رات کی رات پڑی ہے


\"ramish\"تصنیف تم نے دوسرے خط میں وہ سب لکھ دیا جو میرے غصے کی وجہ ہے، وہ سب جو یہاں ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ جانے کیوں کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم انتہا پسندی سے ہٹ رہے ہیں مجھے ایسا کیوں نہیں لگتا؟ مجھے تو یہ سب انتہا پسندی اور منافقت کی کوئی نئی قسم لگتی ہے جو پروان چڑھ رہی ہے۔ شرمین کے ایوارڈ کی خوشی ہو یا ملالہ کے نوبل انعام کی، یہاں سب ایجنٹ ہی ہیں چاہے وہ ایوارڈ وصول کرنے والے ہوں یا ان کی پذیرائی کرنے والے۔ یہ افسوس ناک بات ہے کہ جب تک کوئی خود نا بھگتے تب تک وہ کسی اور کی تکلیف کا احساس نہیں کر سکتا۔ ملالہ ہو یا شرمین، بنیادی غلطی ایک ہی ہے کہ ظلم ہو بھی رہا ہو تو اس پہ صرف آہ و فغاں کی اجازت ہے، اس پہ صرف رونا ہی بنتا ہے۔ یہ ظلم اور ظالم کی نشاندہی کرنا، آواز اٹھانا، حق کے لئے لڑنا اس سب سے ملک کا نام خراب ہوتا ہے۔ یہاں سوچ یہ ہے کہ ملک کا نام ظالم نہیں، مظلوم کی وجہ سے خراب ہوتا ہے۔

ایک تازہ واقعہ سناتی ہوں کہ مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں۔ ایک مریض بچے کی والدہ آئیں اور کہنے لگیں کہ یہ آپ کے موبائل میں ممتاز صاحب کی تصویر ہو تو مجھے دکھا دیں۔ سامنے بیٹھی میری سہیلی نے نظریں اٹھائیں تو انہیں گمان ہوا ہم کم علم پہچان نہیں سکے ان کے صاحب کو۔ تو کہتی ہیں کہ وہی جنہیں شہید کر دیا کچھ دن پہلے۔۔۔ اس نے گہرا سانس لیا اور بس اتنا ہی کہا خاتون ان کو پھانسی ہوئی ہے۔ میں نے کام مکمل کیا اور ان خاتون سے کہا، بی بی ذرا دو منٹ بیٹھیں، بات کرنی ہے۔ ساتھ بٹھایا اور سمجھایا کہ آپ کے تین بچے پہلے ہی کم عمری میں انتقال کر گئے، اب یہ چوتھا بیمار ہے، یہ ٹھیک ہو جائے گا تو آپ کی سوچ اور آپ کے گھر کا ماحول اس کا ذہن خراب کر دے گا، اور پھر کسی پاگل کی باتوں میں آ کر یہ پہلے قتل کرے گا اور پھر خود مرے گا۔ میں آپ کے عقائد کا احترام کرتی ہوں، آپ کی تعلیمات کے بارے میں کچھ نہیں کہتی لیکن اپنے بچے سے ایسی دشمنی نہ کریں۔ نقاب میں ڈھکے ہونے کی وجہ سے ان کے چہرے کے تاثرات کا اندازہ نہیں ہو سکا اور شاید تم کہو کہ یہ بےوقوفی ہے ایسے کھلے عام گفتگو کرنا مگر مجھے افسوس ہوا تھا کہ اس بچے کے سامنے ایک غلط تصویر رکھی جا رہی ہے، کل کو اسے کوئی بھی استعمال کر گزرے گا۔ ایک غلط عمل کو نیک جذبے کا لبادہ اوڑھا دینا کس قدر غلط بات ہے لیکن شاید یہی سچ ہے کہ ان جگہوں پہ عقل، دلیل، جواز کچھ کام نہیں آتے۔ یہاں سوال اٹھانے کی اجازت نہیں، سوچنا اول تو جرم ہے اور اگر سوچنا لازم ٹھہرا تو سوچ کے عمل سے اس طرح گزرنا کہ نتیجہ انہی روایتوں کے حق میں نکلے۔

تم اپنے بظاہر لبرل دوست کی بیوی کی بات کر رہے تھے یہاں وہ بھی لوگ ہیں جو اپنی چار پانچ سال کی بچیوں کو اسکارف میں لپیٹے لئے پھرتے ہیں مجھے تو خیر ان کی اس حرکت کہ وجہ بھی سمجھ نہیں آ سکی کہ ایک کم سن پہ اپنی سوچ مسلط کرنے کا حق ان کے پاس نہیں۔ چلو کوئی بالغ ہے جس نے اپنی مرضی سے پردے یا نقاب کا انتخاب کیا تو شاید میں کبھی اس بات کو تسلیم کر لوں کہ اس کا حق ہے لیکن بات انتخاب کی ہے اور یہ تب ممکن ہے جب مختلف راستے آپ کے سامنے کھلے رکھے ہوں اور آپ اپنی مرضی سے ایک کو چُنیں، جب سر پہ ایک تلوار لٹکی ہو تو کیا فیصلہ اور کیسا انتخاب۔ خیر رام لعل کا شعر ہے نا

لکھتے چلو فسانہ ہجراں

اب بھی رات کی رات پڑی ہے

روشنی کی قدر اور طلب بھی رات ہی سے ہے، جب تک رات کی رات پڑی ہے ہم لکھتے رہیں گے، کل کوئی اور لکھ رہے تھے، آج ہم لکھ رہے ہیں تو کل کوئی اور لکھیں گے کہ بقول فراز ابھی ہم آسمانوں کی امانت اور زمینوں کی ضرورت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments