70  برس کے جھوٹ اور سچ


پاکستان کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر جی چاہا کہ ایک کالم حکمرانوں کی زبان میں تحریر کیا جائے اور اس میں وہ تمام وعدے اوردعوے یکجا کر دیئے جائیں جو قیام پاکستان کے بعد سے تسلسل کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔ آج سے 20 برس قبل پاکستان کی گولڈن جوبلی بہت دھوم دھام کے ساتھ منائی گئی تھی۔ اس موقع پر ہم نے شاکر حسین شاکر کے ہمراہ پاکستان کی تاریخ پر ایک کتاب ترتیب دی اوراس میں 14 اگست 1947ء سے 14 اگست 1997ء تک کے تمام واقعات تاریخ وار جمع کردیئے۔ اس کام کے دوران جب ہم نے مختلف لائبریریوں میں ماضی کے اخبارات کو کنگھالا تو ہمیں محسوس ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد تسلسل کے ساتھ ہر زمانے میں حکمرانوں، سیاستدانوں اور مختلف اداروں کی جانب سے ایک ہی جیسے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں اور ایک ہی جیسا جھوٹ بولا جا رہا ہے۔

یہ جھوٹ حکمرانوں نے بھی بولا اپوزیشن نے بھی۔  مختلف ادارے اورمحکمے بھی اس جھوٹ میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔  کچھ جملے ایسے ہیں جو پہلے روز سے تسلسل کے ساتھ ہمیں سننے کو مل رہے ہیں کچھ وعدے ایسے ہیں جو ہر دور میں کئے گئے مگر وفا نہ ہوسکے، اور کچھ الزامات ایسے ہیں جو مسلسل گزشتہ 70 برس سے ایک دوسرے پرعائد کیے جا رہے ہیں۔  اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی 70 برس سے ایک ہی زبان بولتے دکھائی رہے ہیں اور سنائی دے رہے ہیں۔ ایک ہی آواز ہے جسے سن سن کر ہم اپنی سماعت پر یقین کھو بیٹھے اور ایک ہی منظر ہے جسے دیکھ دیکھ کر ہمارا اپنی بصارت سے اعتماد ختم ہو گیا۔ بداعتمادی اور بے یقینی کا عالم یہ ہے کہ اب جب بھی عوام سے کوئی وعدہ کیا جاتا ہے تو انہیں اس پراعتبار نہیں آتا۔

جب بھی ہمیں کوئی بتاتا ہے کہ انتخابات شفاف اور غیرجانبدارانہ ہوں گے توہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تفتیشی اداروں نے قاتلوں کا سراغ لگا لیا توعوام کو ازخود معلوم ہو جاتا ہے کہ اس قتل کا اب کبھی سراغ نہیں مل سکے گا اور اس واردات کو بھی اس طویل فہرست کا حصہ بنا لیا جائے گا جس میں پہلے بھی بہت سے اندھے قتل درج کیے جا چکے ہیں۔ بتانا صرف یہ ہے کہ حکمران اور ادارے اتنا جھوٹ بول چکے ہیں کہ عوام اب ان کے جھوٹ کے ذریعے سچ تک پہنچنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ پر کام کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں ایک ہی بات تسلسل کے ساتھ دہرائی جاتی رہی اور ایک ہی الزام مسلسل لگایا جاتا رہا۔  فرق بس اتنا ہے کہ ہر دور میں کردار تبدیل ہوتے رہے اورعوام مختلف کرداروں کی زبانی ایک ہی بات بار بار سنتے رہے۔ ہم 70 برسوں سے ایک ہی زمانے میں جی رہے ہیں اوراسے بے یقینی کا زمانہ سمجھتے ہیں۔  ہرنئے آنے والے نے ہر زمانے میں جانے والے پر ایک ہی جیسے الزامات عائد کئے۔  ہر سانحے کے بعد مجرموں کا سراغ لگانے کی بات کی گئی اور ہر مرتبہ ایک دوسرے کو غدارکہا گیا۔ محرم الحرام کی آمد ہو یا استقبال رمضان ، بجٹ ہو یا ٹیکسوں کی داستان، احتساب ہو یا کرپشن اور لوٹ مار کی کہانی۔  ہمیں گزشتہ 70 برس سے سب کچھ ایک ہی جیسا دکھایا اور سنایا جا رہا ہے۔

اس کالم میں ہم نے گزشتہ 70 برس کے دوران حکمرانوں کی جانب سے کی گئی مشق سخن کو یکجا کیا ہے اوراس مشق سخن کے مطالعے کے بعد آپ کو یہ بھی ادراک ہو جائے گا کہ عوام چکی کی مشقت کیسے کر رہے ہیں۔ ہم نے صرف یہ دعوے اور وعدے یکجا کر دیئے ہیں، اب آپ ان کا مطالعہ کیجئے اور جو کچھ ان وعدوں اوردعوﺅں میں کہا گیا ہے سمجھ لیجئے کہ صورت حال اس کے برعکس ہی رہی۔  آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ 70 برس بعد بھی ہمارے دشمن تبدیل نہیں ہوئے اور ہمارے مسائل آج بھی وہی ہیں جو پہلے روز تھے۔ لیجئے گزشتہ 70برس کی ایک جھلک حکمرانوں کی زبانی دیکھ لیجئے۔  ان برسوں کے دوران ہمیں یہ سب کچھ ہی بتایا گیا۔۔۔

” کشمیرپاکستان کی شہ رگ ہے۔  کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ کشمیریوں کے حق خودارادیت کےلئے عالمی سطح پر آواز بلند کرتے رہیں گے۔ عالمی ادارے کشمیریوں کو ان کا جائزحق دلائیں۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی۔ ہمارا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ پاک سرزمین پرکوئی میلی نظرنہیں ڈال سکتا۔ رمضان المبارک کے دوران ناجائزمنافع خوری کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قیمتوں پر کنٹرول کے لئے کمیٹیاں قائم کردی گئیں۔ محرم الحرام میں بھائی چارے اوررواداری کوفروغ دیاجائے گا۔ شرپسندوں کو امن خراب نہیں کرنے دیں گے۔ فرقہ واریت پھیلانے والے علماء اور ذاکروں کو ضلع بدر کر دیا گیا ہے۔  دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ دہشت گردوں کی کمرتوڑ دی ہے۔ عوام کی جان ومال کاتحفط حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کسی کو بے گناہ افراد کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ مجرموں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔ کوئی قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا۔ عدلیہ آزاد ہے۔ لوگوں کو ان کی دہلیز پرانصاف فراہم کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ عوام کے حق پر کسی کو ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے۔ سابق حکمرانوں نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ ہمیں خزانہ خالی ملا ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ قوموں کی برادری میں پاکستان کو اب عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لٹیروں سے ایک ایک پائی کاحساب لیں گے۔ کرپشن سے پاک معاشرہ تشکیل دیاجائے گا۔ ہمارادامن صاف ہے۔ قومی خزانے کو عوام کی امانت سمجھتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا دیا ہے۔ جتنی ترقی ہمارے دورمیں ہوئی ماضی میں اس کی نظیرنہیں ملتی۔ ملک سے اندھیروں کاخاتمہ کر دیا ہے۔ عوام کو روزگار کے نئے مواقع فراہم کردیئے گئے ہیں۔ پاکستان کو قائداعظم اورعلامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنائیں گے۔ ہمارے مخالفین ہنود و یہود کے ایجنٹ ہیں۔ غیرملکی آقاﺅں کے اشاروں پر کام کرنے والوں کو عوام مسترد کر دیں گے۔ ہم آئین اورقانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ احتساب بلا تفریق ہو گا۔

عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جا رہے ہیں۔ عوام کی خدمت ہمارا نصب العین ہے۔ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بناناچاہتے ہیں۔ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ دہشت گردی میں غیرملکی ہاتھ ہو سکتا ہے۔  کسی کو اپنے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاکستان کی آزادی اورخودمختاری پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ کسی عالمی طاقت کے آلہ کار نہیں بنیں گے۔ ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ خواتین کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دلایا جائے گا۔ عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین ختم کر دیئے گئے ہیں۔ اقلیتوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ بھارت اقلیتوں پربہت ظلم ڈھا رہا ہے۔ بھارت کا سیکولرچہرہ بے نقاب ہو گیا۔ تحقیقاتی کمیشن قائم کر دیا گیا ہے۔ سازش کے اصل کرداروں کا سراغ مل گیا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر لائی جائے گی۔ وقت آنے پرعوام کو حقائق سے آگاہ کردیں گے۔ آمریت کا راستہ ہمیشہ کے لئے روک دیا گیا ہے۔ تمام فیصلے میرٹ پر کئے جاتے ہیں۔ کوئی سفارش یا دباﺅ خاطرمیں نہیں لائیں گے۔ ہمیں دھمکیوں سے کوئی مرعوب نہیں کرسکتا۔ عوام توڑ پھوڑکی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ اپوزیشن پاکستان کونقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ کسی کے اشارے پرجمہوریت کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو محفوظ پاکستان دینا چاہتے ہیں۔ ہم عوام میں سے ہیں اورغریبوں کے دکھوں کو جانتے ہیں۔ عوام کو بااختیار بنا دیا گیا ہے۔ عوامی سیلاب کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ ہم صرف عوام کی طاقت پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ منتخب نمائندے عوام کے خادم ہیں۔ پہلی بار پرامن انتقال اقتدارعمل میں آیا۔ جمہوریت مستحکم ہوگئی ہے۔ کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔ عوام دوست بجٹ لارہے ہیں۔ ہم نے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ ٹیکسوں کا دائرہ وسیع کر رہے ہیں۔ فرائض میں غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ ملاوٹ مافیا کے خلاف کاروائی بلاتفریق ہوگی۔ سرکاری اراضی واگزار کرائی جائے گی۔ تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن ہوگا۔ ریلوے خسارے میں ہے۔ منافع بخش صنعتیں فروخت نہیں کی جائیں گی۔ حکمران دھاندلی کے نتیجے میں برسراقتدارآئے ہیں۔ اپوزیشن عوامی مینڈیٹ کی توہین کررہی ہے۔ الحمد اللہ جہیز کی لعنت ختم ہوگئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).