ڈاکٹر رتھ فاؤ: ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے


جب انہوں نے جھونپڑ پٹی قسم کی ڈسپنسری کو باقاعدہ ہسپتال میں بدلنے کا سوچا۔ وہ ایک دم خالی ہاتھ تھیں۔ ان کے پاس اس کام کے لیے کوئی رقم موجود نہیں تھی۔ انہیں جرمنی سے خط آیا،” یہ کس طرح ہوا کہ ایک جرمن ڈاکٹر جذام کے خلاف کام کر رہی ہے اور جرمن لیپرسی ایسوسی ایشن کو اس کی خبر تک نہیں؟‘‘جواب دیا گیا، ” یہ کس طرح ہوا کہ جذام کے خلاف کام کرنے والی ایک جرمن ڈاکٹر کو خبر تک نہیں کہ کوئی جرمن لیپرسی ایسوسی ایشن بھی وجود رکھتی ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا کہ آپ بتائیے ہم آپ کے لیے کیا کریں، یہاں سے گتے کے ٹکڑوں اور موٹے کپڑوں سے تعمیر جھونپڑیوں کی تصویر بھیج دی گئی کہ بس یہ ہے کل کائنات جس میں ہم لوگ اپنا کام کر رہے ہیں، جو کر سکتے ہیں، کر دیجیے۔ کچھ سامان اور تربیت یافتہ عملہ وہاں سے آ گیا۔ پھر ایک اور مشنری تنظیم جرمنی سے یہاں آئی تو انہوں نے ہسپتال بنوا کر دیا اور فاؤ رات کے اندھیرے میں وہاں شفٹ ہو گئیں۔ یہ 9 اپریل 1963 تھا۔ 15 اگست 2018 ہوتا تب بھی یہی ہونا تھا۔ صبح گالیوں، گندے انڈوں، ٹماٹروں، پتھروں اور گالیوں سے ان کا استقبال ہوا اور اس کے بعد ایک طویل مقدمہ بازی تھی جو بالآخر وہ جیت گئیں۔

اس واقعے سے تین برس پہلے وہ یہاں آئی تھیں اور پھر یہیں کی ہو گئیں۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ خدا نے انہیں کس مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا ہے۔ وہ بہت حسین تھیں، ان کی نیلی آنکھیں ، اپنے وطن میں سیب اور چیری کے درخت دیکھتے رہنے کی عادی تھیں۔ وہ بھی عام بچیوں کی طرح اپنی بہنوں سے کھیلا کرتی تھیں، مٹی کے گھر بنایا کرتیں، خرگوش اور طوطوں سے کھیلا کرتیں، بڑی ہوئیں تو دو مرتبہ ایسا بھی ہوا جسے واردات قلبی کہتے ہیں، انہیں پروپوز تک کیا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ دوسری عالمی جنگ کے دن دیکھ چکی تھیں۔ اس قدر نفرت، قتل و غارت اور حشر نشر دیکھنے کے بعد وہ بلکہ ان کی پوری نسل صرف یہ سوچ رہی تھی کہ ہم کیوں بچ گئے اور ہمارے بچ جانے کا مقصد کیا ہے؟ جو فقیر جیسے تن آسان تھے وہ آہستہ آہستہ ہپی ہو گئے، بال بڑھا لیے، داڑھیاں بڑھا لیں، سو طرح کے نشے شروع کر دئیے، دنیا سے فرار کی ہر ممکن کوشش کی اور اپنے آپ میں غرق ہوتے چلے گئے۔ رتھ فاؤ لیکن ایسی نہیں تھیں۔ وہ ڈاکٹری کر چکی تھیں۔ مسیحیوں کے پروٹسٹنٹ فرقے سے ان کے والدین کا تعلق تھا لیکن جنگ کے دوران یہ سب کچھ بھی بے معنی ہو چکا تھا۔ ان کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں مذہب ان کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ ان کی پیڑھی نے وہ کنسنٹریشن کیمپ دیکھے تھے جہاں ہزاروں یہودیوں کو مارا گیا تھا، اس قدر بے ثباتی دیکھنے کے بعد کسی بھی قسم کے رسوم و رواج یا عقائد ان کے لیے بے معنی تھے۔ موت اپنے پورے بھیانک روپ میں ان کے سامنے منہ پھاڑے کھڑی تھی اور انہیں زندہ رہنے کے مقصد کی تلاش تھی۔

ہوا یوں کہ اسی دوران وہ فرینکفرٹ گئیں جہاں ان کی ملاقات ایک بوڑھی عورت سے ہوئی، وہ کنسنٹریشن کیمپ میں قید رہ چکی تھی اور اس کے ساتھ وہاں بہت ظلم و ستم ہوا تھا۔ وہ عورت وہاں بیٹھ کر زندگی میں درگزر اور محبت کی اہمیت کا درس دے رہی تھی۔ ڈاکٹر فاؤ بڑی پریشان ہوئیں کہ یہ کیسی عورت ہے، اتنا سب کچھ سہہ کر بھی کہتی ہے کہ سب کو معاف کر دو، سب کچھ بھول جاؤ، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ سوال جواب کے بعد معلوم ہوا کہ وہ خاتون مسیحی مبلغ تھیں اور کیتھولک فرقے سے تھیں۔ اب رتھ فاؤ کا رجحان مذہب کی طرف ہونا شروع ہو گیا، پھر ان کی زندگی میں وہ لڑکا آیا جو شاید ان کی آخری محبت تھا لیکن اس کا بڑھا ہوا ہاتھ بھی روک دیا گیا۔ اس سے ملاقاتوں کے درمیان ہی یہ طے کر چکی تھیں کہ ان کی آخری منزل کیتھولک نن ہو کے انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔ نیلی آنکھوں والی ڈاکٹر رتھ فاؤ نے پیرس میں ”ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری‘‘ جوائن کر لی۔

قسمت انہیں پاکستان لے آئی۔ ادھر آئیں تو اتنا دکھ، اتنی تکلیف دیکھی کہ یہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب ان کی پوری زندگی ایسے نابینا لوگوں میں گزرنا تھی جن کی ناکیں مسخ تھیں، جن کے چہرے گلے ہوئے تھے، جن کے ہاتھ پاؤں ایسے تھے جیسے گوشت پگھل کر بہہ جائے، جن کے باقی جسم پر بے تحاشا ایسے زخم تھے جن سے ہر وقت پیپ بہتی تھی، جن کے نزدیک یا مکھیاں جاتی تھیں یا پھر چوہے جو ان کا گلتا ہوا گوشت کترنے کا موقع ڈھونڈتے تھے۔ چیری اور سیب کے درختوں میں پلنے بڑھنے والی رتھ فاؤ اس علاقے میں ان کوڑھیوں کی ناک اور منہ میں پڑے کیڑے صاف کرتی رہیں جنہیں کوئی بھی ہسپتال داخل نہیں کرتا تھا اور جہاں تک پہنچنے کے لیے ٹھیک ٹھاک بدبودار پانی سے گزرنا پڑتا تھا۔ ویسے کیا آپ نے کبھی کسی ایسے مریض کو دیکھا ہے جو کوڑھ کا شکار ہو؟ خدا نہ دکھائے۔

1979 میں سوویت افغان جنگ ہوئی تو بہت سے افغانی پناہ گزین پاکستان آئے۔ ان میں جذام کے مریض اچھے خاصے تھے۔ مادام فاؤ حکومت وقت سے اجازت لے کر افغانستان گئیں، وزٹ کے دوران کسی نے انہیں بتایا کہ یہاں کچھ عرصہ پہلے ایک لڑکی ہوتی تھی جسے جذام ہو گیا۔ ماں باپ نے اسے مردہ مشہور رکھا ہے، شاید وہ موجود ہو۔ بتائے گئے پتے پر پہنچیں وہاں ماں نے بتایا کہ بیٹی مر چکی ہے۔ مادام کے ساتھ جو آدمی تھے انہوں نے گھر کے آس پاس ڈھونڈنا شروع کیا تو جانوروں کے ایک باڑے میں ڈری سہمی ہوئی سی ایک مخلوق موجود تھی۔ اس جگہ اتنا شدید تعفن تھا جیسے کسی نے صدیوں ادھر کی صفائی نہ کی ہو۔ وہ لڑکی چھبیس سال کی تھی اور اس کی ناک اور منہ گل چکے تھے، آنکھیں اپنی جگہ سے باہر تھیں، آواز تک مشکل سے نکلتی تھی، اس کے وجود میں اتنی بدبو تھی کہ ڈرائیور نے گاڑی چلانے سے انکار کر دیا۔ پھر اسے گاڑی کے سامان والے حصے میں بٹھا کر کسی نہ کسی طرح ہسپتال تک پہنچایا۔ وہ لڑکی اٹھارہ برس سے وہیں قید تھی اور اس دوران اس کا تقریباً ہر عضو گل چکا تھا۔ صحت مند ہونے کے بعد وہ بیس برس زندہ رہی لیکن اتنی لمبی قید اس کا دماغی توازن خراب کر چکی تھی۔

یہ ایک کیس تھا۔ ایسے ہزاروں لوگ جو مرتے تھے نہ جیتے تھے، جنہیں گھر تو گھر، مزاروں اور مطب دونوں جگہ سے ٹھوکر مار کے بھگایا جاتا تھا، جن کی علاج گاہ عام آدمی اپنے درمیان نہیں دیکھنا چاہتے تھے، جن کا واحد پیشہ بھیک مانگنا ہوتا تھا، رتھ فاؤ ان سب کی مسیحا تھیں۔ پاکستان بابا ایدھی کے جانے سے یتیم ہوا تھا، رتھ فاؤ اسے مسکین کر گئیں۔ ڈاکٹر زرینہ، فضل بھائی، صفیہ خان، پروفیسر رابعہ حسین، ڈاکٹر برنیڈٹ ڈین، غزالہ احمد، شیریں رحمت اللہ، ڑنین گیونز جیسے فنا فی الخدمت لوگ ان کی ٹیم میں شامل تھے۔

ڈاکٹر فاؤ پانچ کتابوں کی مصنف رہیں۔ بہت سے ایوارڈ انہیں دئیے گئے جن میں نشان قائد اعظم، ستارہ قائد اعظم اور ہلال امتیاز شامل ہیں۔ انہیں بہت سے گولڈ میڈل بھی ملتے تھے جن کا نصیب پگھل کر کوڑھی باپوں کی بیٹیوں کے جہیز میں شامل ہو جانا ہوتا تھا۔

پس نوشت: اس کالم میں درج بیشتر حقائق ان کی مختصر سوانح”سرونگ دی ان سروڈ‘‘ سے لیے گئے ہیں۔ یہ کتاب مطہر ضیا صاحب نے لکھی اور محترمہ ڈاکٹر صائمہ ارم نے”بے کسوں کی دستگیری‘‘ کے عنوان سے اس کا بامحاورہ ترجمہ کیا۔

بشکریہ روز نامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain