ستر سال پہلے ایک دن!


ہمارے بزرگ، جو اب سوائے ایک چچی کے کوئی باقی نہیں رہے، اگست کے مہینے میں عجیب حرکتیں کرنے لگتے تھے۔ واضح رہے کہ جملہ بزرگ نہایت معزز اور معقول تھے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اہم کردار نبھا کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ جس محلے میں یہ لوگ آ کے ٹھہرے، اس کا نام سمادھانوالا تھا، غالباً کسی کی سمادھ ہو گی وہاں۔

ہمارے چچا جانی مرحوم کو ایک بار یہ خیال آ گیا کہ بازار میں بنے بنائے پرچم درست ناپ کے نہیں۔ کسی پہ چاند تارہ غلط سمت میں بنا ہے اور کسی پہ سفید اور سبز کا تناسب بے ڈھب ہے۔
اس خیال نے ایک کھلبلی سی مچا دی۔ ناپ کا فیتہ، درزی، چچی جان کی بلیک بیوٹی سلائی مشین اور ہونق بچوں کی فوج، دنوں سرکاری ناپ کے مطابق جھنڈا بنانے کے عمل میں مصروف رہی۔ ہر بار کسی طرف کان نکل آتی، چچا جان سر پکڑ کے بیٹھ جاتے اور سب کے چہروں پہ توہمات کے کالے کوے شور مچاتے اڑنے لگتے۔

خدا خدا کر کے جھنڈا سلا تو چاند تارے کے ٹانکنے میں سب کو دانتوں پسینہ آ گیا۔ باریک سے باریک ٹانکا لینے پر بھی کہیں نہ کہیں سے پھونسڑے نکل آتے تھے۔ تب معلوم ہوا کہ یہ چاند اور تارہ پرچم پر اتارنا اتنا آسان نہیں۔

ایک اگست میں ہمارے ابا کو جلوس نکالنے کا خیال آیا۔ اس زمانے میں کھاد کپڑے کے تھیلوں میں آتی تھی اور اس پہ بنے مارکے دو ایک بار بھٹی چڑھنے پہ صاف ہو جاتے تھے۔ ان کھاد کے تھیلوں کو گہرا سبز رنگوا کے سب ملازموں کے جوڑے بنوائے گئے۔ مچھر دانیوں کے بانس اتروا کے ان پہ جھنڈے لگائے گئے۔ گتے کے ٹکڑوں سے ننھے پرچم بنا کر کالروں پہ سجائے اور ٹریکٹر ٹرالی پہ سوار یہ جلوس کئی گھنٹے ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگاتا گھومتا رہا۔ شام کو جب سب نہائے تو ایک بار تو ٹیوب ویل کا پانی سبز ہو گیا، کچا کاہی رنگ پسینے کے ساتھ اتر کے سب کو ہرا بھرا کر گیا تھا۔

ہماری ایک پھوپھی کو باغبانی کا شوق تھا۔ ان کے باغ میں چنبیلی کا ایک بہت بڑا جھاڑ تھا۔ ایک سال انھوں نے اس جھاڑ سے دبے بنانے شروع کیے۔ اگست آتے تک، جھاڑ تو گنجا کھدرا ہو چکا تھا مگر سینکڑوں داب تیار ہو چکے تھے۔ اس سال اگست میں انھوں نے ہر جاننے والے کے ہاں، گاؤں میں، شہروں قصبوں میں جہاں وہ جا سکتی تھیں، چنبیلی کے یہ بوٹے لگائے۔ ان کے انتقال کو چوتھائی صدی ہو چکی ہے مگر جانے کہاں کہاں چنبیلی مہک رہی ہے!

اور ایک اگست میں تو حد ہی ہوگئی۔ چچی جان جنھیں ہم مارے لاڈ کے خالہ امی کہتے تھے، سر ہو گئیں کہ گھی کے چراغ جلاؤں گی۔ کمہار کو بلوا کے ہزاروں چراغ بنوائے، روئی کی بتیاں بٹیں اور 13، 14 کی درمیانی حبس آلودہ رات، سارے گھر پہ چراغ جھلملاتے رہے۔ دو ملازم بے چارے ساری رات گھی کے کنستر لیے چراغوں کی مومیائی پوری کرتے رہے۔

لو وہ مینارِ پاکستان جانے کا واقعہ تو میں بھول ہی گئی۔ عین 14 اگست کو سارے خاندان کو گاڑیوں میں بھر کے مینارِ پاکستان لے جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ بھر قرار دادِ لاہور کا ذکر ہوتا رہا۔ گاڑیاں ٹریفک کے ازدحام میں پھنس گئیں، پٹرول ختم ہو گیا، تانگے لے کر گھر پہنچے۔ اگلے دن رات بھر کی گرمی سے بھلبھلائے خاندان کو پھر واہگے لے جایا گیا اوراتنے نعرے لگوائے گئے کہ گلے بیٹھ گئے۔

اگست کی ہی حبس بھری راتوں میں جب، بڑوں کے خیال میں سب بچے سو چکے ہوتے تھے تو بی بی جی چپکے سے پھپھو سے کہتیں، ‘ بلقیس یاد ہے، اس دن جب تلاشی ہوئی تھی، اور سنڈاس سے بم ملا تھا، ابامیاں گرفتار ہوئے تھے، کس قدر گرمی تھی اس دن اور جمیل ایکساں روئے جا رہا تھا، یاد ہے ناں بلقیس؟ ‘

جواب میں پھپھو اسی طرح سرگوشی میں کہتی تھیں، ‘ ہاں اور ہم وہاں سے بس نماز کی چوکیاں لائے تھے، قیصر، حویلی میں تو سامان بھرا پڑا تھا، کیا ہوا ہو گا اس سب کا؟ ‘
کسی اور جانب سے خالہ امی کی آواز آتی تھی، ’میں نے عید کے لیے تلے کی کوٹی منگوائی تھی، پتہ نہیں کس کے ہتھے چڑھی ہو گی ہم تو لیاقت علی خان کے گھر آ گئے تھے۔ ‘ اس دوران اگر ذرا بھی شک پڑتا کہ کوئی بچہ جاگ رہا ہے تو سب دم مار کے پڑ جاتے اور تسبیحیں رولنے لگتے۔ ہمارے خاندان کی ہجرت کی کہانی ایک راز رہی۔ ادھر ادھر سے جو پتہ چلا سو چلا۔

یہ سب اگست میں ہوتا تھا۔ اب یہ سب نہیں رہے، ان کی قبروں پہ سبزہ اگ آیا ہے اور کتبوں پہ لکھے جائے پیدائش کے شہروں اور قصبوں کے نام کسی اور سیارے کے ٹھکانے لگتے ہیں۔ پوری پیڑھی گزر گئی، کون بتائے گا کہ 70 سال پہلے ایک دن کیا ہوا تھا کہ اپنے پیروں کی مٹی چھوڑ کر بھاگ آئے۔ باپ دادا کی قبریں بھی وہیں چھوڑ آئے۔

پھر دھیان آتا ہے، قبریں کون ساتھ لے جا سکتا ہے؟ اگر لے جا سکتے تو محلہ سمادھانوالا سے جانے والے بھی اپنے بڑوں کی سمادھی ساتھ لے جاتے۔ قبریں اور سمادھیاں اگر بول سکتیں تو پتہ چلتا کہ ستر سال پہلے ایک دن کیا ہوا تھا!
  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).