جب فیدل کاسترو نے اندرا گاندھی کو گلے لگا لیا


یہ بات سنہ 1960 کی ہے۔ موقع اقوام متحدہ کی 15ویں سالگرہ کا تھا اور دنیا بھر کے سرکردہ لیڈر نیویارک میں جمع ہوئے تھے۔ جب فیدل کاسترو نیو یارک پہنچے تو یہ جان کر انھیں بہت بڑا دھچکا لگا کہ وہاں کوئی ہوٹل انھیں اپنے یہاں رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ایک دن تو انھوں نے کیوبا کے سفارت خانے میں ہی گزارا لیکن اگلے دن انھوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ڈاگ ہیمر ہیولڈ سے ملاقات کر کے کہا کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ میرے اور میرے وفد کے رہنے کا انتظام کریں ورنہ میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے صحن میں خیمہ ڈال کر وہیں رہنے لگوں گا۔ غنیمت یہ رہی کہ اگلے دن نیو یارک کے ٹریسا ہوٹل انھیں اپنے یہاں رکھنے کے لیے تیار ہو گیا۔

انڈیا کے سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب میں کاسترو سے ملا تو انھوں نے مجھ سے کہا: ‘کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب میں نیویارک کے اس ہوٹل میں رکا تو سب سے پہلے مجھ سے ملنے کون آیا؟ پنڈت جواہر لال نہرو۔ میری عمر اس وقت 34 سال کی تھی۔ بین الاقوامی سیاست کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ نہرو نے میرا حوصلہ بڑھایا جس کی وجہ سے مجھ میں غضب کا اعتماد جاگا۔ میں تا عمر نہرو کے اس احسان کو نہیں بھول سکتا۔’

نہرو اور فیدل کی اس ملاقات کے بعد بھارت کے لیے ان کے دل میں جو احترام اور پیار پیدا ہوا اس میں کبھی کمی نہیں آئی۔ 1983 میں جب انڈیا میں ناوابستہ تحریک کی کانفرنس ہوئی تو فیدل کاسترو یہاں آئے۔ کانفرنس کے آغاز میں ہی فلسطینی رہنما یاسر عرفات اس بات پر ناراض ہو گئے کہ ان سے پہلے اردن کے شاہ کو تقریر کرنے کا موقع دیا گیا۔ بھارت کے سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ اس کانفرنس کے سکریٹری جنرل تھے۔

نٹور کہتے ہیں: ‘اس کانفرنس میں صبح کے سیشن میں فیدل کاسترو صدر تھے۔ اس کے بعد اندرا گاندھی صدر بن گئی تھیں۔ صبح کے سیشن کے بعد میرے ڈپٹی سناتی لامبا میرے پاس دوڑے ہوئے آئے اور بولے بہت بڑی مشکل آ گئی ہے۔ ياسر عرفات بہت ناراض ہیں اور فوری طور پر اپنے ہوائی جہاز سے واپس جانا چاہتے ہیں۔ میں نے اندرا جی کو فون کیا اور کہا کہ آپ فورا وگیان بھون آ جائیے اور اپنے ساتھ فیدل کاسترو کو بھی لیتی آئیے۔’

نٹور آگے بتاتے ہیں: ‘کاسترو صاحب آئے اور انھوں نے فون کر کے یاسر عرفات کو بھی بلا لیا۔ انھوں نے عرفات سے پوچھا آپ اندرا گاندھی کو اپنا دوست سمجھتے ہیں کہ نہیں۔ عرفات نے کہا، دوست نہیں۔۔۔۔ وہ میری بڑی بہن ہیں۔ اس پر کاسترو نے تپاک سے کہا کہ تو پھر چھوٹے بھائی کی طرح برتاؤ کرو اور کانفرنس میں شرکت کرو۔ ‘ عرفات اندرا گاندھی اور فیدل کو انکار نہیں کر پائے اور شام کے سیشن میں حصہ لینے کے لیے پہنچ گئے۔

اسی کانفرنس کے اس منظر کو کون بھول سکتا ہے جب فیدل کاسترو نے وگیان بھون کی عمارت کے پلیٹ فارم پر ہی سرعام اندرا گاندھی کو گلے لگا لیا تھا۔ معروف صحافی سعید نقوی کہتے ہیں: ‘اندرا گاندھی کو فیدل نے سینے سے لگا لیا۔ وہ بالکل ایک شرماتی دلھن کی طرح بن گئیں۔ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا کریں۔ لیکن وہ اندرا گاندھی کو نہرو کی بیٹی کے طور پر دیکھتے تھے۔’

سعید نقوی کو 1990 میں فیدل کاسترو سے انٹرویو کرنے کا موقع ملا تھا۔ نقوی یاد کرتے ہیں: ‘بڑی مشکل سے انٹرویو دینے کے لیے وہ راضی ہوئے۔ ہم کیوبا پہنچے۔ وہاں پر ہمیشہ سسپنس رہتا ہے۔ وہ آپ کو کمرے میں بیٹھا لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ آپ باہر نہیں جا سکتے کیونکہ فیدل کے دفتر سے کسی بھی وقت بھی فون آ سکتا ہے۔ پھر مجھ سے رات میں تیار رہنے کے لیے کہا گیا۔ میں نے سمجھا کہ شریف آدمی چھ یا سات یا بہت ہوا تو آٹھ بجے بلائے گا۔’

نقوی آگے بتاتے ہیں: ‘لیکن انھوں نے مجھے رات کے دس بجے بلایا۔ ان کی گاڑی مجھے لینے آئی۔ وہاں بھی ایک سائیڈ روم میں ہم بیٹھے۔ گھنٹے بھر کے بعد کاسترو ظاہر ہوئے۔ میں نے سمجھا کہ وہ مجھے سگار پیش کریں گے۔ لیکن پتہ چلا کہ انھوں نے سگار پینا چھوڑ دیا تھا۔ انھوں نے ایک برانڈی اپنے لیے بنائی اور ایک میرے لیے۔ وہ گويا اس کے ذریعے مجھ سے ریپو قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹے ابتدائی بات چیت میں ہی لگ گئے. اس دوران انھوں نے مجھے پہچان لیا اور میں نے بھی ان کو ناپ لیا۔’

‘ہماری جو ترجمان تھیں، وہ صاحب جادوگرنی تھی۔ یہ بالکل احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ ہماری بات چیت کا ترجمہ کر رہی ہیں۔ غالب کا مصرع ہے ۔۔۔۔ میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ۔۔۔۔ اس پر پوری طرح لاگو ہوتا تھا۔ فیدل انگریزی کے چند الفاظ سمجھتے تھے لیکن جواب ہمیشہ کیوبن ہسپانوی میں دیتے تھے۔ فیدل کے ساتھ یہ نہیں تھا کہ آپ دس پندرہ بیس منٹ میں انٹرویو ختم کر دیں۔ آپ پھنسے تو پھر پھنس کر رہے گئے۔ ان سے کوئی گفتگو تین چار گھنٹے سے کم میں نہیں ہو سکتی۔

فیدل کے ساتھ کچھ اسی طرح کا تجربہ کمیونسٹ رہنما جیوتی باسو کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ وہ 1993 میں جب کیوبا کے دورے پر گئے تھے تو ان کے ساتھ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سیتا رام یچوری بھی تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یچوری نے بتایا: ‘1993 میں جیوتی باسو کو کیوبا آنے کی دعوت ملی تھی۔ سفر کے دوران ہم اور جیوتی بابو کھانا کھانے کے بعد سونے کی تیاری کر رہے تھے تبھی اچانک پیغام آیا کہ فیدل کاسترو ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ جیوتی بابو بولے اس وقت کیا ملا جائے، صبح ملیں گے۔ لیکن پیغام بر نے کہا کہ فیدل اپنے دفتر میں انتظار کر رہے ہیں۔ ہم آدھی رات کے آس پاس ان سے ملنے جا پہنچے۔’

اگلے دن جب جیوتی باسو بھارت واپس جانے کے لئے ہوانا ہوائی اڈے پر پہنچے تو انھیں وی آئی پی لاؤنج میں بٹھایا گیا۔ اچانک لاؤنج کو خالی کرا دیا گیا۔ سمجھ میں نھیں آ رہا تھا کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔

یچوری بتاتے ہیں: ‘اچانک ہم نے دیکھا کہ فیدل ہمیں خیرباد کہنے چلے آرہے ہیں۔ مجھے یاد ہے میرے کندھے پر ایک بیگ لٹکا ہوا تھا۔ فیدل ہمیشہ کی طرح اپنی فوجی يونیفارم میں تھے۔ ان کی وردی سے ایک پستول لٹکی ہوئی تھی۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ میرے بیگ میں کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ اس میں کچھ کتابیں ہیں۔ فیدل بولے تم تو آ گئے لیکن میرے سامنے کوئی بیگ لے کر نہیں آتا۔ پتہ نہیں اس میں کیا رکھا ہے۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ کتنی بار سی آئی اے نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔’

یچوری کہتے ہیں: ‘میں نے کہا آپ کے پاس تو پستول ہے۔ اگر کوئی آپ پر حملہ کرے تو آپ کو اس پر اسے چلا سکتے ہو۔ تب فیدل نے مسکراتے ہوئے کہا یہ راز آج سمجھ لو۔ یہ پستول ہم نے اپنے دشمنوں کو ڈرانے کے لیے رکھی ہے۔ لیکن اس پستول میں گولی کبھی نہیں ہوتی۔’

سابق مرکزی وزیر مارگریٹ الوا کو بھی فیدل کاسترو سے کئی بار ملنے کا موقع ملا تھا۔ الوا یاد کرتی ہیں: ‘ایک بار ضیافت کے بعد انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا وزن کتنا ہے؟ میں نے کہا میں آپ کو کیوں بتاؤں؟ ہمارے یہاں ہندوستان میں کہاوت ہے کہ اس چیز کے بارے میں ہرگز نہ بتایا جائے جسے ساڑھی چھپا سکتی ہے۔ اس سے بہت طرح کے گناہ چھپائے جا سکتے ہیں۔ فیدل زور سے ہنستے تھے اور اگلے ہی لمحے انھوں نے میری کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: ’میں تمہیں اٹھا کر بتا سکتا ہوں کہ تمہارا وزن کتنا ہے۔‘

الوا آگے کہتی ہیں: ‘میں نے کہا يور ایکسلنسی آپ ایسا مت کریئے۔ آپ جتنا سوچتے ہیں اس سے میں کہیں زیادہ بھاری ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا جملہ پورا کر پاتی، انھوں نے مجھے زمین سے ایک فٹ اوپر اٹھا لیا۔ پھر وہ زور سے ہنس کر بولے، اب مجھے معلوم ہے تمہارا وزن كتا ہے۔ میرا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔’

مارگریٹ الوا بتاتی ہیں: ‘ایک دوسری ملاقات میں فیدل نے مجھ سے پوچھا کہ اگر ہسپانوی لوگ کیوبا کی بجائے انڈیا میں اترے ہوتے تو تاریخ کیا ہوتی؟ میں نے جواب دیا، فیدل کاسترو ایک ہندوستانی ہوتے۔ یہ سننا تھا کہ فیدل نے اپنا معروف قہقہہ لگایا، زور سے میز کو تھپ تھپايا اور بولے، ’یہ میرے لیے خوش قسمتی کی بات ہوتی! انڈیا ایک عظیم ملک ہے۔’

)ریحان فضل(


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp