریا کے کنارے پر آ گئے۔ ملکہ اور بادشاہ کنارے بیٹھے خوب دلچسپی سے عوام کو ڈوبتے دیکھتے رہے۔

محض ایک سال بعد جہاندار شاہ کو درباری اسٹیبلشمنٹ کے ایک فیصلے کے ذریعے تخت سے اتار دیا گیا اور قید کر دیا گیا۔ ملکہ لال کنور راضی خوشی جہاندار شاہ کے پاس قید خانے میں چلی گئیں اور اس وقت تک ان کے ساتھ رہیں جب تک ان کو گلا گھونٹ کر نہ مار ڈالا گیا۔

تو صاحبو، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مغل بادشاہ ملکہ خوش رہیں تو بہت ہے۔ ممتاز محل کے چودہ شہزادے شہزادیاں ایسے ہی حکومت کرتے رہیں۔ عوام کا کیا ہے، مغل بادشاہوں کی خوشی کے لئے ان کو قربانی تو دینی پڑتی ہے۔ کبھی گوجرانوالہ میں شاہی سواری کے نیچے آ کر مر گئے اور سواری رواں دواں رہی، کبھی ملتان کے جلسے میں تقریر سنتے ہوئے مر گئے اور تقریر جاری رہی، کبھی کراچی میں شاہی قافلے کے پروٹوکول کی وجہ سے سڑک پر کھڑی ایمبولینس میں پڑے پڑے فوت ہو گئے تو کبھی کوئٹہ میں رکشے میں ہی بچے کو جنم دے دیا، کیا فرق پڑتا ہے۔

ہمارے مغل بادشاہوں کا اقبال سلامت رہے، ان کا شغل جاری رہے، ان کا کارواں رواں دواں رہے، عوام کا کیا ہے، شہنشاہوں کے لئے تو جان بھی حاضر ہے۔ یونہی مرتے رہیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar