چودہ اگست پر کیا لکھوں؟ کچھ لکھوں گا تو برا مان جائیں گے


چودہ اگست میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا اور ہمیں ہرسال کی طرح امسال بھی جشنِ آزادی کے حوالے سے کالم لکھنا تھا۔ لہذا ہم نے کالم لکھنے سے پہلے سوچا ایک نظر ملکی حالات پر ڈالی جائے پاکستان میں کب کہاں کیا تبدیلی رونما ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ سوچ کر میں نے ٹی وی آن کیا جیسے ہی میں نے ٹی وی آن کیا سامنے ایک نیوز چینل پر بریکنگ نیوز چلتی دکھائی دی کہ بلوچستان میں پشین کے مقام پر ایک زور دار دھماکہ سنائی دیا گیا ہے۔ دل وہیں دہل گیا۔ اب تک کی تفصیلات کے مطابق اِس ہولناک واقعہ میں پندرہ افراد شہید اور اکیس کے قریب زخمی ہوگئے۔ سوچ میں پڑ گیا اب کیا لکھوں۔ آزادی کے جشن پر ستر سال پہلے حاصل کیے گئے وطن کی رویداد لکھوں یا آج کے درد سے بھرے لہو میں ڈوبے وطنِ عزیز کی آہ وبکا لکھوں۔ یہ لکھوں کہ کس طرح قربانیاں دے کر ہمارے بڑوں نے یہ ملکِ خداد حاصل کیا تھا یا لکھوں کہ آج کس طرح اُن کی نسلیں اِس خون میں لت پت سڑکوں پر ٹکڑوں میں بکھرے پڑی ہیں۔ یہ لکھوں کہ جس طبقاتی تقسیم کے خلاف ہمارے بڑے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور آزادی کا نعرہ بلند کیا تھا۔ آج ان کی اولادیں اسی طبقاتی تقسیم کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہیں۔ یا پھر یہ لکھوں کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ملک آج ڈھیروں لسانی و نظریاتی اکائیوں میں گھِر کر تباہی کے داہنے پر کھڑا اپنی حالت پر ماتم کناں ہے۔ یا یہ لکھوں کہ ظاہری فرنگیوں سے حاصل کیا گیا ملک آج باطنی فرنگیوں کے نرغے میں آچکا ہے۔ کیا لکھوں آخر کیا لکھوں۔

کچھ دیر قلم کو روک کر جذبات پر قابو پایا اور خود کو سمجھایا زیادہ جذبات میں مت آؤ راجپوت صاحِب صبر سے کام لو یاد رکھو چودہ اگست پر لکھ رہے ہو بائیس اگست پر نہیں۔ بس اتنا سوچنا تھا کہ پورے جسم میں جھر جھری سی آئی۔ اور پھر خاموشی کے ساتھ جشنِ آزادی پر لکھنا شروع کیا کہ ملک میں ہونے والی ہر طرح کی دہشتگردی کو بھلا کر ملک میں آئے روز پیدا ہونے والی انتشار کی صورتحال کو پس پشت ڈال کر سب اچھا ہے لکھنا ہے۔ ہاں کراچی میں ہلکی پھلکی بوندا باندی کی طرح ہلکی پھلکی تنقید چلے گی۔ بس پھر کیا تھا بِنا رکے لکھتے چلے گئے۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے جشنِ آزادی پر لکھی گئی یہ روایتی تحریر تاکہ آپ بھی روایتی طریقے سے آزادی کا جشن مناکر ملی نغموں پر جھوم کر ایک سچے پاکستانی ہونے کا ثبوت دے سکیں۔

ہر سال چودہ اگست کو ہم جشنِ آزادی نہایت جوش وجذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔ کہیں اپنے گھروں میں سبز ہلالی پرچم لگاتے ہیں تو کہیں گھر سے باہر اپنے اپنے علاقوں میں رنگ برنگی جھنڈیاں لگا کر وطن عزیز سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ کہیں ملی جذبے کے تحت اسکول کالجوں میں جشنِ آزادی کے موضوعات پر پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے تو کہیں اپنے قومی ہیروز کوخراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ ملی نغموں کی مدوھر دھنوں پر لہکتے ہوئے ایک سچے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی چودہ اگست ختم ہوکر پندرہ اگست شروع ہوتی ہے ہم اپنے تمام جذبوں کو نشہ آور گولیاں کھلا کر پورے ایک سال کے لئے سُلادیتے ہیں۔ بالکل اُسی طرح جیسے رمضان المبارک کے مہینے میں نہایت متقی پرہیزگار بن کر اپنے اوپر جنت واجب کروالیتے ہیں۔ اور ماہِ رمضان ختم ہوتے ہی چاند رات کو رقص وسرور کی محفلیں لگا کر اُسی رات اپنے جذبہِ ایمانی کو سال بھر کے لئے ایسا سلاتے ہیں کہ نماز ِعیدین پر بھی آنکھ نہیں کھلتی۔

ستر سالوں سے ہم یہی کام کرتے آرہے ہیں۔ اگر مزید ستر سال ہم اِسی طرح صرف ایک دن کے لئے چودہ اگست اور جشنِ آزادی مناتے رہے اور پورے سال خواب آور گولیاں کھاکر سوتے رہے خود کو نہ جگا پائے اپنا طریق نہ بدلا تو خاکمِ بدہن ایک وقت ایسا سر پر آن پڑیگا کہ ایک دن کی بھی چودہ اگست منانے سے رہے جائیں گے۔ اللہ نہ کرے ایسا دن آئے اللہ رب العزت اس وطن عزیز کو ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کے طفیل ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ آمین

لیکن میں پوچھتا ہوں آخر ہم کب تک اِس ملک کو بزرگوں کے طفیل قائم و دائم رکھ سکیں گے؟ ہمیں اپنی احساسِ ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہئیے۔ اِس ملک کی حفاظت سلامتی اور تعمیرو ترقی میں کردار ادا کرنا آپ کا میرا سب کا فرض ہے۔

خدارا اُٹھیں اور نیند سے جاگیں سیاست سے لے کر ریاست تک ہر اُس شعبے میں اپنا کر دار ادا کریں جس سے اِس ملک کی تعمیرو ترقی اور سلامتی وابستہ ہے۔ آئیں اور اِس جشنِ آزادی پر یہ عہد کریں کہ اب کی بار ہم اپنے حب الوطنی کے اِس جذبے کو سونے نہیں دیں گے۔ ملک کی بقا، سلامتی اور تحفط کے ساتھ ساتھ اِس کی تعمیر و ترقی کےلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ ملک کو سازشی عناصر سے پاک کر کے معاشی استحکام کی راہ ہموار کریں گے۔ تاکہ غریب عوام کو غربت بے روزگاری اور ہر طرح کی معاشی تنگدستی سے چھٹکارا دلایا جا سکے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ملک سے شرپسند عناصر کا قلع قمع کریں گے۔ دہشت گردی سے لے کر ٹارگیٹ کلنگ جیسے جرائم کا خاتمہ کرنے میں پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔ اپنے ووٹوں کا صحیح استعمال کریں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک میں حکمرانی کا حق صرف اُس کو دینگے جو پاکستان کی ٖغریب مظلوم عوام کا درد رکھتے ہوئے ریاست میں موجود تمام طبقات کو برابری کی سطح پر اُن کے جائز حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔ جو ملک کو ترقی کی جانب گامزن رکھتے ہوئے پاکستان کو حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست اور عوامی جمہوریہ پاکستان بنائے گا۔ آخر میں میری جانب سے تمام قارئین کو جشنِ آزادی مبارک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).