حرف قانون اور زمینی حقائق میں تضادات


پنجاب میں بسنے والے عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے قائل نظر نہیں آتے۔ ہرچند کہ اسٹیبلشمنٹ کے اس انقلاب پہ سر دھننے والے ٹھیک ٹھاک شور مچا رہے ہیں تاہم حرف قانون اور زمینی حقائق کے درمیان جس ٹکراؤ کا خدشہ بہت سے لوگ دیکھ اور سوچ رہے تھے وہ اس عدالتی فیصلے کی صورت میں جلوہ گر ہو چکا ہے۔

حقائق قانون کے پردے میں چھپ چکے ہیں۔ پانامہ فیصلے کے بعد سیاسی منظرنامہ اس سے مختلف دکھائی دے رہا ہے جیسا حکومت گرانے کی خواہش رکھنے والوں نے سوچا تھا۔ ملک کے اندر اور باہر مختلف قانون دانوں نے عدالت کے اس جذبے پر سنجیدہ تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے تحت انہیں ایک منتخب وزیراعظم کو ایسے شارٹ کٹ سے بھیجنا پڑا۔

پانامہ بینچ کے پہلے فیصلے (20 اپریل 2017) میں ایک جج نے لکھا تھا کہ اگر نااہلی کا خطرہ ہوا تو وزیر اعظم کو بلایا جائے گا اور ان سے وضاحت مانگی جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

قانونی طور پر کوئی اہم بات کرنے کی بجائے جج زیادہ تر نواز شریف کے خلاف سیاسی قسم کے عجیب و غریب بیانات دیتے رہے۔ وہ اس بات کی وضاحت بھی نہ دے سکے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے جے آئی ٹی کے ممبر منتخب کرتے وقت دفتری کالز کے لیے عام فون استعمال کرنے کی بجائے واٹس ایپ کا راستہ کیوں اختیار کیا۔

شاید انہیں یہ بتاتے ہوئے بھی شرم آنے لگی ہو کہ اس بندے کا نام کیا تھا جس نے حسین نواز کی جے آئی ٹی پیشی والی تصویر لیک کی تھی۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ شخص فوج سے منسلک ان خفیہ اداروں کا تھا جو جے آئی ٹی کے روح رواں تھے۔ اسی طرح میاں نواز شریف اور ان کا خاندان درحقیقت پانامہ آف شور کمپنیوں کا مقدمہ بھگت رہے تھے لیکن ان کی نااہلی بہرحال اس وجہ سے نہیں ہوئی۔

وہ اس لیے نااہل ہوئے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی دبئی والی فرم سے ایک ایسی تنخواہ وصول نہیں کی تھی جو وہ لے سکتے تھے اور اس بارے میں کچھ ظاہر بھی نہیں کیا۔ یہ ویسے بھی ایک تھوڑی سی رقم بنتی ہے۔

پانامہ کے فیصلے میں خوفناک غلطی ایک واضح سیاسی مقدمے میں عدالتی اختیارات کا وہ بے جا استعمال ہے جو بہت قلیل اور غیراہم قانونی بنیادوں پر غیرشفاف طریقے سے کیا گیا۔

لوگوں کی بہت بڑی تعداد کا نکلنا اور سڑکوں پر وزیر اعظم کا استقبال کرنا اس چیز کو ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب کے قلب میں بسنے والے شہری اس فیصلے سے قائل نظر نہیں آتے۔ ہرچند کہ اسٹیبلشمنٹ کے انقلاب پہ سر دھننے والے ٹھیک ٹھاک شور مچا رہے ہیں۔ یہ نواز شریف کی سیاسی گرفت ہے جو انہیں حکومت میں لائی اور وہ ابھی مضبوط ہے۔ یہی چیز اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ان کی جماعت کے پارلیمانی ممبران ابھی تک ان کے ساتھ کیوں جڑے ہیں اور مائنس نواز فارمولہ چاہنے والوں کی خواہش کیوں پوری نہیں ہو سکی۔

اوپر والی تمام باتوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نواز لیگ کی حکومت میں جمہوریت اپنی بہترین دن دیکھ رہی تھی۔ اسی جگہ پارلیمینٹ سے منہ موڑے رکھنے پر میں انہیں کھری کھری بھی سنا چکا ہوں۔ اس حکومت نے پارلیمینٹ اور دوسرے قانونی اداروں کو فیصلہ سازی سے بے دخل کر کے نظام کمزور کرنے میں اپنا پورا کردار ادا کیا ہے۔ CCI کا اجلاس جو 90 دن کے اندر ہونا ہوتا ہے بعض اوقات 200 دن کے بعد بھی ہوا۔ کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس بھی مستقل بنیادوں پر نہیں ہوا۔

پارلیمینٹ اور زیادہ تر سیاسی جماعتیں آئینی نظام کے حق میں اس وقت ڈھال بن گئیں جب غیر جمہوری قوتیں 2014 میں اس پر حملہ آور ہونا چاہتی تھیں لیکن حکومت اپنے طریقے نہ سدھار سکی۔ ایسا کر لیا جاتا تو اب اس عدالتی شب خون کا کوئی جواز نہ ہوتا۔

فی الحقیقت سول ملڑی تعلقات میں پہلی دراڑ میاں نواز شریف کے ابتدائی دور میں تب پڑی جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ سابق فوجی آمر جنرل مشرف کے خلاف آئین سے بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ ظاہری بات ہے فوج خوش نہیں تھی اور پھر ہم نے اسلام آباد میں عمران خان کا وہ طویل شور و غل والا دھرنا دیکھا، جس کا مقصد بظاہر حکومت کو ختم کر دینا تھا۔ مشرف سپیشل ٹریبیونل کے سامنے پیش ہوئے لیکن عدالت نے “طبی وجوہات” کی بنا پر باہر جانے کی اجازت دے دی، اور دھرنا تحلیل ہو گیا۔

فساد کی دوسری جڑ بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ان میں بہتری لانا اور بھارت کے ساتھ تجارت کرنا 2013 میں نوازشریف کے انتخابی منشور کا حصہ تھا اور لوگوں نے اس کے لیے ووٹ دئیے تھے۔ انہوں نے مستقل کوشش کی لیکن وہ ایسا کر نہ سکے۔ نہ صرف ہئیت مقتدرہ کے اس بارے میں خیالات مختلف ہیں بلکہ وہ سول حکومتوں کی طرف سے جاری کردہ کوئی بھی دوسری پالیسی مسترد کر دیتے ہیں۔ تو بس نواز حکومت کو خمیازہ بھگتنا ہی تھا کیونکہ اسٹیبلیشمینٹ ان کے مخالفین کا ساتھ دے رہی تھی۔

بگڑے ہوئے سول ملٹری تعلقات ماضی قریب میں تب اور زیادہ خراب ہوئے جب مشرق وسطی میں سیاسی اور فوجی بحران زوروں پر تھا۔ سعودی بادشاہت سے قریبی تعلقات رکھنے کے باوجود نواز شریف نے اس بحران میں اپنی فوجیں اتارنے سے انکار کر دیا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ معاملہ پاکستانی پارلیمینٹ میں طے ہو جو پہلے ہی ایک قرارداد پاس کر چکی تھی کہ پاکستانی فوجیں یمن نہیں جائیں گی۔ لیکن جنرل راحیل شریف، سابقہ چیف آف آرمی سٹاف جو یہ معاہدہ کر چکے تھے کہ وہ مسلم ممالک (اصل میں سنی مسلم) کی افواج کی سربراہی کریں گے، ان کے خیالات اس معاملے میں مختلف تھے اور یہ محاورے کے مطابق تابوت میں ٹھونکا جانے والا آخری کیل تھا۔ سعد رفیق جو موجودہ حکومت کے ایک وزیر ہیں انہوں نے متحدہ عرب امارات کے خلاف ایک بیان جاری کیا جس میں کہا کہ وہ حکومت کمزور کرنے کی سازشوں میں ملوث ہے۔

اپنی حالیہ عوامی تحریک میں نواز شریف یہ واضح کر چکے ہیں کہ موجودہ مہم ان کی ذاتی یا حکومت کی خاطر نہیں ہے، یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے ہے۔ وہ اس وقت ایک وسیع تر قومی مکالمہ چاہتے ہیں تاکہ ایسا سماجی معاہدہ تشکیل پا سکے جو ملک کو ٹھیک سمت مہیا کرے۔ ایک طرح سے وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ بگڑتے ہوئے سول ملٹری تعلقات کی وجہ سے ملک چلانا اب جمہوری حکومت کے بس میں نہیں ہوتا۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان پر حکومت کون کرے گا؟ منتخب عوامی نمائندے یا ہئیت مقتدرہ؟ پنجاب کے لوگوں کی تحریک عوامی بالادستی کے لیے اہم ہے کیوں کہ مضافات سے آنے والی آوازوں کے برعکس مملکت کے قلب سے اٹھنے والی آواز کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).