نواز شریف ”آئین“ کے علاوہ خود کو بھی تبدیل کریں


تمام جمہوری ممالک میں عوام کے حقوق، اداروں کے اختیارات، فرائض اور حدود کے تعین اور ملک کے انتظام و انصرام کو چلانے کے لئے آئین بنایا جاتا ہے۔ مدینہ میں سرکار دوعالم ﷺ کی تشریف آوری کے موقع پر چھوٹے پیمانے پر ہی سہی ایک ابتدائی ریاست کا خاکہ ابھرا۔ یثرب میں طاقت کا قانون لاگو تھا، قبائل کی لڑائیوں اورلاقانونیت دور دورہ تھا۔ اس موقع پر آپ نے 730 الفاظ پر مشتمل ایک مختصر دستور تشکیل دیا جس میں مدینہ میں آباد یہودیوں اور مسلمانوں کے مذاہب کے بنیادی حقوق، جزا اور سزا کا تعین اورمدینہ کے دفاع سے متعلق شقیں موجود تھیں۔ مدینہ کی ابتدائی آبادی جس نے آگے چل کر دنیا کی عظیم الشان ریاست کے دارالحکومت کی شکل اختیار کی، اس ریاست کی بنیاد انہی قوانین پر رکھی گئی جسے میثاق مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دستور کو دنیا کا پہلا تحریری آئین کہا جاتا ہے۔ اس کے کوئی 600 سال بعد میگنا کارٹا کی شکل میں دوسرا بنیادی آئین تحریر کیا گیا ۔ امریکی اوربرطانوی قوانین کی بنیاد یہی میگنا کارٹا ٹھہرتا ہے۔

برطانیہ میں دوسرے ممالک کی طرح باقاعدہ تدوین شدہ آئین موجود نہیں۔ لیکن میگناکارٹا، پارلیمنٹ ایکٹ اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کے مطابق ملک کا انتظام و انصرام چلایا جاتا ہے۔ اسی طرح نیوزی لینڈ اور اسرائیل کا بھی باقاعدہ آئین موجود نہیں۔ ان ممالک کے آئین کو غیر تدوین شدہ آئین (Uncodified Constitution) کہا جاتا ہے۔

بھارتی آئین کو دنیا کا سب سے بڑا جبکہ امریکی آئین کو دنیا کا سب سے مختصر آئین کہا جاتا ہے۔

آئین میں تبدیلی کوئی انہونی چیز نہیں نہ ہی ملک کاآئین کوئی آسمانی صحیفہ ہوتا ہے کہ اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین ہوتے ہیں جن میں وقت کے ساتھ مناسب تبدیلی کی گنجائش رہتی ہے۔ امریکی آئین میں اب تک 27 ترامیم، جرمن آئین میں 50 ترامیم، ہندوستانی آئین میں 101 تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ اب تک آئین پاکستان میں 22 ترامیم کی جا چکی ہیں۔ پہلی ترمیم 1974ء میں ہوئی جبکہ 2016ء میں آئین پاکستان میں 22ویں ترمیم کی گئی۔ خصوصی طور پر جب ترمیم نمبر2 جو 1974ءمیں ہوئی جس کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، اس کی تبدیلی یا ختم کرنے کی بات ہوتو آئین بلکہ مملکت کا وجود ہی خطرے میں پڑ جانے والا شور اٹھایا جاتا ہے

جی ٹی روڈ کے ذریعے کئے گئے سفر لاہور کے اختتام پر سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے آئین میں تبدیلی کی بات کی ہے اور ساتھ ہی 14 اگست کو اپنا نیا لائحہ عمل دینے کی بھی بات کی ہے۔ آج 14 اگست بھی ہے دیکھتے ہیں میاں صاحب کس طرح کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ کیا یہ تبدیلی  63 ، 62 تک ہی محدود رہے گی یا میاں صاحب اس میں کوئی اور بھی تبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔

 دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا، پاکستان پیپلزپارٹی نے میاں صاحب کو اسی آرٹیکل 63 ، 62  کو ختم کرنے کی تجویز پہلے دی تھی۔ لیکن میاں صاحب اس وقت تیسری دفعہ اقتدار کے نشے میں چُور تھے قانون سازی کی طرف کہاں آتے۔ انہوں نے تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پاﺅں دھرنا بھی کسرِ شان سمجھے رکھا۔

 جب بھی میاں صاحب اس طرح کے بیانات دیتے، ”میں نے سڑکیں بنائیں، نوازشریف بجلی لے کر آیا، میں نے پٹرول سستا کردیا“ تو یقین کریں ماتم کو دل چاہتا ہے۔ حکمرانوں کا کام سڑکیں، پُل، انڈرپاسز بنانا نہیں بلکہ قانون سازی اورپالیسی سازی کرنا ہوتا ہے۔ خوشحالی، تعمیرات، قوم کی تربیت، سیاحت کا فروغ، امن وامان، کھیلوں کی ترویج، بزنس کے مواقع، غیرملکی سرمایہ کاری وغیرہ ان پالیسیوں کے نتائج ہوتے ہیں۔

میاں صاحب آپ آج بھی ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ لاکھوں، کروڑوں عوام آپ کو ووٹ دیتے ہیں۔ آپ قوم کے بڑے ہونے کی وجہ سے اب بھی مثبت رول ادا کر سکتے اور تاریخ میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں۔ آپ کے پاس مطلوبہ اکثریت بھی ہے۔ آپ ان تمام غلطیوں سے آگاہ بھی ہوں گے جو پچھلی تین دہائیوں سے آپ سے سرزد ہوئیں، آئین میں مثبت تبدیلی ضرور کرائیے لیکن یاد رکھیں یہ تبدیلی آپ کی ذات اور آپ کے خاندان کے لئے نہ ہو بلکہ پاکستان اور پاکستان کی آنے والی نسلوں کے لئے ہو۔ اس سب کے لئے آپ پہلے اپنے اندر تبدیلی لائیے، اپنی غلطیوں کا قوم کے سامنے اعتراف کیجئے، سچ خواہ کتنا کڑوا ہی کیوں نہ ہو عوام کے سامنے لائیے پھر آئین میں تبدیلی کی بات کیجئے۔ یقین کیجئے یہ تبدیلی دیرپا بھی ہوگی اور مثبت بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).