منصف اعلیٰ: ترے نثار


سابق وزیر اعظم نواز شریف کے داماد اگر انکشاف کریں کہ میاں نواز شریف کو نظام مصطفیٰ لانے سے روکنے کے لئے ہٹایا گیا ہے۔ اور فرمائیں کہ جس طرح ممتاز قادری کی پھانسی کو عوام نے قبول نہیں کیا اسی طرح نواز شریف کی نااہلی کو بھی عوام نے تسلیم نہیں کیا۔ تو اُن کے پیشہ ورانہ اور سیاسی پس منظر کے باعث یہ بیان ہضم کیا جا سکتا ہے تاہم قابل صد احترام معزز چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے کوئٹہ میں خطاب کے دوران ہندو برادری کا نام لینے سے جس توہین آمیز طریق سے گریز کرتے ہوئے دو قومی نظریہ کی جیسی تشریح فرمائی ہے وہ ایک طرف صاحب فہم افراد کے لئے تعجب و اضطراب کا باعث ہے تو دوسری طرف اس نے ملک بھر کی مذہبی اقلیتوں کو زخمی اور صدمے سے دوچار کیا ہے۔

دو قومی نظریہ کے بارے مختلف آراء ہیں تاہم منطقی اور اصولی امر یہ ہے کہ جناح کے دو قومی نظریہ سے مراد نئی ریاست میں مذہب کی بنیاد پر مذہبی گروہوں کا اخراج نہیں تھا۔ چنانچہ تقسیم ہند کے کسی منصوبہ بندی میں آبادیوں کا انخلا نہیں طے کیا گیا تھا۔ می لارڈ ! آپ کو تو معلوم ہی ہو گا کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے جس دو قومی نظریہ کا خواب دیکھا تھا اُس میں ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ ہوا کرتا تھا۔ کیا قرار داد لاہور میں پاکستان کے قیام کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔ درسی کتابوں کو چھوڑئیے، حقیقت بتائیے۔

 11اگست 1947کو قائد اعظم محمد علی جناح قانون ساز اسمبلی میں پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھاتے ہیں اور حلف لینے والے اجلاس کی صدارت کرنے والے ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل ہیں۔ جس برادری کا آپ نام بھی لینا پسند نہیں فرماتے اسی کے پست ترین طبقہ سے تعلق رکھنے والے جوگندر ناتھ منڈل صاحب کو بعد ازاں قائد جناح وزارت قانون کا قلم دان سونپتے ہیں۔

می لارڈ ! آپ اتفاق کریں نا کریں 1946 کے عبوری بندوبست میں مسلم لیگ کی نمائندگی کرنے والے ہندو جوگندر ناتھ منڈل ہمارے بانی اجداد میں شامل ہیں۔ جناح بھی ایک وکیل تھے۔ انہوں نے مسیحیوں ہندوؤں اور دیگر برادریوں کے نمائندوں سے اگر فرمایا ہوتا کہ تم لوگ پاکستان کی حمایت کرو۔ البتہ ہم تمہارا نام لینا بھی پسند نہیں کیا کریں گے۔ تو کیا مسیحی برادری کے رہنما کہتے کہ ہمارے ووٹ مسلمانوں کے ساتھ شمار کئے جائیں۔ کیا پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر یونینسٹ پارٹی کے ارکان کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے مسیحی رکن اسمبلی ایس پی سنگھا اور اُن کے ساتھی یوں کہہ سکتے تھے: ”سینے پہ گولی کھائیں گے ، پاکستان بنائیں گے”۔ کیا جوگندر ناتھ منڈل بنگال میں مسلم لیگ کو ہندوؤں کے ووٹ دلوانے کے لئے جانفشانی کرتے۔ ہرگز نہیں۔

ہے نا تعجب کی بات کہ 10 اگست 1947ء تک تو قائد کا موقف تھا کہ قومیت کی بنیاد مذہب ہے اور کانگرس (جس میں مولانا ابوالکلام آزاد جیسے جید اور قد آور مسلمان رہنما شامل تھے) کا موقف تھا کہ قوم کی بنیاد وطن ہے۔ غور فرمائیے ! حصو ل مقصد کے بعد جناح پاکستانی عوام پر انکشاف کرتے ہیں کہ نئی مملکت میں قومیت کی بنیاد مذہب نہیں، وطن ہو گا۔ تمام شہریوں کی قومیت پاکستانی۔ گویا جناح کے نزدیک نئی ریاست کے قیام کے بعد دو قومی نظریہ کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی یا دو قومی بیانیہ متحدہ پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا۔

گمان کیا جا سکتا ہے کہ تقریب میں موجود وکلاء نے منصف اعلیٰ کے خیالات کو اُن کی روح کے مطابق قبول کیا ہو گا۔ اور کیوں نہ ہو۔ قومی تعلیمی نصاب کے ذریعے آج کی نسل کے لئے ایسے خیالات کی آبیاری کے لئے پہلے ہی سے زمین ہموار کر دی گئی ہے۔ بلوچستان بھر میں اس کے ممکنہ اثرات کے بارے قیاس آرائی کچھ مشکل نہیں۔ مزید توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ دنوں تک یو ٹیوب اور دیگر ذرائع کی بدولت دیگر صوبوں کے وکلا اور وکالت کی تعلیم حاصل کرنے والے نو خیز وکلا تک منصف اعلیٰ کے ارشادات عالیہ رسائی حاصل کر لیں گے۔ چنانچہ تفرقے کے اِس اشارے کا رنگ اگر چہار سو پھیل گیا تو کوئی تعجب نہیں ہو گا۔

بعید نہیں کہ ایسے خیالات کے زیر اثر کل کلاں کوئی منصف یا منصف اعلی عدلیہ سے جسٹس بھگوان داس کا نام مٹانے کے بعد حکم جاری کرے کہ ریاست میں سے سر گنگا رام، کوٹ لکھپت، جانکی دیوی، گلاب دیوی ، مندروں، باقی بچے قصبات اور محلوں کے ناموں (کوٹ رادھا کشن، وغیرہ) سمیت تمام ہندو نشانات کو حرف غلط کی مانند مٹا دیا جائے۔ ڈاکڑ عبدالسلام کی قبر کو بھی تو ایک قانون دان ہی کے اشارے پر کھرچا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).