جاگ پنجابی جاگ


کیا چلا جاتا اگر عمران خان تصادم کی راہ اپنانے کے بجائے نواز شریف کو بطور وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیتے۔ کیا چلا جاتا اگر عمران خان پانچ سال نواز شریف کے ساتھ مل کر جمہوریت کے استحکام اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے باہمی تعاون کے ساتھ اپنا مثبت کردار ادا کرتے۔ کیا چلا جاتا اگر عمران خان میاں صاحب کو بطور وزیراعظم وفاق میں اور خود کے پی کے میں گڈ گورننس کے قیام کے لیے عملی اقدامات اٹھاتے اور پاکستان کے عوام کو ایک نیا پاکستان تحفہ میں دیتے۔ کیا چلا جاتا اگر عمران خان چار سال دھاندلی کا رونا رونے اور کرپشن کے الزامات لگانے کے بجائے پورے پاکستان میں شہری حکومتوں کے قیام کے لیے جدوجہد کرتے اور پاکستان کے مظلوم طبقات کو اختیارات دلا کر عوام کے حقیقی لیڈر بن کر ابھرتے۔

ایسے کیا چلا جاتا، جیسے جانے کتنے سوالات آج عوام کے ذہنوں میں محو گردش ہیں۔ وہ عوام جس نے عمران خان کے نئے تصوراتی پاکستان کے نعروں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ان کا ساتھ دیا اور چار سال تک آنکھ بند کر کے اُن پر اندھا اعتماد کرتے رہے۔ لیکن بدلے میں عمران خان نے انھیں کیا دیا؟ وہی الزامات کی سیاست، حکومت کے کاموں میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں، جمہوری حکومت کو کمزور کرنے کی سازشیں، نعرہ نئے پاکستان کا بلند کیا اور کردار وہی پرانے روایتی سیاستدان کا ادا کرتے رہے۔ جو ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بن کر جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کا سبب اور ملک میں انتشار پھیلانے کا باعث بنتے رہے ہیں۔

آج بھی عمران خان دھاندلی کے جھوٹے الزامات لگانے اور پینتیس پنکچر کی جھوٹے دعوے کرنے کے باوجود خود تو صادق و امین بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جبکہ کروڑوں عوام کی جانب سے منتخب کیے گئے وزیراعظم کو نا اہل کروا کر عوامی جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بنے ہیں۔ جس کا خمیازہ انھیں 2018ء کے الیکشن میں بھگتنا پڑے گا ہی لیکن ملک میں اُن کی وجہ سے اِس وقت جو غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہورہی ہے جس طرح اداروں کو آپس میں لڑوا کر جمہوریت کی بلی چڑھانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اِسکی ذمہ داری بھی عمران خان پر عائد ہوتی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے نا اہلی کے بعد جس طرح عوامی طاقت کا مظاہرہ دکھایا ہے۔ اِس سے ایک بات تو بالکل واضح ہوچکی ہے کہ عوام اب کسی ادارے یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑنے ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ عوام نے کھلے باندھے اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ اب وہ کسی غیر آئینی اقدام پر مٹھائیاں تقسیم نہیں کریں گے۔ ایسی کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے جمہوریت کا گلہ گھونٹ دیا جائے۔ بلکہ اگر کہیں ایسی سازش ہوتی نظر بھی آئی تو ملک کے بیس کروڑ عوام اِس سازش کو ناکام بنا دینگے۔

یقیناً جی ٹی روڈ سے لاہور تک کا سفر عمران خان سمیت غیر جمہوری قوتوں کو ناگوار گزر رہا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کو ایک بار پھر غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار کرنے کے لیے عمران قادری گٹھ جوڑ تشکیل دیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک بار پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کو اچھالا جارہا ہے۔ علامہ طاہر القادری صاحب داستانِ علم سنانے کینیڈا سے تشریف فرما ہوچکے ہیں۔

جبکہ عدالت ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت کے لیے متعدد بار قادری صاحب کو طلب کرچکی ہے۔ لیکن مجال ہے قادری صاحب اپنے لوگوں کو انصاف دلانے کےلیے ایک بار بھی عدالت میں حاضر ہوئے ہوں۔ کیونکہ انھیں عدالت سے انصاف نہیں سڑکوں پر انتشار چاہئیے۔ جو عدلیہ ملک کے طاقتور ترین وزیراعظم کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیج سکتی ہے سوچیں وہ کتنی با اختیار ہوگی۔ لہذا انصاف کےلیے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں مرنے والوں پر اِس طرح سیاست کرکے شہداء کے لواحقین کو اذیت میں متبلا نہ کریں۔

سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پورے پاکستان بلخصوص پنجاب کے کروڑوں عوام کے ووٹ سے متنخب ہوئے تھے۔ آج میاں صاحب کی حمایت میں نکلنے والی ریلی پنجاب کے عوام پر مشتمل وہ ریلا بن چکی ہے۔ جس میں میاں صاحب کے مخالفین کے ارمانوں کی ارتھیاں بہتی ہوئی صاف دکھائی دے رہی ہیں۔

اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں جمہوریت کے استحکام اور پارلمنٹ کی بالادستی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں۔ ایسی کسی سازش کا حصہ نہ بنیں جو ملک و قوم کے منافی ہو۔ آئندہ ہونے والے انتخابات میں عوام اپنے ووٹوں سے ایسے کسی بھی سازشی ٹولے کو مسترد کردیں۔ سندھ کے شہری اور دیہی عوام تو اِس سازشی ٹولے کی سیاست کو بخوبی سمجھ چکے ہیں۔ کیا پنجاب کے عوام اب بھی اِس سازشی ٹولے کی سیاست سمجھنے سے قاصر ہیں؟ اگر ہاں تو پھر میں یہی کہونگا جاگ پنجابی جاگ۔

(ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).