ستر برس کا بوڑھا ہوتا ہوا پاکستان


ستر برس کا بوڑھا ہوتا ہوا پاکستان
جیسے ہابیل اور قابیل کا باپ!
کس کی طرفداری کرے بیچارہ!
ایک اولاد قاتل اور ایک اولاد مقتول!
اب تو گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہو چکا ہے.
چال میں ہلکی سی لڑکھڑاہٹ اتر آئی ہے.
چلتا ہے تو سانس پھول سی جاتی ہے.

ای سی جی تو اکثر ہوتی رہتی ہے. اینجیو گرافی میں بھی تھوڑی سی بلاکیج دکھائی دے گئی ہے مگر ابھی فیصلہ باقی ہے کہ اس عمر میں اینجیو پلاسٹی کی جائے یا دل کا بائے پاس آپریشن کیا جائے!

زندگی کے مشکل نشیب و فراز اور اپنوں کی بے وفائیوں اور اپنوں کی ہی وجہ سے زندگی کے کئی غلط فیصلوں اور پھر ان فیصلوں کے نتائج اکیلے بھگتنے کی وجہ سے وقت سے پہلے ہی شگر اور بلڈ پریشر نے بھی گھیر کر بوڑھا کر دیا ہے اسے.

اکثر چلتے چلتے دلِ بیمار پر ہاتھ رکھ دیا کرتا ہے.
مگر فی الحال دوائیوں پر گزارہ ہے. لاتعداد گولیاں، جو ہتھیلی پر رکھے گنتے گنتے سوچتا رہتا ہے کہ کب تک ان کی کڑواہٹ نگلتا رہوں گا!

یوں تو لالچی اور نالائق اولاد کی بھیڑ میں گھرا ہوا رہتا ہے مگر دراصل ہر بوڑھے کی طرح وہ بھی تنہا ہے.
اولاد کی نگاہ اس پر نہیں، اس کے بکسے پر ہے کہ کب بوڑھا اِدھر اُدھر ہو تو ہم مال لے اُڑیں. مال اڑانے کے چکر میں اولاد ایک دوسرے کی بھی دشمنِ جاں بنی ہوئی ہے.

گو بوڑھے کے تکیے تلےجتنا بھی جینے کا سامان رکھا تھا، لالچی اولاد نے اس کی نگاہ بچا کر کھسکا بھی لیا اور ہڑپ بھی کر گئے. بوڑھا پاکستان اب بھی سمجھتا ہے کہ تکیے تلے کچھ جینے کا سامان ہے. نالائق اولاد کے چھوٹے بچوں کو بازو پھیلائے بلاتا رہتا ہے کہ آؤ میرے پاس. آؤ کہانیاں سنو. بادشاہوں کی کہانیاں. سپہ سالاروں اور لشکروں کی کہانیاں. خلافت و ملوکیت کی کہانیاں. ظلم و جبر کی کہانیاں. چکی کے دوپاٹ میں پستی رعایا کی کہانیاں. وزیروں، مشیروں خوشامدیوں اور سازشیوں کی کہانیاں.

مگر بوڑھے پاکستان کی لالچی اولاد کے بچوں کو بھی ان گھسی پٹی کہانیوں سے کوئی دلچسپی نہیں. وہ اپنے اپنے سمارٹ فون سے یادگار کے طور پر بوڑھے کے ساتھ سیلفی لیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں.

بوڑھا تنہا بیٹھا رہ جاتا ہے. آوازیں دیتا رہتا ہے کہ کوئی ہے؟ کوئی ہے؟ کوئی ہے؟
ہوتے تو سب ہی ہیں مگر لگتا ایسا ہے کہ کہیں بھی کوئی نہیں ہے.

بوڑھے پاکستان کے جس بکسے میں سب کو لگتا ہے کہ بڑا مال دبا رکھا ہے اور سب کی نظریں اس بکسے کے زنگ آلود تالے کو ٹٹولتی رہتی ہیں کہ اسے کیسے کھولا جائے اور مال اُڑایا جائے، اس بکسے میں دراصل بوڑھے نے چند حسینوں کے خطوط اور چند تصویرِ بتاں چھپا رکھی ہیں.
یہی اس کا کُل مال و متاع ہے.

خطوط ان حسینوں کے ہیں جنہوں نے وہ تمام سچ لکھا جو سچ بوڑھے کی مکار اولاد نے اپنی نسلوں سے چھپانے کے لیے خرد برد کر دیا. تصویریں ان تمام سچائیوں کا ثبوت ہیں.

بوڑھا پاکستان اسی کو مال و متاع سمجھتا ہے اور اس کی ناخلف اولاد روپے کو مال سمجھتی ہے.
بوڑھا پاکستان اس دن کا انتظار کر رہا ہے جب اس نے اس بکسے کا تالا کھولنا ہے اور سچائیاں بمع ثبوت اپنی حرام خور اولاد کے منہ پر مار دے مارنی ہیں اور انہیں شرم دلانی ہے کہ دیکھو بے شرمو! یہ ہے سچائی.

مگر اس کی اولاد کو بھی انتظار ہے اس دن کا کہ جب بکسے کا تالا کھلے گا اور اس میں سے روپوں کا خزانہ اُبل پڑے گا اور وہ سب اس پر ٹوٹ پڑیں گے اور جیبیں بھرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جائیں گے.

آج بوڑھے ہوتے پاکستان کا جنم دن ہے. زمانہ بدل گیا ہے. بچے اب سبز کپڑے پہنتے ہیں اور سیلفیاں بناتے ہیں. بچوں نے اسے بھی سبز کپڑے پہننے کو کہا تو وہ اداسی سے ہنس دیا. کہنے لگا کہ میں سفید کپڑوں میں ہی ٹھیک ہوں بیٹا. سفید رنگ امن کا رنگ ہے نا! اور سفید رنگ ان لوگوں کا بھی رنگ ہے جو اقلیت ہیں. اقلیت کو امن اور امان کی ضمانت دینا اور وہ ضمانت نباہنا مسلمان کی طاقت کی پرکھ ہے.
اس نے کہا تو سہی پر پٹاخوں اور ہوائی فائرنگ، توپوں کی دھمک اور فضائی جہازوں کی گھن گرج میں پتہ نہیں کسی نے سنا بھی یا نہیں!

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah