ناصرہ شہر کے پھول


جذام کے مریضوں کی دیکھ بھال آسان کام نہیں۔ ناصرہ شہر (Nazareth) سے تعلق رکھنے والے حضرت عیسیٰ سے پہلے جذام کے مریضوں کو جنگلوں میں پھینک دیا جاتا تھا اور ان سے دور رہنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی تھی یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حوصلہ تھا جو غاروں اور گپھاؤں میں جنگلی جانوروں کے خوف سے چھپے ان بے کس انسانوں کو تلاش کرتے اور ان کے زخموں کو اپنے ہاتھوں سے شفا بخش دیتے۔

جذام سے لوگوں کی یہ وحشت آج بھی کوئی خاص کم نہیں ہوئی ایسے میں جرمن نژاد ڈاکٹر رتھ فاؤ پوری زندگی اپنی ٹیم کے ساتھ حضرت عیسیٰ کی سنت پر بھرپور طریقے سے عمل پیرا رہیں ان کی بے لوث کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان سے جذام جیسے موذی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ان کی اس فقید المثال جدو جہد کو چیلنج کرنا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے میں ایسا کیوں کہہ رہی ہوں اس کے پیچھے ایک دل خراش ساتھ ہی پر امید یاد کار فرما ہے یونی ورسٹی کے زمانے کی بات ہے ایک دن چھوٹی بہن نے کہا اسے کچھ نوٹس لینے کالج کی نئی سہیلی کے گھر جانا ہے سو ہم دونوں اس کے گھر پہنچیں وہ کچھ پریشان سی تھی باتوں باتوں میں روتے ہوئے بتایا اس کی باجی کی طبیعت بہت خراب ہے میں نے اصرار کیا میں انہیں دیکھنا چاہتی ہوں سہیلی نہیں چاہ رہی تھی کہ ہم ان سے ملیں کہنے لگی ڈاکٹر نے منع کیا ہے ابھی ہمارا اصرار اور اس کا انکار جاری تھا کہ اس کی بہن خود یہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر آ گئی ”ارے سلمیٰ تم یہاں کہاں“، میں نے بھی اس کی آواز پہچان لی تھی، مڑ کر دیکھا تو میری کلاس فیلو نائمہ (فرضی نام ) کھڑی تھی انتہائی لاغر اور چہرہ ململ کے دوپٹے سے پورا ڈھکا ہوا اس نے ایک دم پہلے ہاتھ بڑھایا۔

ہاتھ کی کھال گلی ہوئی جس سے پانی سا ٹپک رہا تھا۔ مجھے ایک لمحے کو جھٹکا سا لگا ٹھٹک کر ذرا پیچھے کو ہٹی لیکن وہ پیار سے میرے گلے لگ گئی اور ہچکیوں سے رونے لگی، میری بہن اور اس کی سہیلی دونوں حیران ہمیں دیکھ رہی تھیں جب جذباتی لمحات کا اثر کم ہوا تو نائمہ نے بتایا نویں جماعت کے امتحانات کے زمانے میں اسکول سے واپسی پر اس کا بہت برا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ ہاں مجھے یاد ہے میں نے مشینی انداز میں سر ہلایا ”ہاں پھر تم نے اسکول آنا ہی چھوڑ دیا تھا، ہم سب نے تمہیں کافی مس کیا لیکن پھر فرض کر لیا کہ شاید تم وہ علاقہ چھوڑ کر کسی پوش علاقے میں جا بسی ہو“

“پوش علاقے میں کہاں، میں تو کئی مہینے ہسپتال میں رہی، میرے زخم خراب ہو گئے تھے اور چہرے اور ہاتھوں کی جلد گلنے لگی تھی، یہ کہہ کر اس نے دوپٹہ اپنے چہرے سے ہٹا دیا اس کے چہرے کی دگرگوں حالت دیکھ کر ہم دونوں بہنیں شاک میں آ گئیں، کمرے میں کربناک خاموشی چھا گئی کسی سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا ہمیں گم صم دیکھ کر نائمہ کی بہن نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے چہرے کو پھر دوپٹے سے ڈھانپ دیا اور ساتھ لگے پلنگ پر لٹاتے ہوئے بولی میرا خیال ہے انہیں آرام کی ضرورت ہے اور کتابیں لینے اندر چلی گئی۔

اس کے جانے کے بعد نائمہ رقت بھرے لہجے میں بولی ” میں سمجھی تھی تم میری دوست ہو۔ تم تو مجھ سے گھن نہیں کھاؤ گی۔ اس کا ٹوٹا ہوا لہجہ دل میں خراشیں ڈال رہا تھا میں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دی ”تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں تم سے گھن کھا رہی ہوں وہ تو اتنے عرصے بعد تمہیں اس طرح دیکھا تو جو تمہارے متعلق تصور کیا ہوا تھا وہ ٹوٹ گیا تو جھٹکا لگا، مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے“

اس نے کروٹ بدلی اور ہماری طرف سے منہ پھیر لیا۔ ہم لوگ تھوڑی دیر خاموشی سے بیٹھے اسے دیکھتے رہے جو بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہی تھی جذام جیسے مرض سے نبرد آزما جسمانی طور پر ہی نہیں اندر سے بھی ریزہ ریزہ، بکھری ہوئی۔ اسی اثناء میں اس کی بہن کتابیں لے آئی اورسپاٹ چہرے کے ساتھ ہمارے حوالے کر دیں، بعد میں میرا تو ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا مگر میری بہن کی دوستی ان سے کافی گہری ہوتی گئی دونوں بلکہ تینوں اکھٹے کالج جاتی تھیں، نائمہ کا علاج اسی لیپروسی سینٹر سے ہوا جہاں روتھ فاؤ بھی اس کی معالج رہی ہوں گی وہ بالکل صحت یاب ہو گئی تھی اور دوبارہ سے پڑھائی میں مصروف ہو گئی تھی بہن ہی کی زبانی کبھی کبھار اس کی خیریت کی اطلاع ملتی رہتی تھی ہاں یہ بتا دوں کہ وہ بے حد کٹر مسلمان ہونے کے باوجود اپنے غیر مسلم معالجین اور ہسپتال کے عملے کی غیر معمولی توجہ کی بے انتہا تعریف کرتی تھی بعد میں نائمہ کو اپنی نارمل انسان کی حیثیت بحال کرنے میں کیا جد جہد کرنی پڑی اور اس کے ساتھ کیا ہوا یہ ایک الگ قصہ ہے جو پھر کبھی سناؤں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).