زاہد قسم ہے تجھ کو، جو تُو ہو تو کیا کرے؟


فکرِ معاش عشقِ بتاں یادِ رفتگا ن

 چھو ٹی سی ایک عمر میں کیا کیا کرے کوئی

کچھ لوگوں کا کہنا ہے یہ مرزا غالب کا شعر ہے، لیکن مرزا کے مروجہ کلام میں اس شعر کے آثار نہیں ملتے۔ کچھ حضرات اسے تلوک چند محروم سے منسوب کرتے ہیں اور اس کی صورت کچھ اس طرح دکھاتے ہیں:

فکر معاش و عشق بتاں، یاد رفتگاں

ان مشکلوں سے عہدہ برائی نہ ہو سکی

تلوک چند محروم

لیکن جید محققین کا کہنا ہے کہ یہ شعر مرزا رفیع سودا کا ہے اور دلیل میں وہ ایک مکمل غزل پیش کرتے ہیں ۔۔۔

مکمل غزل

بدلا ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے

اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے

قاتل ہماری نعش کو تشہیر ہے ضرور

آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفا کرے

اتنا لکھائیو مرے لوحِ مزار پر

یاں تک نہ ذی حیات کو کوئی خفا کرے

بلبل کو خونِ گُل میں لٹایا کروں، مجھے

نالے کی گر چمن میں تُو رخصت دیا کرے

فکرِ معاش و عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں

اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کِیا کرے

عالم کے بیچ پھر نہ رہے رسمِ عاشقی

گر نیم لب کوئی ترے شکوے سے واکرے

گر ہو شراب و خلوت و محبوبِ خوب رو

زاہد قسم ہے تجھ کو، جو تُو ہو تو کیا کرے؟

تعلیمِ گریہ دُوں اگر ابرِ بہار کو

جز لختِ دل صدف میں نہ گوہر بندھا کرے

تنہا نہ روزِ ہجر ہی سودا پہ ہے ستم

پروانہ ساں وصال کی ہر شب جلا کرے

(مرزا رفیع سودا)

اس غزل کے بعد یہ تو طے ہے کہ مذکورہ شعر مرزا سودا ہی کا ہےالبتہ اس کی صورت وہ نہیں جو زبان زد عوام ہے بلکہ شعر کی اصل صورت کچھ یوں ہے؛

فکر معاش و عشق بتاں، یاد رفتگاں

اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کِیا کرے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).