حکومتی ایوانوں سے جی ٹی روڈ تک کا سفر


ملکی تاریخ میں سڑکوں پر ریلیاں نکالنا اور احتجاجی تحرکیں چلانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی پاکستان کی سیاست احتجاجی تحریکوں، دھرنوں اور ریلیوں سے بھری پڑی ہے۔ ان تحریکوں سے پاکستان میں آج تک تو کوئی انقلاب برپا نہیں ہوا۔ البتہ ان دھرنوں اور ریلیوں نے ملکی کاروباری افق پر کئی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نا اہل سابق وزیراعظم نے عوامی عدالت سے رجوع کیا اور عوام سے رابطے کے لیے ذریعے لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ سابق وزیراعظم اپنی تقاریر میں کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی عوام کی پارٹی ہے اور وہ ایک عوامی لیڈر ہیں۔ اور یہ عوامی لیڈر اپنے موجودہ سیاسی دور میں نا اہل ہونے کے بعد پہلی دفعہ جی ٹی روڈ سے گزر رہے ہیں! چلیں اچھا ہے! میاں صاحب واپس جا کر خادم اعلیٰ کو یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ جی ٹی روڈ سے سفر کرنا ایک آسان کام نہیں ہے اور ہو سکتا ہے خادم اعلیٰ لاہور کی شاہراہوں اور پلوں کے ساتھ ساتھ جی ٹی روڈ کی ناگفتہ بہ حالت پر بھی نظر ثانی کر لیں۔

سوشل میڈیا پر اس ریلی کے حوالے سے تصاویر، نعروں اور ویڈیوز کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے۔ کہیں نون لیگ والے اپنے سیاسی قائد کی گاڑیوں کو چوم رہے ہیں تو کہیں لوٹوں نوٹوں کی بارش کر رہے ہیں۔ تو کہیں اینکر حضرات عوام کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ میاں صاحب کا قافلہ اتنا منہ زور نہیں ہے جتنا کہ ن لیگ والے بتا رہے ہیں اور اس پرسبحان اللہ (ن) لیگ کے کارکنان نے تو یہاں تک حد کر دی ہے کہ سوشل میڈیا پراپنے جلسے کو کامیاب دکھانے کے لیے کہیں عرفات کے میدان کی تصاویر لگا دی ہیں تو کہیں ممتاز قادری کے جنازے کی۔ ’’لا حول ولا قوۃ۔ ‘‘ حد ہی ہو گئی دوسری طرف اپوزیشن والے اپنی لفاظی جنگ کے ساتھ سرگرداں ہیں اور وہ الگ تاثر دے رہے ہیں۔ کہ واہ کیا پاور شوہے۔ ’’میاں صاحب ٹھس ہو گئے ہیں۔ ‘‘ ایک اور ٹویٹ ملاحظہ کریں جس میں لکھا تھا کہ انڈیا میں اڑتا پنجاب کے نام سے فلم بنائی گئی ہے جبکہ یہاں ’’رلتا پنجاب‘‘ ہے۔ یہ پڑھ کر دلی تکلیف ہوئی کہ پنجاب ہو یا سندھ خیبر پختونخواہ ہو یا بلوچستان، کشمیر ہو یا گلگت بلتستان، یہ ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں اور جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو پورا جسم تکلیف اور کرب سے گزرتا ہے۔

یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر ہے۔ میاں صاحب نے اس ریلی کے دوران اپنی پہلی تقریر رات گئے کی ہے۔ جب میڈیا اور اینکر حضرات خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ میاں صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ میری حکومت کو 20 کروڑ عوام کا مینڈیٹ حاصل رہا ہے۔ تو مجھے پانچ جج کیسے برخواست کر سکتے ہیں۔ آج انھوں نے اپنی تقریر میں بھٹو کی پھانسی کو بھی غلط قرار دیا۔ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کے نا اہل ہونے کو بھی غلط قرار دیا جبکہ میاں صاحب کو یہ یاد کروانا بہت ضروری ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو نا اہلی قرار دلوانے کے لے انہوں نے ایڑی چوٹی کا زورلگایا تھا۔ اس اہل کے متعلق میاں صاحب کی تقاریر ریکارڈ پر موجود ہیں جس میں آپ بازو لہرا لہرا کر یہ فرما رہے ہیں۔ کہ یوسف رضا گیلانی کو عدالتی فیصلے کے بعد گھر چلے جانا چاہیے لیکن سیاست میں یادداشت کا زیادہ اچھا نہ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

یہاں ایک جگہ توجہ اور بھی مبذول کرواتی چلوں کہ 2013؁ء میں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ اس طرح ملک بھر میں 56.26 فیصد مرد اور 43.47 فیصد خواتین ووٹرز تھیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق عام انتخابات میں ووٹنگ کی شرح ان رجسٹرڈ ووٹوں میں سے بھی 55 فیصد رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ 2008؁ء کے الیکشن کی نسبت 11 فیصد سے زیادہ تھی اور ان سارے ڈالے گئے ووٹروں میں بھی دوسری سیاسی جماعتوں کے نمائندگان بھی شامل ہیں تو آپ کے یہ بات گوش گزار کرتی چلوں کہ آپ پوری قوم کی نمائندگی کا دعویٰ نہ کریں۔

آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گی کہ میاں صاحب ریلی میں پانچ لاکھ افراد ہو یا پانچ ہزار، بات سے فرق نہیں پڑتا۔ آپ کے مخاملف سیاسی جماعتیں آپ کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں۔ پ کی اپنی سیاسی جماعت میں کتنی گروہ بندی ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا آپ کی کارکردگی کی کتنی تضخیک کر رہا ہے۔ آپ ان سب باتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نیند سے بیدار ہو جائیں اور اپنے چاپلوس کارکنان کو یہ باور کروانے کے خواب حقیقت سے بہتر نہیں ہوتے ہیں اور میری رب کائنات سے یہ دعا ہے کہ یہ ریلی آپ کا آخری سیاسی سفر ثابت نہ ہو۔ (آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).