کپتان قومی اسمبلی کی تنخواہ کس وجہ سے لیتا ہے؟


مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اندھے حامیوں کو جب بھی کوئی کرپشن کا طعنہ دینے کی کوشش کرے تو وہ جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ”کپتان کبھی اسمبلی تو جاتا نہیں۔ چار مہینے دھرنے پر بھی رہا، مگر ممبر اسمبلی کی تنخواہ پوری لیتا ہے، کیا یہ کرپشن نہیں ہے کہ کام کیے بغیر تنخواہ لی جائے؟ “ آئندہ آپ یہ بات سنیں تو یہ مضمون پڑھنے کے بعد آپ ان لوگوں کو شافی جواب دے کر ان کے منہ بند کر سکتے ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ کپتان کو کھانے پہننے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ نوکر جو لا دیں چپ کر کے کھا لیتا ہے۔ نوکر چھٹی پر ہوں تو صبر کر لیتا ہے۔ کپتان کے نوکر ویسے نہایت ہی خسیس ہیں، دس مہمان بھی صبح سے بیٹھے ہوں تو رات کو ایک بندے کا کھانا لا کر چھوٹی میز پر کپتان کے آگے سجا دیتے ہیں۔ وہ سادہ دل کا شریف شخص یہ سمجھتا ہے کہ نوکر اسی کی طرح باقی افراد کو بھی چپکے چپکے کھانا کھلا کر فارغ کر چکے ہوں گے اس لئے چپ کر کے اکیلا ہی کھا جاتا ہے۔

کپتان کی بیوی وغیرہ ہے نہیں کہ اس کی الٹی سیدھی فرمائشیں پوری کرنی پڑیں اور چونچلے اٹھانے پڑیں۔ کپڑے بھی خود اپنے ہاتھ سے دھوتا ہے اور استری کرتا ہے۔ ہمارے اس دعوے کا ثبوت یہ ہے کہ اکثر ایسے پھٹے پرانے کپڑوں میں دکھائی دیتا ہے جو کوئی بھی غیرت والا نوکر اپنے مالک کو پہننے کے لئے کبھی بھی نہیں دے گا۔

ہاں کبھی ولایت جانا پڑے تو ادھر مجبوری میں اچھا کھا پہن لیتا ہے کیونکہ ملکہ برطانیہ اور شاہی خاندان سے تعلق کا پروٹوکول نبھانا پڑتا ہے۔ وہ بھی کپتان کہاں نبھاتا ہے، ادھر برطانیہ میں جمائما کے نوکر زبردستی کر دیتے ہیں کہ صاحب یہ سوٹ پہن کر جاؤ اور وہ جوتا۔

بنی گالہ کے زرعی فارم میں وسیع قطعہ اراضی پر اس نے سبزیاں کاشت کی ہوئی ہیں جن کو اسلام آباد میں مہنگے داموں بیچ کر درجنوں نوکروں کی تنخواہ اور گھر کے دیگر خرچے نکل آتے ہیں۔ چند ہزار مرغیاں پالی ہوئی ہیں جن میں سے کچھ خود کپتان کو کھلا دی جاتی ہیں اور چند گھر کے گوشت خور جانوروں کو۔

سفر حضر کا مسئلہ خدا نے یوں حل کر رکھا ہے کہ دوست احباب میں سے کوئی بھی ٹنکی فل کرا کر اپنی سواری پیش کر دیتا ہے کہ کپتان جہاں چاہو جاؤ۔ قسمت ایسی اچھی کہ کپتان کے دوستوں میں سائیکل والے سے لے کر جہاز والے تک موجود ہیں۔ یوں خواہ بنی گالہ سے راول ڈیم تک جانا ہو یا کراچی تک، موزوں اور مفت سواری ہر وقت دستیاب رہتی ہے۔

یوں عزت سے سارا نظام چل رہا ہے اور کپتان کو قومی اسمبلی کی لاکھوں روپے ماہانہ کی تنخواہ سے ایک ٹکے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ پھر وہ کیوں تنخواہ لیتا ہے جبکہ وہ اسمبلی میں جاتا بھی نہیں ہے؟

یہ راز بہت زیادہ سختی سے چھپایا جاتا ہے مگر ہماری خوش قسمتی کہ ہم بنی گالہ کے جس ڈھابے میں دودھ پتی پینے جاتے ہیں ادھر کپتان کے باورچی، ڈرائیور اور وہ دیگر ملازمین بھی آئے ہوتے ہیں جو اچھا کھانا کھانے کے شوقین ہیں۔ گزشتہ اتوار کو ایک ایسا ہی شخص ہمارے بینچ پر بیٹھا تھا کہ ٹی وی پر ٹکر چل گئے کہ کپتان قومی اسمبلی سے تنخواہ تو پوری لیتا ہے اور کام پر جانے کی زحمت تک نہیں کرتا۔

اس شخص نے شدید غصے میں چائے کا پورا کپ ایک گھونٹ میں گلے سے اتارا اور ہماری چینک (کیتلی) اپنے سامنے کھینچ کر دوسرا اور تیسرا کپ اسی طرح پی گیا۔ اس کے اعصاب کچھ قابو میں آئے تو اس نے معذرت خواہانہ نظروں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے چائے والے کو آواز دی ”صاحب کے حساب میں ایک ہاف سیٹ“۔

اس کے بعد اس نے ٹی وی والوں کی جہالت اور بے خبری کا گلہ کیا اور ہمیں ہمدرد پا کر پوری کہانی سنا دی جو اب ہم آپ کے سامنے بیان کرنے لگے ہیں۔

یکم اپریل 2013 کو نیویارک میں شوکت خانم ہسپتال کے لئے فنڈ ریزنگ کا ڈنر تھا۔ کپتان طبعاً نہایت شرمیلا ہے اور ارد گرد چند خواتین بھی موجود تھیں۔ وہ سر جھکا کر صرف اور صرف اپنے کھانے کو توجہ دے رہا تھا کہ اس کی میز پر سیاہ لبادوں میں ملبوس تین پراسرار افراد آ کر بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ تینوں کراچی سے تعلق رکھنے والے پارسی میجائی ہیں اور ترک وطن کرنے کے باوجود پاکستان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ پاکستان میں ان کو صرف کپتان ہی کی صورت میں ایک روشن ستارہ دکھائی دیا ہے جس کا تعاقب کرتے ہوئے وہ اس میز تک آن پہنچے ہیں۔ ان کو کپتان کی صورت میں وہ واحد مسیحا دکھائی دیتا ہے جو پاکستان کو کرپشن کی دلدل سے نکال کر ایک عظیم ملک بنا سکتا ہے۔ اور اس ملاقات کا مقصد کپتان کو اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کی ایک سازش سے خبردار کرنا ہے جو پاکستان کا مستقبل تاریک کرنے کی خاطر کپتان کو نا اہل کروانے کی خواہاں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 11 مئی 2013 کے الیکشن فکس ہیں۔ امریکی صدر اوباما نے جنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان یہ سمجھوتہ کرایا تھا کہ 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اقتدار دیا جائے گا اور 2013 میں مسلم لیگ ن کو۔ جنرل مشرف کو اس پر تحفظات تھے کہ اقتدار میں آ کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں نہ کریں۔ صدر اوباما نے جنرل مشرف سے علیحدگی میں ایک ون ٹو ون خفیہ میٹنگ کی اور ان کو دو گارنٹیاں دیں۔

پہلی یہ کہ سی آئی اے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف مسلسل کارروائیاں کرتی رہے گی اور اسے ایک کے بعد دوسرے سکینڈل میں الجھائے رکھے گی۔ آپ کو شاید میمو گیٹ، سوئس لیٹر اور ریمنڈ ڈیوس، اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن پر مبینہ حملہ یاد ہوں، وہ اسی معاہدے کا نتیجہ تھے۔ خاص طور پر اسامہ کے ڈرامے کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ 2002 میں تورا بورا پر مارا جا چکا تھا مگر 2011 میں ایبٹ آباد کے ڈرامے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو کمزور کرنے کی خاطر اس کا نام لایا گیا۔

نواز شریف کی حکومت کے بارے میں بھی جنرل مشرف کو یقین دہانی کرائی گئی کہ اسے بھی مختلف معاملات میں الجھا کر کمزور کیا جاتا رہے گا اور وہ جنرل مشرف کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ یہ بھی بتا دیا گیا کہ اس حکومت نے مشرف کے خلاف کچھ سوچا تو اسے مدت پوری کرنے سے پہلے فارغ کر دیا جائے گا۔ مزید یہ کہ پاکستان کے ہر مقبول راہنما کو کرپشن کے الزام میں نا اہل کروا کر جنرل مشرف کے لئے دوبارہ حکمران بننے کا راستہ صاف کر دیا جائے گا۔

عمران خان نے اس پر حیران ہو کر پوچھا کہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی تو نہایت صفائی سے کرپشن کرتے ہیں اور کوئی ثبوت نہیں چھوڑتے، تو پھر انہیں کرپشن کے الزام میں کیسے ہٹایا جائے گا؟ اس پر تینوں داناؤں میں سے دوسرا بولا کہ یہ ثابت کر دیا جائے گا کہ نواز شریف اپنے بیٹے کی دبئی کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لیتے اور ان کے منشیوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس قابل وصول تنخواہ کو ”قانون کی کالی ڈکشنری“ کے تحت ایک اثاثہ سمجھا جاتا ہے اور یوں وہ نا اہل کر دیے جائیں گے۔

تیسرا دانا بولا کہ کپتان، تمہیں خواہ ضرورت ہو یا نہ ہو، تم خواہ اسمبلی میں جاؤ یا نہ جاؤ، تم نے ہر صورت میں اسمبلی سے تنخواہ لینی ہے۔ ورنہ موساد والے آصف زرداری اور میاں نواز شریف کو راستے سے ہٹانے کے بعد وہ تمہیں اسی بنیاد پر نا اہل کروا دیں گے کہ تم قومی اسمبلی سے تنخواہ لینے کے اہل تھے مگر لیتے نہیں۔

کپتان کی سمجھ میں اسرائیلی انٹیلی جنس موساد کی ساری سازش آ گئی۔ اس وجہ سے وہ اسمبلی کے اراکین کی لسٹ میں آج بھی فخر سے سر اٹھا کر کھڑا ہے اور میاں نواز شریف نااہل ہو کر سڑکوں پر رُل رہا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar