پاکستان کی نئی مرد شاہی


پاکستان میں ٹی وی پر سیاسی بات چیت کے لئے مقبول ترین فارمولہ یہ ہے کہ ایک نوجوان، خوبصورت عورت، اچھی طرح سے تیار ہو کر ایک دو یا کبھی کبھی چھ ڈھلتی عمر کے مردوں کو، جن کے بال سفید ہو رہے ہوں، متعارف کراتی ہے اور ان سے مختلف موضوعات پر سوال پوچھتی ہے لیکن اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتی۔ اس عورت کو مردوں کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے اشتہاری وقفوں یا دوسرے مہمانوں کی کال لینے کی اجازت تو ہے لیکن اس کا بنیادی کردار ان مقبول مردوں سے صرف یہ کہنے تک محدود ہے کہ “سر، آپ کی اس موضوع کے بارے میں کیا رائے ہے؟ “

سر کی رائے اہم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک مرد ہے۔ اگر آپ ایک عورت ہیں تو آپ صرف اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے بال چمکدار ہوں اور آپ کو چند دانشوروں کے گروپ کو بڑی آسانی سے اشتہاری وقفے تک لے جانا آتا ہو۔ ان میں سے کسی بھی شخص نے کبھی نہیں کہا کہ،،دیکھو، میں اس موضوع کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، آپ ہمیں کیوں نہیں بتاتیں کہ آپ اس موضوع کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟،،

ٹی وی کے یہ پروگرام پاکستانی معاشرے کی عکاسی بالکل نہیں کرتے۔ بطور ایک ڈھلتی عمر کے پاکستانی مرد کے میں نے کبھی کوئی ایسی نوجوان عورت نہیں دیکھی جو اس لحاظ اور خاموشی سے بیٹھی آپ کی بات بغیر اپنے خیال ظاہر کیے سنتی رہے۔ مجھ کو تو جب بھی ایسی نوجوان لڑکیوں کی کلاس کو پڑھانے کا موقع ملا تو میں ہمیشہ ایک دھڑکتے دل کے ساتھ اس کلاس میں داخل ہوا۔ جب بھی ان کے چبھتے ہوئے سوالوں اور پر جوش دلائل کا سامنا ہوا یا تو میں اکھڑ گیا یا ان پر برس پڑا۔ اور پھر مجھے احساس ہوا کہ میں ان ٹی وی پنڈتوں سے مختلف نہیں ہوں۔ میں بھی پاکستان کی نئی پڑھی لکھی، اونچے طبقے تک پہنچ رکھنے والی، سیاسی طور پر صحیح اور نپی تلی مرد شاہی کا حصہ ہوں۔ ہم عورتوں کا احترام کرتے ہیں، لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں باعزت بننے کے لیے ہماری آشیر باد کی ضرورت ہے۔

حال ہی میں اس نئی مرد شاہی نے اپنے جاہ و جلال کا بھرپور اظہار کیا۔ تین پاکستانی خواتین جو اخبارات کی شہ سرخیاں بنانے میں کامیاب ہوگئی تھیں ان کو مردوں کی اس قوم نے نہ صرف یہ بتایا کہ ان کے اعمال اور کردار میں کیا کمی یا کجی ہے بلکہ اگر انہوں نے اپنے طور طریقوں کو درست نہیں کیا تو ان کے ساتھ کیا کچھ ہو سکتا ہے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔

پارلیمان کی ایک رکن عائشہ گلالئی وزیر کو ان کے چہرے پر تیزاب پھینکنے اور ان کا گھر جلا دینے کی دھمکی اس وقت دی گئی جب انہوں نے پاکستان کے طاقتور سیاست دانوں میں سے ایک، عمران خان پر جنسی ہراسانی کا الزام برسرعام لگایا۔ انہیں غیر اخلاقی اور ایک ایسی عورت کہا گیا جو 24 گھنٹوں میں اپنے آپ کو فروخت کرسکتی ہے۔ جب انہوں نے یہ کہنے کے بعد یہ کہا کہ وہ عمران خان کی طرف سے بھیجے گئے ان ناموزوں پیغامات کو صرف پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کریں گی تو کہا گیا کہ وہ سیاسی کھیل کھیل رہی ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ تو ہیں ہی ایک سیاستدان۔

انسانی حقوق کی مثالی وکیل عاصمہ جہانگیر پر قومی سلامتی کے ادارے کو بدنام کرنے کا الزام لگایا گیا چونکہ انہوں نے سپریم کورٹ پر الزام لگایا کہ اس نے کبھی بھی ملک کے جرنیلوں کی تفتیش نہیں کی۔ ان پر سرکاری مقدمات کی پیروی کی اجرت لینے کا الزام بھی لگایا گیا جیسے وکلا عام طور پر فیس لے کر کام نہیں کرتے۔

قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی کو ایک مثالی شخصیت قرار دیا گیا۔ جن کے چہرے اور گردن پر پچھلے سال 23 بار چھری سے وار کئے گئے تھے۔ حملہ آور کے خاندان اور دوستوں کی دھمکیوں کے باوجود وہ اس کو عدالت میں لے کر گئی۔ حال ہی میں حملہ آور کو اقدام قتل کے جرم میں سات سال کی سزا دی گئی۔

خدیجہ صدیقی صاحبہ سے ہم ہمدردی رکھتے ہیں کیونکہ ان کی بات الگ ہے ان کے پاس دکھانے کو چہرے کے زخم ہیں۔ جب خواتین اس طرح کے زخموں کے بجائے اپنے اعلیٰ مقاصد یا سیاسی سرکشی پیش کرتی ہیں تو ہم اصرار کرتے ہیں کہ وہ گندے ٹیکسٹ پیغامات یا اپنی آمدنی پر ٹیکس کی ادائیگی کا ثبوت پیش کریں۔

نئی مرد شاہی خواتین کا احترام کرنےکو تیار ہے لیکن کچھ مطالبات کے ساتھ۔ سب سے پہلے جاؤ گولی کھا کر آؤ، تیزاب سے جل کر دکھاؤ یا پھر ریپ کا شکار ہو پھر ہم تمارا ساتھ دیں گے۔ اگرکوئی عورت اس بات کا اظہار کرے کہ سیاسی جماعت، فوج یا عدالت کی بینچ سے تعلق رکھنے والے مرد بےوقوفوں کا ٹولہ ہیں تو نئی مردشاہی کا ردعمل بالکل پرانی مرد شاہی کی طرح ہوتا ہے کہ یہ عورت اپنے لیے مصیبت کو کیوں دعوت دے رہی ہے۔

محترمہ عائشہ گلالئی وزیر صاحبہ نے تو مصیبت کو اتنی دعوت دے ڈالی کہ سیاست میں داخل ہوگئیں، خان صاحب کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے قومی اسمبلی میں نشست حاصل کرلی، اور پھر پارٹی کی ہراساں کرنے والی ثقافت کی مذمت کرتے ہوۓ پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ کیا ان کو بالکل شرم نہیں آتی؟ اور ان کی بہن جو نیکر پہن کر پیشہ ورانہ اسکواش کھیلتی ہیں؟ لگتا ہے وزیر صاحبہ کو اپنی عزت کا بالکل بھی خیال نہیں ہے۔

اور پھر عاصمہ جہانگیر صاحبہ، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے پرانا کوڑا، جو کئی سال سے طاقت کے خلاف سچ بول رہی ہیں۔ جہاں ملک کے کچھ طاقتور مرد ہر نئے فوجی آمر کے قطار لگا کر جوتے چاٹتے ہیں محترمہ عاصمہ جہانگیر کی سرگرمیاں انہی فوجی آمروں کو غصے کے مارے ناکارہ کردینے والے مقام تک پہنچا چکی ہیں۔ آپ ایک ایسی شخصیت کا کر بھی کیا سکتے ہیں؟ سوائے اس کے کہ آپ اس کو ایک ڈائن کا روپ دے کر غدار کا لقب دے دیں۔بس اور کیا۔

نئی مرد شاہی جینڈر سٹڈیز کا مضمون پڑھ چکی ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ کسی اندھیرے کونے میں ایک عورت پر ہاتھ ڈالنا اچھی بات نہیں۔ نئی مرد شاہی بچوں کو اسکول لانے لے جانے اور برتن دھونے میں مدد دینے پر خوش ہے۔ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ پرانی مرد شاہی کا حصہ نہیں ہیں۔ مگر یہ مردشاہی خواتین کو پرائم ٹائم ٹی وی پر تباہ کرنے کو فوقیت ضرور دیتی ہے۔ یہ پوری سنجیدگی سے جاننا چاہتی ہے کہ خواتین ان کے کچھ قابل احترام مردوں پر کیوں الزام لگاتی ہیں۔ اور ثبوت کہاں ہے؟

محترمہ خدیجہ صدیقی صاحبہ تو اپنا ثبوت اپنے چہرے پر پہنتی ہیں، لیکن ان کی راہ پر چلنا تقریباً ناممکن ہے۔ سب سے پہلے تو ان جیسی خوش نصیبی چاہئے کہ اپنے جسم کے اوپر کے حصے پر 23 چھری کے وار سہہ کر آپ زندہ رہ جائیں، پھر مقدمہ درج کروانے کی ہمت بھی ہو، اور پھر آپ اپنے کو اتنا بے حس بنا سکیں کہ اپنے کردار پر پڑنے والے کیچڑ کو برداشت کرسکیں۔ جی ہاں ان کو ٹی وی پر ایک رول ماڈل کے طور پر سراہا ضرور گیا لیکن کیا واقعی ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کو صرف ماں، بہن یا بیٹی کی طرح دیکھنا پسند کیا جاتا ہو وہاں ایک ایسی مثالی عورت شخصیت کی ضرورت بھی ہے؟ کیا عورتوں کو صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھنے تک کی کوشش نہیں کرنا چاہئے؟

میں نے اس سال کے آغاز میں، ایک چھوٹے صوبائی شہر میں، اپنے ایک دوست کی بہن کے قتل پر، مقتولہ کے شوہر اور اس کے سسرال والوں کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کروانے میں دوست کی مدد کرنے کی کوشش کی۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے ایک پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھی۔ رپورٹ میں اس کے زخموں کا اندرج کیا گیا تھا۔ میں نے گردن کے اوپر 17 کا شمار کیا۔ پولیس اہلکار مسلسل کہتے رہے کہ میرے دوست کی بہن کی موت زہر کھانے سے ہوئی اور اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ 17 وار دراصل مہلک نہیں تھے۔ مرد اور عورت کے معاملات میں ایک حساس واقف کار مردجو ہماری مدد کروا رہے تھے کہنے لگے۔ وہ خاتون کچھ تو ایسا کر رہی ہوں گی، نہیں تو آپ جانتے ہیں کوئی بھی مرد بغیر وجہ کے اپنی بیوی کے ساتھ ایسا نہیں کرے گا۔

پاکستان کی سب سے مقبول فائٹر اور وکٹم ملالہ یوسفزئی ہیں۔ ہر دفعہ پاکستان کے لوگ جب انہیں کسی عالمی فورم پرخطاب کرتے یا کسی ریاستی سربراہ سے ملاقات کرتے دیکھتے ہیں تو ان میں سے نصف کو تو جھٹکا لگ جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی تذلیل محسوس کرنے لگتے ہیں۔ باقی نصف اچھی طرح سے جذباتی ہوکر فخر کرنے والے والدین کے آنسووں کا ساتھ دیتے ہیں لیکن اپنا سر ضرور ہلاتے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ ملالہ یوسفزئی کو مغربی طاقتیں اپنے سیاسی آلہ کار کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔ پاکستان کی نئی مردشاہی ایک لڑکی کے چہرے پر گولی مار دیے جانے کو تو پسند نہیں کرتی لیکن جب وہ زندہ بچ جائے تو اس بات کا فیصلہ ضرور کرنا چاہتی ہے کہ اس چہرے کا کیا کیا جائے۔

ترجمہ : زہرا نقوی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).