”سیکسِ ممنوع“ سے غیرت کے سوال تک


 ”سیکس، شادی، اور شادی کے بعد کسی اور کی چاہت“ میں میاں بیوی کے تعلق میں ملکیت کا سوال چھیڑا گیا تھا۔ مجھے احساس ہے کہ مضمون تشنہ تھا، یہ بھی ہے کہ کسی ایک مضمون میں سب باتیں کر دی جائیں، یہ ممکن نہیں۔ جب ہم کسی موضوع کا انتخاب کرتے ہیں، تو اس کے مختلف پہلووں کا ذکر اختصار سے ہوتا ہے، سب باتوں کا ایک ہی وقت میں احاطہ نہیں ہوسکتا۔ پاکستانی معاشرے کی بات کی، کہ یہاں رشتوں میں ملکیت کا تصور ہے۔ میاں بیوی ہی کیا بہن بھائی ایک دوسرے کو اور والدین اولاد کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں۔ بھابی بنا کر لائی جانے والی کو جتلایا جاتا ہے، کہ بھائی پر پہلا حق میرا ہے۔ ساس بیٹے کی ملکیت کے دعوے سے دست بردار نہیں ہوتی، تو بہو اپنا قبضہ چاہتی ہے؛ باپ، بیٹا، شوہر اپنی ملکیت کے دعوے دار ہیں۔

اس مضمون میں یہ نہیں کہا گیا کہ ہر کسی کی بیوی کسی دوسرے مرد کی چاہ میں مری جاتی ہے۔ ہر مرد چار چار شادیوں کے لیے تڑپ رہا ہے۔ کہنا یہ تھا فرض کریں ایسا ہو، کہ کوئی شادی شدہ عورت غیر مرد کی چاہ میں مبتلا ہو جائے، اپنے شوہر سے طلاق چاہے کہ میں اب دوسرے مرد کو اپنانا چاہتی ہوں، جو مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے، تو ہمارے یہاں اس بات کو معیوب سمجھا جائے گا۔ بات قتل خون تک چلی جائے گی۔ حالانکہ اخلاقا یا مذہبا (اسلام میں) یہ معیوب بات نہیں۔ ہم ہر وقت اسلام کی حقانیت کے گن گاتے ہیں، اسے اعلا ترین مذہب کہتے ہیں، عمل کا وقت آئے تو سماج کے رسوم کی آڑ لیتے ہیں۔ معیوب بات یہ ہے کہ کوئی ایک پارٹنر، دوسرے پارٹنر کو دھوکے میں رکھ کر کسی تیسرے سے جنسی تعلق بنا لے۔ بعینہ یہی فارمولا مرد پر بھی صادق آتا ہے۔ وہ بھی ایسا چاہے تو اپنے فیصلے میں آزاد سمجھا جانا چاہیے۔ ایسے فیصلوں میں یہاں مرد پر بھی پابندیاں عائد ہوتی ہیں؛ اسے برادری کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن عورت مرد سے زیادہ جکڑی ہوئی ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام کی جہاں‌ بہت سی خوبیاں ہیں، وہاں ایسے جھگڑے بھی معمول ہیں۔ خاندان کا ایک سربراہ ہوتا ہے، وہ خاندانی روایات اور خاندان کے اجداد کے سچے جھوٹے کارنامے دُہراتا رہتا ہے کہ ہمارا خاندن کیوں کر دوسرے خاندانوں سے افضل ہے۔ آیندہ نسل انھی لفظوں کی جگالی کرتی ہے، جو بڑوں سے سن رکھے ہیں۔ شہروں میں یہ مشق زرا کم دکھائی دینے لگی ہے، لیکن کلی طور پر ختم نہیں ہوئی۔ ان روایات سے بغاوت کرنے والے کو بے غیرت سمجھا جاتا ہے۔ غیرت کی تعریف ہر خاندان، ہر گاوں، ہر شہر، ہر قوم، ہر سماج میں مختلف ہوتی ہے۔ میں بیوی بچوں کے ساتھ ننھیالی گاوں گیا، ہم دریا کی سیر کو جا رہے تھے، میری بیوی بچوں کے ساتھ آگے آگے اور میں رشتے کے ایک ماموں کے ساتھ چار قدم پیچھے چل رہا تھا۔ انھوں نے میرا بازو پکڑ کر دھکیلا کہ اسے کہو (اپنی بیوی کو) تم سے پیچھے چلے۔ مجھے ننھیالی گاوں کی روایات کی خبر ہے، تو ہنس کے ٹال دیا، ”ماموں یہ افسر ہے، میں تو اس کا بیٹمین ہوں، تو خیر ہے اسے آگے ہی چلنے دیں۔“ انھوں نے مذاق کو کیا سمجھنا تھا، الٹا ڈانٹ دیا کہ ”تم تو بالکل ہی بے غیرت ہو گئے ہو، اپنی عورت کو اتنی آزادی دی ہوئی ہے۔ کوئی شرم حیا نہیں رہی۔“ برادری نظام کے گن گانے والے ہم، جمہوریت کی مغربی طرز کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، جہاں فرد کو ہمارے یہاں کی نسبت زیادہ آزادی حاصل ہے۔ کوئی کسی کے ذاتی معاملے میں دخل اندازی نہیں کرتا، کرتا ہے تو ایسا کرنے والے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ یہ ایک پیکج ہے، جب تک آپ مغرب کے شہری کی طرح نہیں سوچتے، تب تک مغربی نظام کا خواب بھی مت دیکھیں۔ ہمارا نظام ویسا ہی ہے، جیسا کہ ہم خود ہیں۔ تضادات سے بھرپور۔

ہمارے یہاں مغرب کا ذکر ہو، مغرب کی عیش کوشی کی بات نہ چلے، یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم سیکس کو عیاشی سمجھے ہوئے ہیں؟ عیاشی کی تعریف کیا ہے؟ اس کے لغوی معنی، ”تماش بینی، عیش پرستی، بے راہ روی، اوباشی“ کے ہیں۔ عیش پرستی کا مفہوم ہے، نفس پرستی۔ ضرورت سے زیادہ کا حصول عیاشی سمجھا جاتا ہے۔ ضرورت کیا ہے اور اس کا تعین کون کرتا ہے؟ ایک متمول شخص کی ضرورت، ایک مفلس کی نظر میں عیاشی ہو سکتی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ عیاشی سے مراد شباب اور شراب لیا جاتا ہے۔

جن دنوں میں گجرات میں پڑھنے گیا، شام کو ایک سرامکس فیکٹری میں کام کیا کرتا تھا۔ اس فیکٹری کے مالک عمر میں مجھ سے دس سال بڑے ہوں گے، لیکن ان سے انتہائی دوستانہ تعلق رہا۔ وہ کہتے تھے کہ میں اپنے ماں باپ کے سامنے اپنی بیوی کی طرف آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھ سکتا۔ اسے پکار نہیں سکتا۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ والدین کے سامنے ہم میاں بیوی ایک چارپائی پر بیٹھ جائیں، یہ بھی نہیں ہے کہ ایک کمرے میں سوتے ہوں۔ کیوں کہ ان کے خاندان کی یہی تہذیب تھی، کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے ان جان بنے گھومتے رہیں، جیسے کوئی دو اجنبی ہوں۔ وہ بتاتے تھے کہ انھیں اپنی ہی بیوی سے مجامعت کرنے کے لیے بیوی کے مویشیوں کے باڑے میں جانے کا انتظار ہوتا تھا۔ جب وہ بھینس کو چارہ ڈالنے جاتی تھی، تو وہاں بھینس کی کھرلی (مویشی کے چارے کا برتن) ان کا بستر بنتی تھی۔ یہ باتیں سن کے ہنسی آتی تھی، کہ یہ کون سی دنیا ہے، لیکن دیہی سماج میں آج بھی ایسی دنیا کے نظارے کیے جا سکتے ہیں۔ گویا مجامعت فعل ہی ایسا گھناونا ہے، کہ جس سے مباشرت کی اجازت ہو، سب کے سامنے اس کی طرف دیکھو بھی نہیں، کیوں‌ کہ یہ ”بے غیرتی“ ہے؛ کوئی چاہے جتنا ہنسے ”غیرت“ کا یہ تصور بھی تو اسی معاشرے میں ہے۔ یعنی اپنی بیوی یا شوہر کو دیکھنے کا ایک ہی مطلب ہوگا، کہ جنس کی بھوک ہے، اس کے سوا دوسرا مطلب ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسے مرد، ایسی عورت کی نظر میں وہی لمحہ ”عیاشی“ متصور ہوگا، جب وہ دنیا سے چھپ کر کہیں کماد میں (گنے کی فصل) یا مویشی کے باڑے میں ملتے ہوں گے۔

ایسا شخص جو ایسے ماحول کا پروردہ ہو، اس کی نظر میں شہر کے لوگ بے غیرت ہیں، جو اپنی عورت کے پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔ عورت کو مرد کے پیچھے ہی چلنا چاہیے، جیسا کہ انھوں نے اپنے بڑوں کو دیکھ رکھا ہے۔ کسی لڑکی نے پینٹ پہنی ہے تو آوارہ ہی ہوگی، کیوں کہ وہ باقیوں سے منفرد دکھتی ہے۔ مغرب کو بھی ہم ایسے ہی اپنی تربیت اپنے ماحول کی کسوٹی پہ پرکھتے ہیں۔ غیرت تو یہ ہونی چاہیے کہ ہم کسی کے ذاتی معاملے میں مداخلت نہ کریں؛ کسی کو گالی نہ بکیں، کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں۔

اب یہ سوال کہ ”سیکس“ پر بات ہی کیوں کی جائے، اور بھی تو بہت سے موضوع ہیں؟ جوابی سوال ہے کہ اس موضوع پر پابندی کیوں لگائی جائے؟ کبھی آپ نے سنا ہو، کہ کھانا پکانے کی ترکیب بیان ہو رہی ہو، تو کوئی کہے ”کھانا پکانا ہی تو زندگی نہیں ہے“۔ ہمارے یہاں سیکس کی بات ہو تو یہ جواب متوقع ہوتا ہے۔ ”یہی تو ایک کام نہیں ہے“۔ یقینا یہی ایک کام نہیں ہے، لیکن تسلیم کیجیے کہ یہ بھی ایک کام ہے۔ کہا جاتا ہے ”انسان کو زندہ رہنے کے لیے کھانا چاہیے، نہ کہ وہ کھانا کھانے کے لیے زندہ ہو“۔ اسی طرح کہا جا سکتا ہے، کہ ”انسان کی زندگی کا مقصد مجامعت نہیں ہونا چاہیے، لیکن مباشرت کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔“ کھانا پکانے کی تراکیب کی طرح، کھانا کھانے کے آداب کی طرح، مباشرت کے اطوار پر، اس کے آداب پر بھی بات ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ کھانے کی بھوک کی طرح یہ بھی تو ایک بھوک ہی ہے۔ معززین کا جنسی رویوں پر گفت گو کرنے سے طیش میں آ جانا ایک حقیقت کا انکار ہے یا اس سے فرار کی کیفیت؛ جب کہ یہی کچھ ہم چھپ کے کریں تو جائز ہو جاتا ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran