جرمن حسینائیں آپ کی منتظر ہیں


شام کے بعد گلی کی نکڑ پر بابے روشن کی قلفے والی ریڑھی کھڑی ہوتی تھی۔ ہم تین چار لڑکے ہر شام لائٹ جاتے ہی وہاں جمع ہو جاتے تھے اور پورے محلے کی خفیہ کہانیاں ایک دوسرے سے پوچھنا شروع ہو کر دیتے۔
کون سا لڑکا کس لڑکی کے گھر بجلی کا بِل پکڑانے گیا تھا اور کون سی لڑکی نے کس لڑکے کو دیکھ کر کہا تھا کہ آج موسم بہت سہانا ہے۔

محلے کا کون سا لڑکا بیک وقت کن دو سہلیوں کو محبت نامے بھیج رہا ہے اور کون سی لڑکی نے اسکول سے واپسی پر کس لڑکے کے لیے عید کارڈ پھینکا تھا۔ چھت پر کھڑے کس لڑکے نے یہ ساری کارروائی دیکھی ہے اور جب دونوں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے تو کس نے گلی والے کمرے کی جالی کے اندر سے ان کی باتیں سنی تھیں۔ ایسے تمام ”اہم معاملات“ اسی پارلیمانی ریڑھی پر بیٹھ کر ڈسکس ہوتے تھے۔

اس ریڑھی پر پہلے ہم سے بڑے لڑکے بیٹھا کرتے تھے، جن کے بارے میں محلے میں مشہور تھا کہ یہ کوئی ”شریف لڑکے“ نہیں ہیں۔ وہ اپنے روزگار کی تلاش میں پتا نہیں کہاں کہاں جا چکے تھے لیکن ان کی گدی ہم سنبھال چکے تھے۔

محلے والے شاید ہمارے بارے میں بھی یہی کہتے ہوں کہ یہ کوئی ’شریف لڑکے‘ نہیں ہیں لیکن ہمیں دل سے پتا تھا کہ ہم ”شریف“ ہیں۔ ہم اپنی ہی دنیا میں گم رہتے تھے۔ محلے کی چاچی، تائی، یا کسی چاچے کی پھٹک پڑتے ہی ہماری سرگوشیاں مزید دھیمی ہو جاتیں تھیں یا پھر ایک دم گفتگو کا موضوع نماز، مسجد یا اسکول کی طرف موڑ دیا جاتا تھا۔
انہی دنوں شاہد اعوان نے نوشہرہ ورکاں ہائی اسکول میں ٹاپ کیا تھا اور میرا وہ آئیڈیل بن چکا تھا۔ اب وہ کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اور جرمنی میں اچھی ملازمت کر رہے ہیں۔
ایک دن ریڑھی پر بیٹھے ہم دونوں اپنے مستقبل کے سہانے خواب بُن رہے تھے کہ میں نے اس سے کہا کہ شاہد، میں پڑھائی کے لیے آسٹریلیا جاؤں گا۔

اس نے ایک زور دار قہقہ لگایا اور کہا تم نے آسٹریلیا کے کسی بیچ کی کوئی ڈاکومینٹری تو نہیں دیکھ لی؟
میں اندر سے کچھ شرمندہ سا ہوا اور حیرت سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا چلا؟
اس نے کہا کہ میں نے بھی ایسی ہی ویڈیو دیکھ کر وہاں پڑھائی کرنے کے لیے جانے کا ارادہ کیا تھا۔

ہو سکتا ہے کہ کچھ نیک روحیں خالصتاً یونیورسٹیوں کا معیار دیکھ کر باہر پڑھنے جانے کا فیصلہ کرتی ہوں لیکن ہم نے انگلش فلمیں دیکھ کر ہی اپنے ملک کو ترک کرنے اور اپنے ”علم کی پیاس بجھانے“ کے لیے بیرون ملک سفر کرنے کا ارادہ باندھا تھا۔
جب پاکستان میں ہوتے تھے تو مغربی ممالک سے متعلق ساری کی ساری معلومات دو چار انگریزی فلمیں ہی ہوتی تھیں۔ انگریزی فلموں سے یاد آیا کہ میٹرک کےامتحانات کے بعد چھٹیوں میں، میں نے دھڑا دھڑ انگلش فلمیں دیکھنی شروع کر دیں۔ گھر والوں نے بڑا سمجھایا کہ پُتر، وی سی آر کی جان چھوڑ دو۔ لیکن پُتر نیا نیا جوان ہوا تھا۔ میرا ایک ہی جواب ہوتا کہ آگے کالج کی پڑھائی انگلش میں ہے اور انگریزی ٹھیک کرنے کے لیے انگلش فلمیں دیکھنا بے حد ضروری ہیں۔ شاید باقی لڑکے بھی یہی بہانہ کرتے ہوں لیکن میرا یہی ہوتا تھا۔

ایک دن میں ”کلیف ہینگر“ فلم لے کر آیا۔ ابھی فلم لگائے کوئی پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ پیچھے سے دروازہ کھلا۔ میں نے یہی سمجھا کہ بڑی باجی ہوں گی، مڑ کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی لیکن چند ہی سیکنڈز بعد یہ غلط فہمی دور ہو گئی۔
ابا جی حضور تہہ بندھ کے ساتھ لال رنگ کا کُھسہ پہنا کرتے تھے۔ ایک دم تڑاخ کی آواز آئی اور میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ یہ بابرکت آواز چوتھی مرتبہ گونجتی میں چھلانگیں مارتا ہوا قریبی بنکر کی طرف بھاگا اور حسب معمول ٹوائلٹ کی کنڈی لگا کر ابا حضور کے جلالی حملے کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔
اس شاہی عزت افزائی کا اتنا اثر ہوا کہ پھر ابا جی کے نہ ہوتے ہوئے بھی ایک سال تک کوئی فلم دیکھنے کی طرف طبیعت مائل نہیں ہوئی، ٹائٹینک بھی آئی تو ہم نہیں بیلیوں سے کہا کہ یار دل نہیں کر رہا۔

خیر ہم واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ یہ ان انگلش فلموں کا ہی اثر تھا کہ کسی مغربی ملک کا سوچتے ہی یہ خیال آتا تھا کہ گوری چٹی حسینائیں ائیرپورٹ پر اترتے ہی گلے میں بانہیں ڈال لیں گی۔ ایک ہاتھ پکڑ کر ادھر کھینچے گی تو دوسری دل لبھانے والے والے لہجے میں گی کہ ادھر آو، میں کئی برسوں سے تمہارے انتظار میں ہوں، ادھر تو کوئی ایک بھی ”اصلی مرد“ نہیں ہے۔ پاکستان میں تو یہی سنا تھا کہ انگریز ”کھوکھلے“ ہوتے ہیں۔ خیر جب کلبوں اور فلموں کے خیال آتے ہوں تو باہر جانے کو بھلا کس کا دل نہیں کرتا؟
میرا آسٹریلیا کا تو نہیں لیکن جرمنی کا ویزا لگ گیا۔ گاؤں میں جب دیسی عطر لگا رہا تھا تو ذہن میں یہ بھی تھا کہ ایئرپورٹ سے بھی کوئی جرمن حسینہ یا پری ہمیں اُچک سکتی ہے، اب مغرب کے بارے میں میرا تو یہی خیال تھا۔

دبئی سے ڈوسلڈورف آتے ہوئے ایک جرمن لڑکی نے مجھ سے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ تم جرمنی کیوں جا رہے ہو؟ میں نے مسکراہٹ کا اندازہ لگا کر سوچا کہ ابھی تو جرمنی بھی نہیں پہنچا اور علیک سلیک شروع بھی ہو گئی ہیں۔ اس رسمی مسکراہٹ نے ہی ”ہوش اڑا اور ارمان جگا“ کر رکھ دیے تھے اور میں نے دل ہی دل میں اس کے ساتھ ”پِکنک“ بھی منالی تھی۔
دھچکا تو اس وقت لگا جب اس نے ساڑھے چھ گھنٹے کی فلائٹ کے دوران ایک مرتبہ بھی مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ خیر امید کے چراغ بہت روشن تھے لیکن ان چراغوں میں روشنی اس وقت نہ رہی جب ائیر پورٹ پر حسین و جمیل، گھبرو، جوان اور ٹام کروز جیسے جرمن لڑکے دیکھے۔ اسی وقت مایوسی کی ایک لہر دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر گئی کہ ان کے ہوتے ہوئے تو ہماری باری کبھی بھی نہیں آنی۔

ایک پنجابی فلم میں رانی ہیروئن ہوتی ہے۔ ولن اپنے نوکر منور ظریف سے کہتا ہے، جاؤ اوئے، ”رانی نوں چُک کے لے آو“ (جاؤ اوئے، رانی کو اٹھا کر لے آؤ)۔ منور ظریف جواب دیتا ہے، ”پہلی گل تے ایے وے چودھری صاب، او چُکی نہیں جانی، تے جے او چکی ای گئی، تے فیر اساں تواڈے ای ڈیرے تے لیونی اے۔ “ (پہلی بات تو یہ ہے چودھری صاحب، کہ وہ اٹھائی نہیں جانی، اور اگر وہ اٹھائی گئی، تو پھر ہم نے اسے آپ کے ڈیرے پر نہیں لانا)۔

ہمیں بھی جرمنی آتے ہی یہ اندازہ ہو گیا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی ہمارے گلے میں بانہیں نہیں ڈالنی اور اگر ڈالیں بھی تو پھر کم از کم وہ گلا ہمارا نہیں ہوگا۔ خیر عقل ٹھکانے آنے کے چند دن بعد ہی ہم نے ارادہ کر لیا تھا کہ اور کچھ نہیں تو ان حسیناؤں کو اسلام سے روشناس تو کروایا ہی جا سکتا ہے۔
شروع شروع میں محلے کے دوست احباب بڑے شوق سے پوچھتے رہے کہ سناؤ امتیاز، موج مستی میں ہو نا؟ میں نے ایک دو مرتبہ تو انہیں سچ سچ بتایا کہ یورپ میں ایسا نہیں ہوتا جیسا ہم سوچا کرتے تھے، یہاں وہ حسینائیں نہیں ملتی جو انگریزی فلموں میں کام کرتی ہیں۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ میں بدنامی کے ڈر سے اور خود کا پارسا ثابت کرنے کے لیے ان سے جھوٹ بول رہا ہوں۔

جب مجھے یقین ہو گیا کہ یہ میرے کسی بھی سچ پر اعتبار کرنے والے نہیں ہیں تو پھر میں نے بھی مصالحے دار کہانیاں سنانا شروع کر دیں کہ یار یہاں تو لڑکیاں انتظار میں رہتی ہیں کہ کب کوئی پاکستانی لڑکا انہیں ملے اور وہ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے جائیں۔
ایک مرتبہ دوسری طرف سے ہدایت آئی کہ کوئی امیر لڑکی دیکھ کر دوستی کرنا، اسے ہی نہ کسی غریب اور ماٹھی لڑکی کے ساتھ گھومتے رہنا۔
میں نے اس کو جواب دیا بے فکر رہو، تیرا بھائی اب اتنا بھی دل پھینک نہیں ہے۔

میں اب بھی گاؤں جاؤں تو اکثر لڑکے یہی سوال کرتے ہیں۔ سنا ہے اُدھر لڑکیاں شادی کے بغیر بھی کسی کے ساتھ رہ لیتی ہیں۔
مجھے بھی پتا ہے کہ انہوں نے کس بات پر یقین کرنا ہے۔ میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ وہ تو پاکستانی مردوں کو بہت پسند کرتی ہیں، وہ تو ترلے کرتی ہیں کہ کسی طریقے سے پاکستانی مردوں کو ادھر لاؤ لیکن ایمبیسی والے ویزا نہیں دیتے۔

اگر آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہاں ہر موڑ پر لڑکیاں کھڑی آپ کا انتظار کر رہی ہیں تو آپ بالکل ٹھیک سمجھ رہے ہیں۔ میرے کہنے سننے سے آپ پر رتی برابر اثر نہیں ہونا۔
میں تو اب آپ کو بھی یہی کہوں گا کہ جرمن حسینائیں تو آپ جیسے چھ چھ فٹ کے گھبرو جوانوں کے انتظار میں پاگل ہو رہی ہیں اور اگر یقین نہ آئے تو ایئر پورٹ تک آ کر دیکھ لیں۔ ایک حسینہ آپ کا ہاتھ اِدھر کھینچے گی دوسری اُدھر کھینچے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).