ستر سالہ پاکستان


پاکستان اپنے قیام کے ستر سال پورے کرنے جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا نعرہ بھی بلند آہنگ اور ہنگامہ خیز ہوتا جا رہا ہے۔ بظاہر یہ کرپشن کے خاتمے کے لئے ایک تحریک ہے کیونکہ بوڑھے، نوجوان، مرد، عورتیں، سندھی، پنجابی، سنی، شیعہ، مذہبی، لبرل، دیہاتی یا شہری غرض ہر کوئی سیاسی یا اخلاقی برائی سے نفرت کرتا ہے۔ لیکن حقیقت میں ملک کی اندرونی صورت حال کہیں زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ خطرات بدعنوانی سے کہیں بڑھ کرہیں۔ عدلیہ، فوج اور پاکستان تحریک انصاف کی پیدا کردہ حالیہ ’’بہار ِ پاکستان‘‘ ایک بحران کو مسلسل گہرا کررہی ہے جس کے دور رس نتائج خوفناک نظر آتے ہیں۔ محدود سیاسی خدوخال سے آگے نظر دوڑائیں ایک بھیانک مستقبل، جو بہت دور نہیں، منہ کھولے ہمارا منتظر ہے۔

تین سال قبل برٹش کونسل کے کیے گئے ایک سروے نے پاکستان میں تبدیلی کی راہ واضح کر دی تھی۔ ملک میں ’’نوجوان ‘‘ اور شہری طبقے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے نصف شہری بیس سال سے کم عمر اور 65 فیصد ابھی تیس سال کی عمر کو نہیں پہنچے ہیں۔ آبادی گزشتہ پچاس سال میں تین گنا بڑھ چکی ہے۔ 2018 تک مزید 14 ملین نوجوان ووٹ دینے کے اہل ہو جائیں گے۔ 94 فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ ملک غلط سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ 80 فیصد کے خیال میں ہماری معاشی حالت بہتر نہیں ہو پارہی۔ مطلب یہ کہ بڑی تعداد میں ان نوجوانوں کو پاکستان کا مستقبل اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔ تشدد ہماری روز مرہ کی زندگی کی تاک میں رہتا ہے۔ ستر فیصد کے خیال میں پاکستان ماضی کے مقابلے میں ایک محفوظ ملک نہیں ہے۔ گلوبل پیس انڈیکس میں پاکستان 158ممالک میں سے149 نمبر پر موجود ہے۔

سروے میں یہ بھی پتہ چلا کہ نوجوانوں کی بے چینی کی بڑی وجہ دہشت گردی نہیں بلکہ ملازمتوں اور انصاف کی عدم فراہمی اور افراط زر ہے۔ صرف دس فیصد نوجوان باقاعدہ ملازمتوں کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ سب سے کم مقبول ادارے ہیںجبکہ میڈیا، فوج، عدلیہ اور مذہبی ادارے زیادہ مقبولیت کے حامل ہیں۔ 30 فیصد سے کم کا خیال ہے کہ ’’جمہوریت‘‘ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرسکتی ہے جبکہ 70 فیصد سے زائد کی رائے میں فوجی حکومت یا شریعت کا نفاذ بہتر راستے ہیں۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والوں میںسے اکثریت کا خیال ہے کہ وہ نظام کی تبدیلی کے لئے ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ 80 فیصد سے زائد ممالک جن میں 60 فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر ہے، پاکستان کی طرح تشدد اور خانہ جنگی کا شکار ہیں کیونکہ ’’نظام ‘‘ معاشی اور معاشرتی بہتری کے لئے امیدوں پر پورا نہیں اترتا۔

اس سے یہ سوال پید ا ہوتا ہے کہ کیا ایک سیاسی کرپشن کو جواز بنا کر زبردستی حکومت کی تبدیلی پاکستان میں تشدد، عدم تحفظ اور نا امیدی کی لہر کو روک سکتی ہے؟ اس بات کے تجرباتی شواہد موجود ہیں کہ پاکستان کی آزادی کے ان ستر سالوں میں ’’کرپٹ حکومتوں‘‘ کی تبدیلی سے کرپشن میں کبھی کمی نہیں آئی۔ بلکہ بار بار سویلین حکومتوں اور فوجی آمریت کے آنے اور جانے سے بھی کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں مذہبی خیالات کے حامل نوجوانوں کی خواہش اور میلان کے مطابق حکومت کی تبدیلی پاکستان کے لئے مہلک ہوگی کیونکہ اس کے نتیجے میں وردی پوشوں اور عدلیہ کا باہم اشتراک حق ِ حکمرانی حاصل کرلے گا۔ مشرق ِوسطیٰ میں آنے والی ’’بہار عرب ‘‘ کا پیمانہ استعمال کرتے ہوئے ہم جانچ سکتے ہیں کہ نوجوانوں کی اکثریت کس قسم کی تبدیلی چاہتی ہے اور اس کے نتیجے میں کیا ہوگا؟ جمہوری نظام اپناتے ہوئے معاشی ترقی، سیکورٹی اور استحکام کی طرف بڑھنے کی بجائے مشرق ِوسطیٰ کے ممالک ایک ایک کرکے آمریت، شورش پسندی، خانہ جنگی اور غیر ملکی مداخلت کا شکار ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ ریاستی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بکھرگیا، بہار عرب کی خوشبو خزاں کی نا امیدی میں تبدیل ہوگئی اور باد ِ نسیم کے پرلطف جھونکے کی بجائے باد ِ سموم کے جھکڑ نے گلستان کو جھلساڈالا۔

2018 ء تک کم و بیش پندرہ ملین نوجوان، جن میں زیادہ تر قدامت پسند، بے روزگار اور مشتعل ہوں گے، کاموجودہ ووٹنگ لسٹ میں شمار ہوچکا ہوگا۔ اگراُنھوںنے ریاست کے غیر منتخب شدہ اداروں کے اکسانے پر انتخابی معرکے میںمذہبی اور انتہائی دائیں بازو والی جماعتوں کی حمایت کردی تو ملک کو مشرق ِوسطیٰ جیسے تشدد، عدم استحکام اور خانہ جنگی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ لیکن اگر ہماری قسمت اچھی ہوئی اور ان نوجوانوں نے ملک کے ’’بدعنوان جمہوری نظام‘‘ کے ساتھ وابستگی کو ترجیح دی تو پاکستان کے پاس ایک موقع ہوگا کہ وہ جمہوری اقدار کو مضبوط کرتے ہوئے معاشی استحکام کی راہ اپنا سکے۔

بے شک یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستانی ریاست کی عدم فعالیت اور معاشی ابتری کی ذمہ داری شب خون مارنے والے فوجی افسران اور ا ن کے ساتھ بخوشی تعاون کرنے والی عدلیہ سے زیادہ موروثی سیاست کی حامل نا اہل سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے، لیکن یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ موجودہ سیاسی دلدل سے تیر کر نکلنے کی کوشش کرنے والی وہ سیاسی جماعت ہے جسے کبھی فوج نے تخلیق کیا تھا اور جسے عدلیہ کا تعاون حاصل رہا لیکن اب وہ اپنے ماضی سے سیکھ رہی ہے۔ اور اس کا راستہ روکنے کے لئے ایک نئی جماعت تخلیق کی گئی جسے نوجوانوں کی تائید حاصل ہے اور جو مزید دائیں بازو کی طرف جھکتی چلی جارہی ہے کیونکہ اس کا دارومدار اُنہیں ریاستی اداروں پر ہے جو مذہبی قدامت پسند ی سے اپنے اثاثے تراشتے ہیں۔

ان حالات میں موجودہ سیاسی بحران کے ایک طرف ’’ نا اہل اوربدعنوان جمہوری قوتیں‘‘ ہیں اور دوسری طرف بدعنوان اور مذہبی انتہا پسندی ہے۔ اس تصادم کا نتیجہ ریاست کی تحلیل، اور اسے مشرق وسطیٰ کے سے انجام سے دوچار کرنے کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).