محترم چیف جسٹس صاحب آپ کا دلی شکریہ


عدالتِ عظمیٰ ریاست کے تین ستونوں میں سے ایک ستون کی بلند ترین مقام ہے اور اس اہم ترین ستون کو ہم عدلیہ عدل کی نسبت سے کہتے ہیں۔ زمینی حقائق خیر جو بھی ہوں عدل کا جو چرچا ہماری سرکاری تاریخ میں ملتا ہے وہ ہمارا سر آسمانوں سے ملا ڈالتا ہے۔ جب سر آسمان چھونے لگے تو زمین کو کون کم بخت دیکھنا پسند کرے گا۔

جس طرح عدالتِ عظمیٰ عدلیہ کے ستون کا بلند ترین مقام ہے بالکل اسی طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو منصفِ اعظم کہنا عین واجب ہوگا۔ 8 اگست کو ہمارے نہایت واجب الاحترام منصفِ اعظم جناب ثاقب نثار صاحب نے شہدائے کوئٹہ کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں نظریہ پاکستان کو پاکستان کی بنیاد قرار دیتے ہوئے سر سید احمد خان اور فکرِ اقبال پر خوب روشنی ڈالی۔ نہایت واجب الاحترام جناب منصفِ اعظم صاحب نے فرمایا کہ یہاں دو قومیں آباد تھیں جن میں سے ایک مسلمان تھی اور دوسری کا میں نام لینا بھی پسند نہیں کرتا۔ دو قومی نظریہ سے عقیدت کی یہ وہ معراج ہے جو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح بھی حاصل نہ کر پائے کیونکہ انہیں کبھی کسی غیر مسلم کا نام لینے میں نہ کبھی کراہت ہوئی اور نہ ہی کبھی نفرت ان پر غالب آسکی۔ بلکہ 11 اگست کی تقریر میں فرمایا کہ وقت آگیا ہے کہ یہاں کا ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا بلکہ سب ایک آزاد ریاست کے مساوی شہری ہوں گے۔

محترم منصفِ اعظم اگر کچھ دیر کے لئے غیر مسلموں سے کراہت پر قابو رکھ کر تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان سے لے کر تعمیر پاکستان تک سیاست، تعلیم، صحت، دفاع اور سماجی خدمت کے شعبوں میں مذہبی اقلیتوں کے کردار پر غور فرمائیں تو یہ میرا احساس ہے کہ آپ انہیں قابلِ تحسین حد تک سرخرو پائیں گے۔ یہاں اُن تمام خدمات کو زیرِ بحث نہیں لاتے کیونکہ کسی ایک مضمون میں ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ یہاں صرف عدالتِ عظمیٰ کی سطح پر خدمات انجام دینے والوں کا تذکرہ ہی کافی ہے۔

محترم منصفِ اعظم صاحب آپ کیسے بھول سکتے ہیں کہ جمہوری نظام میں عدل و انصاف کے بندوبست میں آئین آکسیجن کا درجہ رکھتا ہے اور آئین کی تشکیل میں محترم جسٹس اے آر کارنیلئیس کا کیا کردار ہے یہ شاید کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔

محترم منصفِ اعظم صاحب آپ کیسے بھول سکتے ہیں کہ آپ کے پیش رو جسٹس رانا بھگوان داس اُن شفاف منصفین میں سے ایک ہیں جن پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ وہ بھی ہندو تھے۔ اور پھر تاریخ یہ کیسے بھول سکے گی کہ جب ان کے چیف جسٹس بننے کا وقت آیا تو کیا کہرام مچا۔

محترم منصفِ اعظم صاحب آپ کیسے بھول سکتے ہیں کہ ہندو یا دیگر غیر مسلم جو پاکستان کے محبِ وطن شہری ہیں وہ بھی انسان ہیں۔ ان کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے۔ جب ان کی تحقیر ہوتی ہے تو یہ ان کے لئے بھی جان کنی کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہیں تمام سرکردہ عہدوں سے دور رکھا جائے، معاشرتی زندگی میں انہیں کم تر سمجھا جائے۔ ان کی قابلِ ستائش خدمات کے باوجود انہیں جھاڑو کی شناختی علامت الاٹ کی جائے، جب چاہے اور جس کا دل چاہے انہیں کافر قرار دے کر ان کی جان لے لے لیکن پاکستان کی مذہبی اقلیتیں ہمیشہ پوری سرشاری اور دیانتداری سے اپنی خدمات ادا کرتی آئی ہیں اور کرتی رہیں گی۔ ان کی تاریخ پر اور ان کے مسائل پر اگر آپ پل بھر کو غور فرما لیں تو آپ کو علم ہوجائے گا کہ انہیں آپ سے یا کسی سے بھی حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ لینے کی ہرگز ضرورت نہ پڑے گی۔

حضور اگر آپ کی کراہت دوسری قوم کی طرف اس لئے ہے کہ ان کا مذہب مختلف ہے تو آپ نے وطنِ عزیز میں بسنے والے لاکھوں غیر مسلم پاکستانیوں کی تحقیر فرمائی ہے۔ آپ کو اپنے بیان کی وضاحت کرنا چاہیے۔ اور اگر آپ کا یہ بیان سیاسی پس منظر میں ہے تواول تو دست بستہ یہ عرض کردوں کہ آپ سیاستدان نہیں بلکہ منصفِ اعظم ہیں۔ اور دوئم یہ کہ اگر یہ بیان آپ نے اُس وقت کے سیاسی تناظر میں ارشاد فرمایا ہے تو اُس وقت بھی کثیر مسلم آبادی کا سیاسی الحاق کانگرس سے تھا اور انہوں نے وہاں ہی رہنا پسند کیا اور آج بھی وطنِ عزیز سے زیادہ مسلمان ہندوستان میں آباد ہیں۔ پس اگر آپ نے سیاسی اعتبار سے ہندوستانیوں سے بطورِ قوم کراہت فرمائی ہے تو پھر آپ نے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کی بھی تحقیر کی ہے لہذا ہر دو صورتوں میں آپ کو اپنے اس بیان کی نہ صرف وضاحت فرمانی چاہیے بلکہ اگر جائز سمجھیں تو معذرت بھی کر لینی چاہیے۔

محترم منصفِ اعظم صاحب ماضی کا آپ کا لکھا ہوا ایک فیصلہ آپ کے موجودہ بیانیے سے میل نہیں کھاتا۔ اکیسویں ترمیم کے مقدمے میں لکھے گئے 200 سے زائد صفحات پر مشتمل اپنے اقلیتی فیصلے میں آپ نے نہ صرف جمہوریت اور آمریت کی کشمکش پر ہی روشنی ڈالی تھی بلکہ آپ نے آئینِ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کے تصور اور نظریہ پاکستان پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ محترم منصفِ اعظم صاحب آپ نے لکھا تھا کہ آئینِ پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے اور قراردادِ مقاصد کو آئینی ڈھانچہ بنا کر آئین سے بلند کوئی نظریہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ آپ کا کہنا تھا کہ اگر پچھلی نسلوں کا کوئی نظریہ تھا بھی تو آنے والی نسلوں کو پچھلی نسلوں کا فکری غلام نہیں بنایا جاسکتا لہذا آئین کو کسی نظریہ کی بنیاد پر پڑھا یا پرکھا نہیں جا سکتا بلکہ عوامی حمایت سے تشکیل پانے والی پارلیمان ایسی ترامیم کر سکتی ہے جو اس بنیادی ڈھانچے یا نظریے کے خلاف ہوں۔

اب یہ آپ ہی بتا سکتے ہیں کہ آپ تب ٹھیک فرما رہے تھے یا آج آپ مذہبی اقلیتوں کی توہین کو روا سمجھتے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی واجب ہے کہ غیر مسلموں سے اس قدر نفرت کے ہوتے ہوئے کوئی کیسے ان کے مقدمات اور اُن کے قانونی اور آئینی حقوق کے حوالے سے انصاف اور عدل قائم رکھ سکتا ہے۔

از راہِ کرم مذہبی اقلیتوں کو بتایا جائے کہ آخران کی غلطی کیا ہے جو ہر شعبے، ہر سطح اور ہر دور میں انہیں تحقیر، تذلیل اور استحصال کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاکہ وہ گلوں شکوؤں کی جگہ اپنی غلطی سدھارنے کی طرف توجہ دیں اور اگر اس غلطی کے ازالے کا امکان نہیں تو کم از کم وہ اپنے اسی احساس گناہ کے بوجھ تلے مریں اور بار بار ارباب ِ اختیار کو تنگ نہ کریں۔ محترم چیف جسٹس صاحب اگر آپ مذہبی اقلیتوں کا اصلی گناہ بتا دیں تو یقین مانئے وہ پوری انکساری سے کہیں گی کہ چیف جسٹس صاحب آپ کا دلی شکریہ۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).