آزادی ۔ مگر کس کی؟


14 اگست کی دوپہر کو جب میری طرح آپ بھی سو کر اٹھیں گے تو حسب روایت اسلام آباد، لاہور، راوالپنڈی، پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں اکیس اکیس توپوں کی سلامی دی جا چکی ہو گی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور تصور پاکستان کے خالق علامہ اقبال کے مزارات پر گارڈ کی تبدیلی ہو چکی ہو گی۔ دن بھر ٹیلی ویژن کے چینل آپ کو آزادی کی مبارکباد دینے والے پیغامات کے ساتھ موبائل فون کی کمپنیوں، موبائل فون، شیمپو، خوردنی تیل اور سرف بیچنے والوں کے اشتہارات دکھائیں گے۔ شام کو ٹیلی ویژن کی سکرین پر شلوار کرتے میں ملبوس اینکر اپنے من پسند تجزیہ کاروں اور دانشوروں کے ساتھ بیٹھ کر ملک کے ہر قسم کی دولت سے مالامال ہونے کی خبر اور آزادی کی نعمتوں کے تشکر کا درس بھی دیں گے اور انتباہ بھی کریں گے کہ ملک ایک سنگین دور سے گزر رہا ہے جس کی ذمہ دارعوام کی ناشکری اور سیاست دانوں کی بد اعمالی ہے۔ ان چینلز پر بیٹھے نیکو کار اور ناصح یہ بھی یقین دلائیں گے کہ جیسے ہی عوام نیک اور ان کے لیڈر صالح ہوں گے ملک کی تقدیر راتوں رات بدل جائیگی اور کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔

آزادی ایک سیاسی اصطلاح ہے جس کا مطلب کسی ملک کے اندر میسر انفرادی، گروہی اور معاشرتی آزادیوں سے ہے۔ ہم جنوبی ایشیا کے جس خطے میں رہتے ہیں یہاں جمہوریت یا عام لوگوں کی حق حکمرانی کا تصور ہی مفقود تھا اور نہ کبھی عوام کے حکمرانی میں شمولیت کےاس حق کے لئے شعوری کوشش کی گئی بلکہ تبدیلی حکومت کا مطلب یہاں ہمیشہ اقتدار پر قبضہ ہو تا تھا جو ایک سے دوسرے طاقتور گروہ سے دوسرے کو ہوتا ہے۔ جو جتنا طاقتور ہے وہ اتنا بڑا حاکم ہے کمزور ہمیشہ مغلوب ہی رہا اس لئے آج بھی عام آدمی خود کو حکمرانی سے دور سمجھتا ہے۔ ایک عام آدمی کے لئے آزادی کا مطلب صرف اس کے زندہ رہنے کے حق سے زیادہ نہیں ۔

 اپنے اس حق کو مانگنے پر کہ اس کے ووٹ سے حکومت بنے یا چلی جائے عام لوگوں کو دار پر وارا گیا جبکہ اس کے ووٹ سے بھی زیادہ تر اشرافیہ کی حکمرانی رہی۔ ملک میں آج بھی اشرافیہ کی آپس میں چپقلش ہے جس میں جاگیرداروں، فوج اور سرمایہ داروں کے درمیان کبھی کبھار طرز حکمرانی اور گروہی مفادات کی جنگ ہوتی ہے تو کبھی ان کے طفیلی ملاّ اپنے وظیفے میں اضافے کے لئے مذہب کے نام پر قتل و غارت گری پر اتر آتے ہیں۔ ایک حکومت کے آنے اور جانے سے کبھی ریاستی پالیسیوں میں فرق نہیں آتا۔ آج ایک کو غدار بنایا جاتا ہے تو کل دوسرے کو مگر وہی غدار محب وطن بھی بن جاتے ہیں اور حاکم بھی۔ آج بھی ایک عام آدمی یہ سوال پوچھتا ہے کہ حکمرانوں کی تبدیلی میں اس کے ووٹ کی کیا حیثیت ہے؟

مذہب اور عقیدے کی آزادی میں برابری گزشتہ ستر برس میں کم سے کم ہوتی گئی۔ چند مذہبی گروہوں کی ریاستی سر پرستی نے دوسرے مذہبی عقائد رکھنے والے عام لوگوں کے زندہ رہنے کے حق کو بھی چھین لیا ہے۔ عام لوگوں کا ہزاروں میں قتل عام کے بعد بھی کچھ لوگ فخر سے آزادانہ گھومتے نظر آتے ہیں اور عام لوگ محض کسی مختلف مذہبی عقیدے سے وابستگی کی بنا ءپر اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنی شناخت سے دست بردار ہوکر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اس مذہبی جبر کی وجہ سے کچھ مذہبی فرقے اور گروہ معدوم ہوچکے ہیں اور کچھ معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ملک کے شہروں میں دیواریں اقلیتوں کے واجب القتل ہونے اور ان کے قتل کے جائز ہونے کے نفرت انگیز نعروں سے مزیّن ہیں مگر ریاستی ادارے اپنے شہریوں کو تحفط دینے کے بجائے اقلیتوں کی ہی وفاداری کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہاں اقلیتوں کی مذہبی عقیدے کی آزادای سلب ہے مگر ان کو خطرے سے دوچار کرنے والے مذہبی گروہوں کو قتل عام کی چھوٹ ہے جس سے آج بھی عام آدمی یہ سوال پوچھتا ہے کہ آزادی کس کی ہے، ایک عام انسان کو اپنی مرضی کا عقیدہ اپنانے کی یا کچھ لوگوں کو زبردستی اپنا عقیدہ منوانے کی؟

اپنے آئین اور قانون میں دئے گئے حق کو مانگنے پر لوگوں کو کبھی گولیاں ماری جاتی ہیں تو کبھی غائب کر دیا جاتا ہے۔ یہاں کبھی ایک آدمی کو اظہار رائے کی وہ آزادی نہیں ملی جس کا وعدہ ملک کے دستور اور آئین نے کیا ہے مگر کچھ لوگوں کو اپنی بات کہنے اور منوانے کا وہ حق بھی حاصل ہے جس پر قانون نے پابندی لگا رکھی ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی بات سے اختلاف کرنے یا اپنی بات مختلف انداز میں کہنے پر کچھ لوگوں کو مقدمات کا سامنا ہوتا ہے تو کئی لوگ جان سے جاتے ہیں مگر سوشل میڈیا کے ان ہی صفحات پر قتل عام کا پرچار کرنے اور حکومتی پالیسیوں کو کھلم کھلا چیلنج کرنے والوں پر کوئی پابندی نہیں۔ ہزاروں لوگوں کے قتل عام اور فوجیوں کے قتل کے بعد ان کےسروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کی ترجمانی کرنے والے ایک پریس کانفرنس کے بعد سرکاری مہمان بن جاتے ہیں جبکہ کبھی غلطی سے کچھ کہنے والے یا کئی فاترالعقل اپنی کسی غلطی سے کہی بات پر ریاستی یا عوامی غیظ و غضب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آج بھی عام آدمی یہ سوال پوچھتا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی سب کے لئے یکساں کیوں نہیں کچھ لوگوں کو اپنے جان و مال کے تحفظ کےلئے داد و فریاد کی بھی اجازت نہیں جبکہ کچھ لوگوں کو دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی کھلی آزادی کیوں ہے؟

اپنے پیٹ کی جہنم بھرنے کے لئے کسی تندور سے روٹی چرانے والے کو لوگ پکڑ کر مار دیتے ہیں۔ ملک کے تھانے اور جیلیں عام لوگوں سے بھری ہیں جو چند روپے چرانے یا معمولی چوری کے الزامات میں گرفتار ہیں جبکہ زندگی بھر ملکی وسائل کو لوٹنے والے لوگ صاحب ثروت کہلاتے ہیں۔ آج بھی ملک میں بڑے بڑے منصوبے صرف کاغذوں میں ہیں اور منصوبوں کے نام پر وسائل لوٹ کر کھانے والے اس طرح کے دوسرے منصوبے بنانے میں مصروف ہیں تا کہ وہ مزید لوٹ سکیں ۔ ملک کا ایک معروف تاجر اسلامی کہلانے والے ملک کے ٹیلی ویژن پر آکر کہتا ہے کہ وہ رشوت دیتا ہے اور اس کا کاروبار رشوت سے ہی چلتا ہے مگر ملک کی عدالتیں اس بات کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ صادق اور امین کون ہے۔  ایک عام آدمی آج بھی یہ سوال پوچھتا ہے کہ کیا قانون صرف ایک غریب آدمی کے لئے ہے جو اپنے پیٹ بھرنے کے لئے روٹی چراتا ہے اور آزادی اشرافیہ کو ملکی وسائل لوٹنے کی ہے؟

آزادی کا جشن منانے اور ملی نغمے سنانے سے آزادی نہیں ملتی نہ ایف ۔ 16 جہاز اڑا کر لوگوں کو متوجہ کرنے سے ملتی ہے۔ نہ قائد اعظم اوراقبال نے ایک آزاد ملک کا خواب اپنے قبروں پر گارڈ کی تبدیلی کے لئے دیکھا تھا۔ ایک آزاد اور الگ ملک بنانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایک مذہبی عقیدہ رکھنے والے چھوٹے گروہ کو ایک بڑے مذہبی گروہ کے ہاتھوں اپنی مذہبی اور ثقافتی آزادی کے صلب ہونے کا خطرہ تھا۔ اگر وہی مذہبی گروہ ایک الگ ملک میں اکثریتی گروہ بن کر اس ملک میں بسنے والے چھوٹے مذہبی، لسانی اور ثقافتی گروہوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جس کے خلاف آزادی حاصل کی گئی تھی تو یہ آزادی سب کے لئے آزادی نہیں بلکہ کچھ کے لئے غلامی ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan