ہندو مسلم سکھ عیسائی، کیا ہم سب ہیں بھائی بھائی؟


عین اس وقت جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کے قاضی القضاۃ کو انسانی برادری کے ایک بڑے گروہ ’’ہندو‘‘ کا نام لینے میں ایک ’’خاص درد‘‘ محسوس ہور ہا تھا اسی وقت برطانیہ کے شہروں مانچسٹر اور لندن میں ہونے والی پروقار تقاریب میں مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی اوریہودیوں سمیت اور بھی مذاہب کے افراد آدم ڈے کے نام سے ہونے والی تقاریب میں شریک تھے۔ دونوں شہروں میں ہونے والی تقاریب سے عصر حاضر کے عظیم صوفی حضر ت خواجہ شمس الدین عظیمی نے ویڈیو خطاب بھی کیا۔ آدم ڈے منانے کا آغاز سلسلہ عظیمیہ کے سربراہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے ہی پندرہ برس پہلے مانچسٹر سے کیا تھا۔ آج پندرہ برس بعد آدم ڈے یورپ، امریکہ اور پاکستان کے کئی شہروں میں بھی منایا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ گٹر کا ڈھکن چوری ہونے پر آسمان سر پر اٹھانے والا میڈیا اس طرف متوجہ نہیں ہوتا، اس لئے کہ ریٹنگ نہیں ملتی۔

بہر حال آدم ڈے منا نے کا مقصد بلا تفریق مذہب و ملت تمام نو ع انسانی کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔ تعلق کسی بھی مذہب سے ہو لیکن یہ بات ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے کہ ہم حضرت آدم اور حضرت حوا کی اولاد ہیں۔ حضرت آدم اور حضرت حوا کی اولاد ہونے کے ناطے ہم سب انسان ایک دوسرے کے بہن بھائی ہیں اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی دنیا کے سامنے یہی پیغام رکھنا چاہتے ہیں کہ جس طرح ایک گھر میں بہن بھائی باہم شیر شکر پیار اور محبت سے زندگی گزارتے ہیں اسی طرح دنیا کے تمام مردو ں اور خواتین کو ایک دوسرے کے ساتھ بہن بھائیوں کی طرح پیش آنا چاہیے۔ آدم ڈے کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ دنیا کے تمام انسان چونکہ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں تو ان کے حقو ق و فرائض بھی ایک جیسے ہی ہیں۔

رنگ، نسل، مذہب یا عمر کی بنیاد پر کسی کے بنیادی حقوق کو معطل کرنا تو درکنار ان میں کسی قسم کی کمی بیشی بھی معاشرے میں بگاڑ پید اکرتی ہے۔ معاشرے کا ایک فرد ہونے کے ناطے ہم اپنے جن حقوق کے تحفظ کی بات کرتے ہیں بعینہ وہی حقوق اس معاشرے کے دوسرے افراد کو بھی حاصل ہیں اور معاشرہ اسی صورت میں مثالی ہو سکتا ہے کہ ہر فرد دوسرے کے حقوق کا احترام کرے اور اپنے فرائض احسن طریقے سے بجا لائے۔ ہر فرد جب اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرے گا تو اس سے ایک ایسا سلسلہ جنم لے گا کہ ہر فرد کے حقوق کا تحفظ یقینی بن جائے گا۔ شاید نویں یا دسویں کلاس میں ہمیں اردو کی نصابی کتاب میں نظیر اکبرآبادی کی ایک نظم پڑھائی گئی تھی۔

دنیا میں پادشہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھار ہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ابدال، قطب و غوث، ولی آدمی ہوئے
منکر بھی آدمی ہوئے اور کفر کے بھرے
کیا کیا کرشمے کشف و کرامات کے لئے
حتی کہ اپنے زہد و ریاضت کے زور سے
خالق سے جا ملا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
فرعون نے جو دعوی کیا تھا خدائی کا
شداد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا
نمرود بھی خدا ہی کہاتا تھا برملا
یہ بات ہے سمجھنے کی آگے کہوں میں کیا
یاں تک جو ہو چکا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

نظیر اکبرآبادی کا آدمی نامہ ایک شاہکار منظوم ہے۔ کلاس میں جب استاد محترم اس کی تشریح کیا کرتے تھے تو سب کچھ سمجھنے کے باوجود ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ لیکن آدم ڈے منانے کے پیچھے جو ذہن کارفرما ہے اس نے نظیر اکبرآبادی کایہ کلام ایسے سمجھایا ہے کہ اب یہ بھولنے کا نہیں۔ اصل بات یہ ہے خالق کائنات نے ’’انسان‘‘ کو اپنی صفات پر پیدا کر کے انسانیت کے بلندو بالا مرتبے پر فائز کیا لیکن حضرت انسان نے گروہ بندی اور فرقہ واریت کی ایسی نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کی کہ انسانیت کے بلند مرتبے سے گر کر گروہ بندیوں میں بٹا اور شرف انسانیت سے دستبردار ہو کر آدمی بن گیا۔ گروہوں میں بٹے اس آدمی نے معاشرے کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا وہ سب ہمارے سامنے ہے۔ انسانی اوصاف اور کردار لگتا ہے کہیں گم ہوگیا اور خال خال جہاں موجود ہے وہاں بھی حالت یہ ہے کہ اس کی ستائش کرنے والا کوئی نہیں۔

بحیثیت مسلمان جب تک ہم کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبران کرام پر ایمان نہیں لاتے ہمارا دین مکمل نہیں ہوسکتا۔ جب ہم پیغمبران کرام کی بات کرتے ہیں تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خالق کائنات کے یہ بر گزیدہ بندے انسان کا اس کے رب سے ایک تعلق جوڑنے کے لئے اس مادی دنیا میں تشریف لائے اور اس کے لئے ان کے پاس آسمانی کتابوں یا صحائف کی صورت میں ایک منشور یا نصاب موجود تھا۔ با لکل اسی طرح جیسے ہم دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کی ساکھ اور ان کے اوصاف کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی تو کر سکتے ہیں لیکن ان میں پڑھائے جانے والے نصاب کوباہم مختلف ہونے کی وجہ سے ان کا ابطال نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ بنیاد اس نصاب کی ایک ہے۔ اسی طرح انبیا ء کی تعلیمات کا انکار یا ابطال عقل مندی نہیں بلکہ جہالت ہے، ایک فرد اگر حضرت عیسیؑ ، حضرت موسیؑ یا حضرت داؤد کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟ ایک پیغمبر کی تعلیمات پر ایمان لانے والا کو ’کافر‘ کیسے کہاجا سکتا ہے۔ ایک بھائی اگر فقہ حنفی پر کاربند ہے تو دوسرا فقہ مالکی کا پیروکار ہو سکتا ہے، ایک شافعی ہے تو دوسرا جعفری بھی ہوسکتا ہے لیکن اس بنا پر ہم ایک دوسرے کے خلاف اپنے دل میں نفرتیں پال لیں تو یہ دنیا جہنم بن جائے گی جیسا کہ ہم نے بنا دی ہے۔ عقل اگر استعمال کی جائے تو خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں تمہارے پاس کوئی نئی چیز لے کر نہیں آیا بلکہ میں وہی لے کرآیا ہوں جو میرے سے پہلے انبیا ء لے کر آئے۔ ان حقائق کو مد نظر رکھ کر اگر ہم انسان کو پرکھیں تو غلطی کا احتمال بہت کم رہ جاتا ہے۔

رنگ، نسل، قبیلے یا مذہب کی بنیاد پر انسانوں کی شناخت تو کی جاسکتی ہے لیکن کسی بھی انسان کے بنیادی حقوق تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ اسلام جب برملا یہ کہتا ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں تو کھلے دل سے اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ مذہب کا انتخاب ایک فرد کا بنیادی حق ہے۔ گھروں، محلوں، شہروں یا ملکوں میں جو لڑائیاں اور جنگیں ہوتی ہیں ان کا واحد سبب یہ ہے کہ ہم دوسروں کی رائے کا احترام نہیں کرتے۔ جب کوئی فرد اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرتا ہے تو فساد کا بیج اسی وقت بو دیا جاتا ہے۔ سو دوستو! زندگی کے کسی بھی شعبے میں آپ کی رائے آپ کو بہت عزیزہو سکتی ہے لیکن یا درکھیے کہ یہی معاملہ دوسرے افراد کے ساتھ بھی ہے۔ سو ایک دوسرے کے لئے اپنے دل اور معاشرے میں جگہ پید ا کیجئے، تنگ نظری، تنگ دلی اور کھٹور پن کی بجائے کھلے دل و دماغ اور اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کیجئے اور اپنے بہن بھائیوں کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش کیجئے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).