بڑھیا کے گہنے اور میٹرو بس سروس


 \"malihaبچپن میں اماں جان ایک بڑھیا کی کہانی سنایا کرتی تھیں۔ شاید آپ نے بھی اپنی امی یا دادی جان سے سنی ہو، نہیں سنی تو چلیں آج پڑھ لیں اور اگر سن رکھی ہے تو اپنے بچپن کے سنہری دنوں کی یاد تازہ کیجئے۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ ’’ ایک تھی بڑھیا! ( یہ بڑھیا، بوڑھی ہونے سے قبل کیا تھی، اس وقت ہمارے معصوم ذہن یہ سوچنے کے متحمل نہ تھے، ورنہ شاید اماں سے پوچھا ہوتا)۔ اس بڑھیا کا شوہر بھی مر چکا تھا اور بچے بھی نہ تھے۔ تنہائی کی ماری اس بڑھیا کا بس ایک ہی شوق تھا اور وہ تھا گہنے پہننا۔ ۔ ۔ بڑے بڑے سنہری گہنے بڑھیا کو بے حد پسند تھے اور اسی کے لئے وہ نجانے کب سے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر رہی تھی۔ ہر روز رات سونے سے قبل اپنی دن بھر کی بچت کو وہ اپنی پیسوں والی پوٹلی میں منتقل کرتی اور ایک بار پھر نئے سرے سے تمام رقم گن کے اندازہ کرتی کہ اسے یہ سنہری گہنے بنوانے کے لئے مزید کتنی رقم درکار ہوگی۔ آخر کار وہ دن آہی گیا جب مطلوبہ رقم پوری ہوچکی تھی۔ اب بڑھیا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ صبح ہونے کا بیتابی سے انتظار کرنے لگی کہ کب صبح ہو اور وہ گہنے بنوانے کے لئے سنار کے پاس جائے۔

بڑھیا جاگتی آنکھوں سے خود کو گہنوں میں لدا پھندا دیکھ رہی تھی۔ چاند کی جانب دیکھتی تو اس کے گرد موجود روشنی کا سفید ہالہ سنہری گہنا دکھائی دیتا۔ اسی سوتی جاگتی کیفیت میں صبح ہوئی اور بڑھیا بھاگی بھاگی سنار کے پاس پہنچی۔ سنار نے پوری رقم گننے کے بعد بڑھیا کو گہنے پسند کروانا شروع کر دیئے۔ اپنے برسوں پرانے خواب کی تعبیر سے چند لمحوں کی دوری پر موجود بڑھیا نے خوب ہی جانچنے پرکھنے کے بعد گہنوں کی ایک جوڑی پسند کی اور اسے پہن کے خوشی خوشی گھر چلی آئی۔ راستے میں اسے جو بھی نظر آتا، بڑھیا کھٹ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھنے کی کوشش کرتی لیکن اس میں کم ہی کامیاب ہوسکی کیونکہ اول تو \"Armenian-woman-in-traditional-dress-\"کوئی بڑھیا کے اتنا قریب ہی نہ آتا کہ اس کے سر پر دست شفقت پھیرنے کی نوبت آئے اور اگر بڑھیا کسی کے اتنا قریب پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جاتی تو بھی وہ انتہائی ناگواری سے اس مشفقانہ رویئے کو قبول کرتا تھا۔ گھر پہنچنے تک خود بڑھیا کی طبیعت بھی خاصی مکدر ہو چکی تھی کیونکہ پورے بازار میں اسے کوئی ایک بھی ایسا شخص نہ ملا تھا جس نے گہنوں کی جانب نگاہ کی ہو یا جو اسے اپنی خوشی میں خوش دکھائی دیا ہو۔ اس کی وجہ بڑھیا کی بدمزاجی تھی۔ بڑھیا کسی بھی شخص کو گھاس ڈالنا پسند نہ کرتی تھی، اگر کوئی شامت کا مارا، بڑھیا کی عمر کا خیال کرتے ہوئے اس کی خدمت کرنے، تنہائی دور کرنے کی کوشش کرتا تو اسے بھی وہ اس قدر بری طرح دھتکار دیتی کہ وہ بھی آئندہ کے لئے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتا۔ اب بڑھیا کو مایوسی نے گھیرنا شروع کردیا۔ اس کے لئے حاصل زندگی ہی گہنے بنوانا تھا اور اب جب کہ یہ مقصد پورا ہوچکا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا میں کسی بھی شخص کو اس کی خوشی سے کوئی مطلب ہی نہ تھا۔ اسی دکھ اور مایوسی کے عالم میں شام ہوگئی اور پھر بڑھیا ایک نتیجے پر پہنچ کے جیسے مطمئن سی ہوگئی اور چارپائی پر سونے کے لئے لیٹ گئی۔

رات کے تیسرے پہر جب محلے اور بازار میں نشئی اور آوارہ کتوں کے علاوہ کوئی نہ جاگتا تھا۔ یکایک بڑھیا کی چیخ و پکار سے پورا محلہ گونج اٹھا۔ بڑھیا کا گھر شعلوں کی لپیٹ میں تھا اور آگ کی لپٹیں آسمان کو چھوتی معلوم ہوتی تھیں۔ بس پھر کیا تھا، محلے والے بڑھیا کے ماضی کے رویئے کو یکدم بھول گئے اور ہر شخص آگ بجھانے کے لئے اپنی سی کوشش کرنے لگا۔ اس دوران بڑھیا کی جانب سے دہائی دینے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ جب آگ پر کسی حد تک قابو پالیا گیا تو محلے داروں اور تماشہ دیکھنے والی خواتین کی توجہ کا رخ بڑھیا کی جانب ہوگیا اور یہی وہ لمحہ تھا جب ان میں سے کچھ کی نگاہ بڑھیا کے گہنوں پر پڑی۔ ہجوم میں موجود بڑھیا کی پرانی پڑوسن یکدم بول پڑی کہ ’’ آپا! گہنے تو بہت خوبصورت ہیں‘‘۔ بڑھیا نے یہ توصیفی جملہ سنا تو بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا کہ ’’ ہائے ہائے ! اگر پہلے ہی گہنے دیکھ لیتے تو مجھے یوں گھر کو آگ تو نہ لگانا پڑتی‘‘۔

اماں جان یہ کہانی بڑھیا کی بدزبانی کے انجام کا درس دینے کے لئے سناتی تھیں۔ دو روز قبل جب ٹی وی پر یہ خبر نشر ہوئی کہ میٹرو بس سروس کا آپریشن ممکنہ خطرے کے پیش نظر عارضی طور پر بند کیا جارہا ہے تو ذہن میں بے ساختہ یہ کہانی گھوم گئی۔ بڑھیا نے اپنے گہنے دوسروں کو دکھانے کی خاطر اپنے گھر کو آگ لگا ڈالی تھی اور ہم اتنے سادہ لوح ہیں کہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے سرکاری و عوامی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ یہ بس سروس خادم اعلیٰ کی کی ذاتی جیب سے نہیں بلکہ قومی خزانے سے چلتی ہے۔ یہ وہی قومی خزانہ ہے جسے عوام اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کے ٹیکسوں کے ذریعے بھرتے ہیں اور پھر بڑھیا کی طرح توجہ پانے کے لئے اس خزانے کو آگ لگا دیتے ہیں۔ میٹرو کی بندش ممکنہ خطرے کے پیش نظر ہوئی تاہم یہ پہلا موقع نہیں کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہو۔ درحقیقت پاکستانی قوم کو احتجاج کے لئے یہی ایک راہ سجھائی دیتی ہے کہ وہ سرکاری عمارتوں، بس سٹاپ، سرکاری پٹرول پمپس یا پھر ٹرانسپورٹ کو نقصان پہنچانا شروع کردے۔ خدارا اس حقیقت کو سمجھیں کہ اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچانے سے سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ رینگے بھی کیسے؟ اس نقصان کا ازالہ ان کی جیب سے تو ہوگا نہیں ، الٹا سرکار کو ’’ مرمت و تعمیری‘‘ مقاصد کے لئے قومی خزانے سے مزید فنڈز حاصل کرنے کا مزید ایک موقع میسر آئے گا اور عوام کا پیسہ، عوام کی خدمت کے بجائے ’’سرکار کی خدمت‘‘ کے لئے استعمال ہونے کا سلسلہ چلتا رہے گا۔

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments