کچھ بیوقوف ووٹروں کی شان میں


لیڈر بھلے کسی دوسرے کے ووٹر کو ہی بیوقوف بولے تو ایک بات یقینی ہے۔ اس لیڈر کو یقین ہے کہ اس ووٹر کے کان نہیں ہیں۔ یہ سنتا نہیں ہے، جب سنتا نہیں ہے تو ردعمل بھی نہیں دے گا۔ اس لیے لیڈر نے اپنے اطمینان کے لیے انہیں صرف بیوقوف نہیں کہا انہیں پاگل بھی کہا ہے۔ اپنی پوری طرح تسلی کی ہے۔

آج کل سیاست پر کچھ لکھنے سے گریز اختیار کر رکھا ہے۔ زبردستی کی یہ پابندی خود اپنے اوپر لگائی ہے تو کسی لیڈر کا نام لکھنے سے بھی پرہیز ہی کرنا ہے۔ جو کہانی پانامہ نہر میں ہی ڈوب مرنے کے قابل تھی۔ ہم نے اس کو لے کر اپنے وطن میں بڑا تماشہ لگایا۔ آپس میں اتنا تقسیم ہوئے اک دوسرے کو اتنی سنائیں کہ اکثر بات چیت سے بھی جاتے رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے نظریں بھی نہیں ملاتے ہیں۔ خیر ہے ہمیشہ کی طرح یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ ہماری شوقن میلے والی طبعیت ہمیں پھر مل بیٹھ کر قہقہے لگانے پر آمادہ کر دے گی۔

بیوقوف ووٹروں کا ذکر ہوا تو چاہا کہ ذرا اس پر کچھ شئرنگ کی جائے۔ پاکستان میں ووٹر فیصلے کیسے کرتا ہے اس پر ہم غور نہیں کرتے۔ ووٹر اگر سندھی ہے تو آج کے دن اس گزرتی گھڑی تک اس کا فیصلہ ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ اگر اسلام آباد میں سندھی راج لانا ہے تو اس کا روٹ صرف اور صرف پی پی ہے۔ آپ لگاتے رہیں کرپشن کے الزام زرداروں کی جان کو روئیں۔ بھٹو کا مذاق اڑائیں کچھ کہیں سندھی ووٹر پی پی کو ہی جتوا کر ہاتھ جھاڑے گا کہ سائیں ہم آ گئے تم میں دم ہے تو روک لو۔

کے پی کا ووٹر آزاد ووٹر ہے۔ وہ جمہوری مزاج رکھتا ہے آپ میں جرات ہے تو اسے دبا کر دیکھ لیں اگر دبا سکتے ہیں۔ اس نے صدیوں پرانے اپنے جمہوری مزاج جرگوں سے سیکھا ہے کہ انسان برابر ہیں۔ مزارع خان کے سامنے چارپائی پر بیٹھتا ہے۔ جرات سے اپنے حق کی بات کرتا ہے۔ تنازعہ بڑھ جائے تو مارا ماری ہوتی ہے نیچے کوئی نہیں لگتا۔ یہ ووٹر سزا دینے کا مزاج رکھتا ہے۔ اس سے بھی پہلے یہ ہر کسی کو اس کے دعوے پر آزماتا ضرور ہے۔ آپ اس ووٹر کی تعریف کریں کہ اس میں بہتری کی تبدیلی کی ترقی کی لگن اتنی شدید ہے کہ وہ ہر بار سیاست میں نئے گھوڑے پر رسک لیتا ہے۔ ایسا کرتے وہ نہ تو گھبراتا ہے نہ اسے کوئی پچھتاوا ہوتا ہے وہ بس اگلی بار اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے کے پی کے ووٹر کو دل سے داد ضرور دیں۔

اسلام آباد کی حکومت کا فیصلہ صرف سنٹرل پنجاب کا ووٹر کرتا ہے۔ یہ اصل میں تین ڈویژن ہیں آپ ان کو کھینچ کر ساہیوال پنڈی سرگودھا ڈویژن تک لے جا سکتے ہیں۔ ایسا کر کے آپ کو بات سمجھ نہیں آئے گی۔ گجرانوالہ، فیصل آباد اور لاہور یہ وہ تین ڈویژن ہیں جو پاکستان میں اقتدار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان تینوں کے فیصلے کی تائد سرگودھا، پنڈی اور ساہیوال کرتے ہیں۔ یہ سو کے قریب قومی اسمبلی کے حلقے ہیں۔ ان علاقوں کا فیصلہ دیکھ کر ہی سرائیکی بیلٹ کے زمیندار خود کو مجبور پاتے ہیں کہ وہ ان کے پیچھے چلیں۔ انہیں اقتدار میں بھی تو رہنا ہے۔

واپس آتے ہیں ان تینوں ڈویژن کی جانب دیکھتے ہیں یہاں ایسا کیا ہے جو باقی پاکستان سے الگ ہے۔ ان تینوں ڈویژن میں جاگیردار کوئی باقی نہیں بچا ہے۔ کوئی نواب اگر ہے تو بس نام کا ہی باقی رہ گیا ہے۔ ان تینوں جگہوں پر تقسیم کے بعد مہاجرین آ کر آباد ہوئے۔ ان تینوں ڈویژن میں کشمیری شہروں میں آباد ہوئے ہیں۔ ادھر اک ذرا نسل پرستانہ سا کمنٹ کرنے دیں۔ کشمیری جہاں بھی ہوں وہ صلح جو کاروباری تعلیم یافتہ لوگ ہونے کا ہی تاثر رکھتے ہیں۔ لیکن ان علاقوں میں رہنے والے کشمیری صلح جو ہر گز نہیں ہیں آگے بڑھ کر لڑائی مول لینے کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ مزاج کا یہ فرق کیسے آیا اس پر بڑے دلچسپ تبصرے سن رکھے ہیں پھر کبھی۔ جاٹ ارائیں راجپوت گجر یہ سب ان علاقوں میں ڈھیروں ڈھیر ہیں۔ یہ مقامی بھی ہیں اور مہاجر بھی۔

ان علاقوں کا باقی پاکستان سے ایک بہت بڑا فرق ہے۔ یہاں ایسے ضلع اور تحصیل ہیں جن کی فی کس آمدنی پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ ایک پاکستانی کی اوسط آمدن ہزار ڈالر کے اردگرد رینگتی پھر رہی ہے۔ سیالکوٹ کی فی کس آمدن دس ہزار ڈالر کے قریب بتاتے ہیں۔ ناروے میں کھاریاں کے اتنے لوگ ہیں کہ اس کا نام بدل کر کھاروے رکھنے کا مذاق عام ہے۔ چینی ساری دنیا میں اپنے ہنر پر اچھلتے پھرتے ہیں۔ سنٹرل پنجاب کے ان اضلاع کے لوگوں پر ویزہ کی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ فیصل آباد بھی یہیں ہے اس کے بارے میں آپ اپنے اندازے لگانے میں آزاد ہیں۔ آج کل وہاں کاروباری حالات کوئی بہت اچھے نہیں ہیں۔

کہنا یہ ہے کہ کراچی جو پاکستانی معیشت کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ اس کراچی کو بھی سنٹرل پنجاب کے اضلاع تحصیلیں آمدن میں اور کاروبار کے مواقع میں بڑا بھرپور چیلنج کرتے ہیں، کہیں کہیں تو ہراتے بھی ہیں۔ لیڈر اس ووٹر کا واقف نہیں ہے۔ یہ وہ ووٹر ہے جو کسی بھی کام کے لیے اپنی تحصیل سے باہر نہیں دیکھتا۔ یہ ووٹر اپنے مزاج میں امریکی ہے۔ وہ ایسے کہ جیسے ایک امریکی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ باقی دنیا میں کیا ہو رہا۔ اس شہزادے ووٹر کو بھی ذرا پروا نہیں کہ باقی پاکستان میں کیا چل رہا۔

اب معذرت کے ساتھ یہ ووٹر نہ باچا خان سے واقف ہے، نہ بلوچستان کی ناراضگی کو جانتا ہے اور نہ سندھی ووٹر کی حساسیت اس کا مسئلہ ہے۔ الطاف بھائی کو بھی یہ حیران حیران ہی دیکھتا ہے۔ کے پی بلکہ فاٹا کا ایک عام قبائلی زندگی گزارنے کے لیے اپنے اردگرد تین چار کام ہی دستیاب پاتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کام میں آ جائے، ٹرانزٹ ٹریڈ کر لے، اسلحہ یا پوڈر کا آپشن آزما لے، نوکر ہو جائے، کوئی دکان ڈال لے یا پھر مزدوری کے لیے باہر نکل جائے۔ سنٹرل پنجاب کے اس ووٹر کے پاس روزگار کے لیے سینکڑوں آپشن ہیں۔ کسی ایک آپشن کے لیے بھی اسے علاقہ چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ وہ شاید ہی کسی کام کے لیے حکومت کا ویسا محتاج ہے جیسا باقی پاکستان والے ہیں۔ جب انہیں طلب محسوس ہوتی ہے تو سیالکوٹ والے اپنا نجی ائرپورٹ خود بنا لیتے ہیں۔ یہی علاقے ہیں جہاں تقسیم کے بعد کلیم کے نام پر لوٹ مار ہوئی۔ اسی علاقے میں بھارت مخالف جذبات بھی زوروں پر رہتے ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں ہمارا عدالت سے نا اہل قرار پانے والا لیڈر سب کو ایک بار پھر دکھا چکا ہے ہے کہ یہ ووٹر کدھر کھڑا ہے۔ بیوقوف اور پاگل پر سوچتے رہیں غور کرتے رہیں۔ ایسا کریں گے تو کبھی روئیں گے کبھی ہنسیں گے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi