اگر میں چیف جسٹس ہوتا۔۔۔


ضمیر خان بھی کمال شخصیت کا مالک ہے، منفرد اندازِ زندگی، پُر کشش اور با معنی اندازِ گفتگو اُس کی پہچان ہیں۔ اظہارِ خیال میں پختگی و بے باکی اور اُس کی شخصیت میں وضع داری اور نفاست بدرجہ اُتم بھری ہے۔ منطق اور دلیل تو گویا اُس کی باندی ہیں۔ نیلگوں آنکھوں، گندمی گول چہرے اور لمبے دراز قد پر سنہری بال انتہائی بھلے معلوم ہوتے ہیں نیز چال ڈھال میں یہ طمنانیت فقط اُسی کا خاصا ہے۔ ضمیر کے نزدیک انسانی عزت اور وقار اور فرد کی رائے کے احترام کا معاملہ ہو تو وہاں سارے فلسفے اور منطقیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ وہ انسانی رشتوں رابطوں، قدروں اور مشترکہ سماجی ورثے کو کسی بھی الہامی رویے سے مقدم اور برتر سمجھتا ہے۔

ضمیر خان کی نظر میں انسان، انسان کی قدر اور انسانی حقوق سب سے پہلے اور تمام علوم، سندیں، ڈگریاں، عہدے اور مرتبے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ خُدا جانے بلا کی یہ ذہانت ضمیر خان کہاں سے خرید لایا کیونکہ ہمارا یارانہ لگ بھگ 30 سال پر محیط ہے اور اتنے برس پہلے تو وہ ایسا ہر گزنہ تھا۔ اب وہ فقط حقوق، عزت، برابری، روادری، سانجھے معاشرے اور باوقار زندگی کی بات کرتا ہے۔ کسی پر تنقید نہیں کرتا مگر صلاح ضرور دیتا ہے، کسی کی دل آزاری نہیں کرتا مگر اپنی رائے کا اظہار ضرور کرتا ہے۔ اصول، ضابطے اور قانون سب مانتا ہے مگر توہین، نفرت اور تعصب قبول نہیں کرتا۔

کچھ روز قبل ہم یومِ اقلیت کے سلسلے میں منعقد ہونے والی تقریب کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ ضمیر خان وہاں آن موجود ہوا۔ ہم نے سوچا چلو ڈھنگ کے کوئی دو چار مشورے ہی مل جائیں گے مگر اُس کے تو تیور کچھ اور ہی فرما رہے تھے۔ خلافِ توقع کافی دیر خاموش بیٹھا رہا اور گفتگو میں بھی عدم دلچسپی رہی، نجانے سوچ کے پاتال سے کیا نکالنا چاہ رہا تھا۔ ہمارے مخاطب کرنے پر تو چونکا ہی دیا، بولا “اگر میں چیف جسٹس ہوتا۔۔۔”۔ ہم نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، “یہ منہ اور مسور کی دال”۔ محفل مزاح، سنجیدگی اور تنقید سے ماورا ہو چکی تھی۔

ضمیر خان آج نجانے کیا سوچ کے آیا تھا کہ ہم تمام جتن کرچکے مگر موصوف اِس ضد سےٹس سے مَس نہ ہوئے۔ بحث مباحثہ میں سمن صاحب کی لطیفہ گوئی کام آئی، نہ شفو کے دلائل۔ بِلُو کی بے محل کٹ ہجتی بھی کارگر ثابت نہ ہوئیں تو زُلفی کے ذو معنی جملے بھی بے کار ٹھہرے۔ ضمیر خان پچھتائے جا رہا تھا کہ کاش میں چیف جسٹس ہوتا، حالانکہ ہم نے زمانہِ طالبِ علمی سے اب تک اُس میں ایسے گُن کبھی نہیں دیکھے تھے، مگر اس ضد کا سیاق و سباق کیا تھا، ہمیں نہیں معلوم۔

اِس سے پہلے کہ محفل بے مزا اور بے نتیجہ برخاست ہوتی، ہمارے سوال نے سب کی توجہ حاصل کر لی اور ضمیر خان کو مجبور کیا گیا کہ وہ تسلی بخش جواب دے۔ ہم نے پوچھا کہ عمرِ رواں کے اِس آخری حصے میں آ کر ایسی خواہش کیوں جاگی؟ اور فرض کرو تم آج چیف جسٹس بھی ہوتے تو کیا کمال کرتے نیز تم میں اور دوسرے چیف جسٹس صاحبان میں کیا فرق ہوتا؟

 محفل انتہائی سنجیدہ ماحول میں ڈھل گئی۔ ہمیں لگا ضمیر خان ہتھیار پھینک دے گا اور سزا کے طور پر اب ہمیں گونگے کی دودھ پتی پلائے گا، مگر اُس کی منطق، جواب اور سوچ کی گہرائی نے ہمیں اُس کا مزید گرویدہ بنا دیا۔ کہنے لگا، ” اگر میں چیف جسٹس ہوتا:

 1) تو چونکہ پاکستان اقلیت کے نام پر بنا تھا، اقلیت کے ووٹ نے اِس خواب کو تعبیر بخشی تھی لہٰذا اقلیتوں کا احترام اور تحفظ یقینی بناتا۔

2) قائداعظم محمد علی چونکہ شعبہ عدل و انصاف سے وابستہ تھے، سیاسی طور پر بابائے قوم تھے اور اولین کابینہ میں ہندووں کو بھی شامل کرتے اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے اُن سے صلاح مشورے کرتے تھے، لہٰذا اِسی تناظر میں اُن کی وسعت النظری پر مبنی 11 اگست کی تقریر پر عمل کرتا اور اُسے اپنا نصب العین بناتا۔

 3) مسلم اکثریت کے اِس ملک میں جہاں ایک مسیحی چیف جسٹس اور ایک ہندو قائم مقام چیف جسٹس بھی ہو گزرے ہیں نیز جسٹس تصدق حُسین جیلانی جیسے جید قانون دانوں کی طرح میں بھی مذہبی اقلیتوں کے حقوق و تحفظ میں حصہ ڈالتا اور اُن کی خدمات کو سراہتا اور اُن کے اقدامات کی تقلید کرتا۔

 4) میں اپنے اِس منصب کی قدر کرتا اور کسی بھی طرح سے کسی بھی شہری سے نہ تو تعصب برتتا اور نہ ہی مذہبی بنیادوں پر کسی کی دل آزاری کرتا، اس لئے کہ میرے کسی بھی قول و فعل سے نظامِ عدل بدنام ہونے کا شائبہ ہو سکتا ہے۔

 5) میں ریاست کے تمام شہریوں کو رنگ، نسل اور مذہب کے امتیاز کے بغیر انصاف فرام کرتا نیز اُنہیں عملی طور پر اس مملکتِ خداداد کے شہری کہلانے کا یقین دلاتا۔ اس لئے کہ اگر میں یا میرا ادارہ ہی متعصب ہوتا تو یہ شہری انصاف کے لئے کدھر جاتے؟

 6) میں اِس کثیرالمذاہب معاشرے میں نفرت، تعصب اور عدم رواداری کی حوصلہ شکنی کرتا اور ایسے افراد اور گروہوں کے خلاف، جو مذہب کے نام پر نفرت پھیلاتے ہیں بلا امتیاز تفریق، رتبہ و عہدہ یا وابستگی سخت قانونی کارروائی کرتا۔

 7) میں نیشنل ایکشن پلان پر خود بھی عمل کرتا نیز تمام ریاستی اداروں کو اِس پر کاربند رہنے کا حکم دیتا۔

8) میں نصاب ِ تعلیم میں دیگر مذاہب کے خلاف پڑھائی جانے والی نفرت کا خاتمہ کرتا، ہندووں، مسیحیوں، سکھوں اور تمام مذہبی اقلیتوں کو نام بنام پکار کر نصابِ تعلیم کا حصہ بناتا۔

9) کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اگر میں مذہبی نفرت کی بات کرتا، کسی مذہبی طبقے کا نام لینے کو توہین سمجھتا تو ملک بھر کے ہندوؤں، مسیحیوں اورسکھوں کے سرکاری کاغذات کے اندراج، ملازمتوں، حکومتی سروے، ووٹ کی فہرستوں اور نا انصافی کے مقدمات وغیرہ میں کوئی اُن کا نام لکھنے کو بھی تیار نہ ہوتا۔لہٰذا جتنا بڑا میرا منصب ہوتا اُتنی ہی بڑی میری قلبی وسعت، میری سوچ، میرے اندر احترامِ انسانیت، مساوات کا جذبہ اور عاجزی کے انبار ہوتے۔

 10) انسانی کمزوری کے ناطے یا جوشِ خطابت میں اگر کبھی مجھ سے مذہبی نفرت پھیلانے کا جرم سرزد ہو بھی جاتا تو میں پوری قوم سے سر جھکا کر عقیدت اور صدق دل سے معافی کا طلبگار ہوتا تاکہ شہری مجھے بھی صادق اور امین تصور کرتے۔

ضمیر خان کی ساری بات سیاق و سباق کے ساتھ سمجھ میں آ گئی، اور ہم سب دوست اپنے اپنے تجزیے کے ساتھ ضمیر خان کا دم بھرتے سڑک کی اُس جانب گونگے کی مشہور و معروف دودھ پتی پینے چل پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).