ریاست مدینہ یا پوٹن کا روس؟


Pakistan Journalist Hamid Mir

کہنے کو تو عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں لیکن گزشتہ اتوار کو انہوں نے، جو دو صدارتی آرڈی نینس جاری کیے، وہ تو کچھ اور ہی بتا رہے تھے۔

ان صدارتی آرڈی نینسوں کے ذریعے ایک طرف تو فیک نیوز روکنے کے نام پر آزادی اظہار کا گلا دبانے کی کوشش کی گئی اور دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات میں مداخلت کی گئی۔ اتوار کے دن پارلیمان کو بائی پاس کر کے آرڈی نینس جاری کرنے کے پیچھے کیا جلدی تھی؟

کیا کوئی بہت بڑا اسکینڈل منظرعام پر آنے والا ہے، جسے روکنے کے لیے چھٹی کے دن صدارتی حکم نامہ جاری کیا گیا یا عمران خان روس کے دورے سے پہلے پہلے پاکستان میں روس جیسا نیم صدارتی نظام نافذ کرنا چاہتے تھے؟

جس دن عمران خان روس کے دورے پر روانہ ہو رہے تھے، اسی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر جی ایم جمالی اور سیکرٹری رانا عظیم کی طرف سے رضوان فیض قاضی کے ذریعے پیکا آرڈی نینس 2022 ء کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست کی سماعت تھی۔

ہم صبح صبح اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں پہنچے تو مطیع اللہ جان اور طارق عثمانی ہم سے پہلے وہاں موجود تھے۔ پہلا کیس محسن بیگ سے متعلق تھا۔ مختصر سماعت کے بعد اس کیس میں تاریخ دے دی گئی۔

دوسرا کیس پیکا آرڈی نینس 2022 ء کے خلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر تھا۔ پی ایف یو جے کے وکیل عادل عزیز قاضی نے عدالت کو بتایا کہ پیکا ایکٹ 2016 ء میں ترامیم کر کے ایف آئی اے کو کسی شکایت کی انکوائری کے بغیر گرفتاری کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ کون سا سیکشن ہے؟ وکیل صاحب نے سیکشن 20 کو تفصیل سے پڑھ دیا اور عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کو انکوائری کے بغیر گرفتاری سے یہ عدالت خود روک چکی ہے اور وہ کیس ابھی زیرسماعت ہے لہذا چیف جسٹس نے پیکا آرڈینینس 2022 ء کے سیکشن 20 کے تحت ایف آئی اے کو گرفتاریوں سے روک دیا۔

چیف جسٹس نے 24 فروری کو اٹارنی جنرل کو عدالت میں طلب کر لیا۔ عدالت کا حکم صرف میڈیا نہیں بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی ایک بڑا ریلیف تھا۔ عمران خان نے مذکورہ صدارتی حکم نامے کے تحت فیک نیوز کا راستہ نہیں روکا تھا بلکہ ایف آئی اے کو گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دے دیے تھے۔ یہ ویسے ہی اختیارات تھے، جیسے روس میں صدر پوٹن کی حکومت میڈیا اور اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

عمران خان کے دورہ روس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے اور اس ٹائمنگ پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن حیرت یہ ہے کہ ایک طرف عمران خان روس جانے سے قبل صدارتی حکم ناموں کے تحت پاکستان کو روس بنانے کی کوشش میں تھے تو دوسری طرف ان کے وزراء اس دورہ روس میں سے کوئی بہت بڑا انقلاب برآمد کرنے کی کوشش میں تھے۔

ایک وزیر تو یہ کہتے سنائی دیے کہ گزشتہ 23 برسوں میں یہ کسی پاکستانی رہنما کا پہلا دورہ روس ہے۔ وزیر صاحب کا بیان بھی فیک نیوز کے زمرے میں آتا ہے کیوں کہ 2011 ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری روس کا دورہ کر چکے ہیں۔ دورہ روس سے قبل عمران خان نے ایک روسی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا اور روس اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔

امریکا اور روس کو مذاکرات کا مشورہ ایک ایسے وزیراعظم دے رہے ہیں، جو کسی بھی اہم مسئلے پر اپنے ملک کی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات نہیں کر سکتے۔ جس وقت عمران خان ماسکو میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کا لطف اٹھا رہے تھے، اس وقت لاہور میں ان کے اتحادی چودھری پرویز الہیٰ، مونس الہیٰ، طارق بشیر چیمہ اور مسلم لیگ (ق) کے دیگر ارکان پارلیمان سابق صدر آصف علی زرداری کی میزبانی میں مسکراہٹوں کا تبادلہ کر رہے تھے۔ اس سے قبل 23 فروری کی دوپہر کو لاہور میں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان بھی تفصیلی ملاقات ہو چکی تھی۔

بہت سے دوست یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کو مطلوبہ ارکان قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہو چکی ہے تو پھر دیر کس بات کی؟ سوال بہت اہم ہے اور اس خاکسار نے بھی اپوزیشن رہنماؤں سے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ معاملہ کہاں پھنسا ہوا ہے؟

معلوم یہ ہوا کہ لندن میں مقیم سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری ایک دوسرے کے ساتھ مستقل رابطے میں ہیں۔ دونوں میں بہت سے معاملات طے ہو چکے ہیں۔ دونوں کو کسی تھرڈ پارٹی نے ایجنڈا نہیں دیا بلکہ یہ دونوں احتیاط کے ساتھ آہستہ آہستہ مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف کے ساتھ مل کر ایک ایکشن پلان بنا رہے ہیں، جس میں صرف مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم پاکستان نہیں بلکہ جہانگیر ترین گروپ کے لیے بھی گنجائش نکالی جا رہی ہے۔

زرداری صاحب چاہتے ہیں کہ وزارت عظمیٰ مسلم لیگ (ن) سنبھالے۔ مسلم لیگ ( ن) کا اصل مقصد وزارت عظمیٰ لینا نہیں بلکہ 2022 ء میں نئے انتخابات کرانا ہیں۔ عمران خان کا خیال تھا کہ نواز شریف اور آ صف علی زرداری میں کبھی مفاہمت نہیں ہو گی لیکن نواز شریف اور زرداری صاحب نے اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کی ہے، جس کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمان کو بھی جاتا ہے۔ مولانا صاحب نے مسلم لیگ (ن) کو تحریک عدم اعتماد کے لیے اس بنیاد پر راضی کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے۔

مسلم لیگ (ن) میں کچھ دوست اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ ٹیلی فون کالوں کا سلسلہ ابھی بند نہیں ہوا تاہم دوسری رائے یہ ہے کہ ٹیلی فون کالیں کسی خفیہ ادارے کی جانب سے نہیں آ رہی ہیں بلکہ پشاور میں بیٹھے ایک صاحب انفرادی طور پر سیاست میں مداخلت کر رہے ہیں۔

اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے ہمیں نہیں معلوم لیکن یہ ضرور بتایا جا رہا ہے کہ کچھ اپوزیشن رہنماؤں کے پاس ثبوت موجود ہیں، جو بوقت ضرورت پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اپوزیشن کے کچھ دوست یہ سوچ سوچ کر بھی پریشان ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ واقعی نیوٹرل رہی اور عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو اس کے بعد کیا ہو گا؟

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عوام کے مسائل کا فوری حل کسی کی ترجیح نہیں ہو گا۔ نئی حکومت نئے انتخابات کی تیاری شروع کر دے گی اور کہا جائے گا کہ نئے مینڈیٹ کے بعد عوام کے مسائل حل کیے جائیں گے۔

کیا نئے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر آمنے سامنے آ جائیں گی؟ اگر ان دو بڑی جماعتوں کی قیادت نے ایک دفعہ پھر آپس میں لڑنا شروع کر دیا تو عمران خان فائدہ اٹھانے کے لیے میدان میں آ جائیں گے لیکن آنے والے وقت میں عمران خان کی اصل اپوزیشن مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی نہیں ہو گی بلکہ پاکستان کا میڈیا ہو گا، جس سے خان صاحب پوٹن بن کر نمٹنے کی کوشش میں ہیں۔

بشکریہ ڈوئچے ویلے اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments