ہندُستان کے ایک سہمے ہوئے ناگرک کا نریندر مودی کو کھلا خط


​عزت مآب وزیر اعظم ہند جناب نریندر دمودر داس مودی

آداب و تسلیمات
سارے ہندُستان نے آج اکہترویں یوم آزادی کا جشن منایا۔ آپ نے صبح صبح لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے جہاں بہت سی باتیں کی ہیں، وہیں یہ بھی کہا ہے کہ نیا ہندُستان جمہوریت کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ جمہوریت صرف ووٹ تک محدود نہیں۔ نئے ہندُستان کی جمہوریت ایسی ہوگی جس میں نظام کے بجائے عوام سے ملک چلے گا۔ آپ نے فرمایا، ملک کی سلامتی آپ کی اولین ترجیح ہے؛ ملک کے خلاف ہونے والی ہر سازش کے حوصلے پست کرنے کے آپ اہل ہیں۔ آپ نے خاصے دنوں کے بعد ملک میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ کا بھی ذکر کیا اور کہا ہے کہ عقیدے کے نام پر تشدد کو ملک میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ ملک امن، اتحاد اور خیر سگالی سے چلتا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہماری تہذیب اور ثقافت ہے لیکن پتا نہیں کیوں! مجھے آپ کی باتوں کا عوامی سطح پر کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ تین سال قبل جب آپ اقتدار میں آئے تھے، اس وقت بھی آپ نے اسی قسم کی باتیں کی تھیں مگر حالات دن بدن بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ آپ نے جو وعدے کیے تھے، وہ محض وعدے ہی رہے، جن سے ہم جیسے نوجوان تشویش میں مبتلا ہیں اور اسی تشویش نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں آپ کو خط لکھوں۔

گزشتہ کئی روز سے میرے ذہن میں مختلف قسم کے خیالات ہیجان بپا کیے ہوئے ہیں اور میں انھیں جھٹک کر آگے بڑھ جانے کی کوشش کرتا ہوں۔ صبح سے شام تک اٹھتے، بیٹھتے، کھاتے پیتے، آفس میں کام کرتے ہوئے، ہرجگہ، ہر لمحہ، یہ پریشان خیالی مجھے اطمینان نہیں لینے دیتی؛ ڈھیروں سوالات جنم لیتے ہیں مگر کسی سوال کا کوئی جواب سمجھ نہیں آتا؛ بس ہر طرف وحشت اورتاریکی نظر آتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کوئی مشعل بردار نہیں، کوئی خضر راہ نہیں۔ ایک عجیب خوف ہے، سراسیمگی ہے، بے یقینی اور تذبذب ہے یہ تمام چیزیں دل کے نہاں خانوں میں جاکر ایک ایک کونا پکڑ کر بیٹھ گئی ہیں۔ میں اپنے سوالات کے جوابات تلاش کرنے سے پہلے ہی بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہوں؛ اس لیے نہیں کہ مجھے کوئی بیماری ہے یا میرا کوئی بہت قریبی عزیز مر گیا ہے، یا مجھ پر کوئی مصیبت آن پڑی ہے۔ خدا کا شکر ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تو پھر میں اس قدر پریشان کیوں ہوں؟ بظاہرمیرا بہت بے باک قلم بھی جو میں سوچ رہا ہوں اس کو لکھنے سے کترا رہا ہے، مصلحت سے کام لینے کے لیے کہ رہا ہے؛ اسے ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ میں جذبات کی رو میں کوئی ایسی بات نہ لکھ دوں جس سے آپ کی شان میں کوئی گستاخی ہو جائے اور اس کی وجہ سے مجھے ”غدار وطن“ کہ کر میرے قتل کو جائز قرار دے دیا جائے۔

لیکن یہاں ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ یہ نہ لکھنے سے پہلے، کون سا مجھ کو دیش بھکتی (محب وطن) کا سرٹیفیکٹ مل گیا تھا؟ پھر ڈر کیسا؟ کیوں؟ یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم! اگرآپ کہتے ہیں کہ یہ واہمہ ہے تو خدا کرے کہ پھر یہ واہمہ ہو، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہماری یہ حالت اسی طرح کے واہموں میں گرفتار رہنے کا نتیجہ ہے۔ آج میں ان واہموں سے باہر نکلنا چاہتا ہوں اوراس خوف و بے چینی کی وجہ تلاش کرنا چاہتا ہوں جس نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ میں ایک آزاد ملک میں رہتے ہوئے آزاد ہوں یا زندگی کسی کولیٹرل ڈیمیج کے کنٹینر میں حصار بند ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں پرورش و پرداخت پانے کے باوجود ’سرودھرم سمبھاؤ‘ والے اس قدیم ترین تہذیبی ملک میں، مجھے اجنبیت کا شکار کیوں ہونا پڑ رہا ہے، یا شکار بنایا جارہا ہے!؟ کیوں؟

مجھ جیسا ایک اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والا نوجوان اس محتاط پرندے کی طرح کیوں زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جو دانا چگتے ہوئے چاروں طرف نظر رکھتا ہے کہ مبادا کوئی اس پر حملہ نہ کر دے! کوئی شکاری اسے جھپٹ نہ لے، اس کی آزادی پر قدغن نہ لگادے، اس کا حصہ اس سے نہ چھین لے۔ شاید اس وجہ سے وہ ایک ایسی بستی میں رہنا پسند کرتا ہے، جہاں نوے فی صد سے زیادہ اس کے اپنے بھائی بند رہتے ہیں۔ یعنی کہ گھیٹو (Ghetto) میں رہتا ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جو کسی زمانے میں یہودی بستیوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب یہ لفظ ہماری اجتماعی حالت کی علامت بن چکا ہے۔ وہ گھیٹو میں رہتا ہے پھر بھی اسے یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ خدا جانے کب پوری بستی کو خاک و خون میں نہلا دیا جائے؟ کب بم بلاسٹ کرا کے پورے علاقہ کو تباہی و بربادی کے دہانے پر دھکیل دیا جائے۔ کب اس کے آشیانے کو تہس نہس اور برباد کر دیا جائے۔

اپنے آبائی وطن یا دور دراز کا سفر کرتے ہوئے ٹرین اور بس میں وہ کیوں کر بہت محتاط ہو جاتا ہے؟ گھر سے نکلتے وقت ماں بار بار یہ کیوں کہتی ہے ذرا جی بھر کے دیکھ لینے دو، پھر ملاقات ہوگی یا نہیں کون جانتا ہے؟ زمانہ بہت خراب ہو گیا ہے۔ بوڑھے ابو جو کبھی اسٹیشن چھوڑنے کے لیے نہیں آتے تھے، اب کیوں آتے ہیں؟ اور کیوں بار بار یہ کہتے ہیں کہ سفر میں کسی بھی موضوع پر کسی سے بھی مباحثہ، بات چیت یا الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟ بہن کیوں کہتی ہے، بھیا! اردو کی کتاب بیگ میں رکھ لیجیے آپ کو ٹرین میں پڑھنا ہی ہے تو یہ والی ہندی کتاب یا وہ انگریزی کتاب اوپر رکھیے؛ ٹرین میں اسی کو پڑھیے گا۔ گھر ایک دن نہ فون کرنے پر امی، ابو اور گھر والے سب تشویش میں کیوں مبتلا ہو جاتے ہیں؟ مزید پڑھائی کی چاہ میں دیر گئے رات تک اگر کسی دن لائبریری میں رک جانے کا منصوبہ بن جائے اور احباب کو نہ بتایا ہو تو وہ کیوں پریشان ہو جاتے ہیں کہ اتنی دیر تک روم میں واپس کیوں نہیں لوٹے؟ کہیں کسی پولِس یا اسپیشل سیل والوں نے اٹھا تو نہیں لیا؟ کرتا پاجامہ اور شلوار پہن کر سفر کرتے ہوئے اسے خوف کیوں آتا ہے؟ ایک طالب علم ہونے کے ناتے سے وہ دنیا جہان کے لوگوں سے بات کر سکتا ہے لیکن علم کی طلب کے لیے بہت معتبر اور علم و ادب کے پرستار سینیر اور بڑے پاکستانی فن کار، استاد، ادیب یا قلم کار سے فیس بک پر بھی علمی باتیں کرتے ہوئے اسے دھڑکا کیوں لگا رہتا ہے کہ جانے کب اس کی کون سی بات کو داستان بنا دیا جائے، اور کب اس کی یہ علمی چاہ اسے جیل کی کال کوٹھری میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دے؟

گھر میں بھائی ابو کو کیوں کہتا ہے، ابا! اب آپ گوشت کے شوق کو چھوڑ ہی دیجیے، کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہم گوشت کھائیں، آپ گرچہ بہت چھپا کے کاغذ اور پلاسٹک میں لپیٹ کر لے آتے ہیں، مگر لوگوں کو تو بس بہانہ چاہیے؛ نہیں دیکھتے، آئے دن جنونی ہجوم کس طرح نہتے مسلمانوں کو تشدد اور قتل کا نشانہ بنا رہا ہے، ہم سبزی سے ہی کام چلا لیں گے۔
میری امی کو پتا ا ہے، کہ مجھے بریانی بہت پسند ہے اور وہ توشہ میں لے جانے کے لیے بریانی بناتی ہیں، پیک بھی کر دیتی ہیں، پھر جانے کیا خیال آتا ہے اور بریانی میں سے سارے گوشت چن لیتی ہیں، کیوں کہ پتا نہیں کب، کیا حادثہ پیش آ جائے؟

دہلی جیسے مرکزی شہرمیں آٹو والا جس علاقے میں پہلے ہی سے خوف زدہ نوجوان رہتا ہے، وہاں نہیں جانا چاہتا؛ اسے لگتا ہے کہ اس علاقے میں دہشت گرد بستے ہیں۔ حیدر آباد جیسے بڑے شہر میں اسے کمرا اس لیے نہیں ملتا، کہ وہ مسلمان ہے؛ اپنی شناخت چھپا کر وہ ایک جگہ کرائے کا مکان لینے میں کام یاب بھی ہو جاتا ہے، مگر جیسے ہی مالک مکان کو پتا چلتا ہے کہ وہ مسلمان ہے، اسے جلد از جلد کمرا خالی کر دینے کا الٹی میٹم دے دیا جاتا ہے۔ اس کے ایک رشتے دار کی بچی جوعلاقے کے معروف انگریزی میڈیم اسکول میں تیسری جماعت میں زیر تعلیم ہے اور جس نے ابھی دنیا نہیں دیکھی ہے اور جو ابھی زمانے کے اتار چڑھاؤ سے بھی واقف نہیں ہے، اس بات پرخوشی کا اظہار کرتی ہے کہ اس کا نام ’ماریہ‘ ہے اور اسے یہ نام اس لیے پسند ہے کہ اس کا نام عیسائیوں جیسا ہے اور وہ اپنے اسکول کے بچوں کو نہیں بتانا چاہتی کہ وہ مسلمان ہے؛ مبادا وہ بھی انھی مسلم بچوں کی طرح عتاب کا شکار ہو جائے جن کے بارے میں وہ اکثر سنتی رہتی ہے۔

لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے، واقعات و حادثات کی ایک لمبی فہرست؛ جسے واقعی اگر نوک قلم پر لانے لگوں تو ایک دفتر تیار ہو جائے، لیکن پھر بھی میرے اور میرے جیسے ان لاکھوں نوجوانوں کے سوالوں کا جواب نہیں مل سکے گا، جو ہر دن انتہائی کرب کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں؛ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں ان کی مرضی کے مطابق ملازمت نہیں ملتی۔ انھیں شک و شبہ اور تجسس کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ان کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کیے جاتے ہیں؛ ان کے اداروں کو قومی دھارے سے الگ کہ کر دہشت گردی کا اڈہ کہا جاتا ہے۔ ان کے گھروں میں گھس کرچولھا، فریج اور دیگچی کو چیک کیا جاتا ہے کہ اس کے گھر میں کیا پکا ہے؟

کہاں تک سنیے گا اور کہاں تک سناؤں!؟ لیکن نہیں! سنیے! کہ زندگی حادثہ ہوتے ہوتے کیسے بچی ہے؛ ہم رائیگاں کے ریگ زار میں رزق خاک ہونے سے کیسے بچے؟ عید کا دوسرا دن ہے۔ میں اور میرا دوست وسیم اکرم شہر رانچی سے ایک دوسرے شہر لوہردگا اپنی بہن کو لینے جا رہے ہیں؛ ابھی شہر رانچی کی سرحد میں داخل ہی ہوئے ہیں کہ دیکھتے ہیں، ایک ہجوم سامنے ہے۔ زعفرانی لباس میں ملبوس جنونیوں کا ہجوم؛ ’جیے شری رام‘ کے نعرے لگا رہا ہے؛ ہجوم کے ہاتھوں میں تلوار، بلم، لاٹھی، ڈنڈا اور تیل کے کنستر ہیں؛ وہ ہر گاڑی والے کو روک کر چیک کر رہے ہیں، لوگوں کو نکال کر مار رہے ہیں، انھیں آگ کے حوالے کر رہے ہیں۔ میں موت کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہوں؛ موت کبھی بھی ہماری گاڑی کے شیشے پر دستک دے سکتی ہے۔ اب ہم بچنے والے نہیں ہیں؛ وسیم تسلی دیتا ہے گھبراؤ نہیں، سورہ رحمن کی تلاوت کرو ان شا اللہ! کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے جتنی دعائیں یاد تھیں سب کا ورد کر ڈالا۔ صد شکر خدا نے سن لی! میں نے اپنے کانوں سے یہ آواز سنی۔
”یہ اپنے لوگ ہیں، کٹوا نہیں ہیں سالے! آگ مت لگانا“

وسیم نے کسی طرح گھسٹتے ہوئے اسٹیرنگ گھمایا اور ایک تھانے کے پاس آ کر گاڑی روک دی۔ وہ گاڑی میرے استاد مولانا نسیم انور ندوی کی تھی اور انھوں نے چند روز پہلے ہی ایک ہندو بھائی سے خریدی تھی جس کے آگے ’جئے ماتا دی‘ لکھا ہوا تھا۔ کیا اگر گاڑی پر ’جے ماتا دی‘ نہ لکھا ہوتا تو ہم مار دیے جاتے؟ ہاں! مار دیے جاتے۔

مجھے معلوم ہے، میری اس تحریر پر میرے بہت سے اپنے ہی اعتراض کریں گے، لیکن اگر وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں گے، تو میرے خیال سے خود کو متفق پائیں گے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم کتنے ہی بلند بانگ دعوے کرلیں، اپنی قدیم حضارت و ثقافت، تکثیریت، عقیدہ، مساوات اور سرو دھرم سمبھاؤ کی باتیں کرلیں، ہر جگہ یہ کہتے پھریں، کہ مجھے ”بھارتیا“ ہونے پر ’گرو‘ ہے، لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں میرے لیے اب یہ صرف چند کھوکھلے الفاظ ہیں؛ معنویت سے عاری کلیشے ہیں۔ جب اس قسم کے بے روح الفاظ میری سماعت سے ٹکراتے ہیں تو دل کڑھتا ہے، غصہ بھی آتا ہے اور شرم بھی کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود ہمیں ان پر فخر محسوس کرنا چاہیے یا شرم۔

یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی، کہ کنڈو کمیٹی، سچر کمیٹی، مشرا کمیشن اور نہ جانے اس قسم کی ان گنت کمیٹیوں کی سفارشات ہمیں ہماری حالت بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم دلتوں سے بھی بد تر ہیں، ہم آئے دن کے فسادات کی نذر ہوتے ہیں، جھوٹے مقدموں میں پھنسا کر ہمارے نوجوانوں کو جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ عدالت عالیہ سالوں گزرنے کے بعد ان کو معصوم قرار دیتی ہے لیکن کوئی معاوضہ نہیں ملتا، کوئی سعی غم خواری نہیں کی جاتی۔ ایک جانور کے مرنے پر پوری حکومت اور اس کے کارندے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، لیکن ایک انسان کی موت پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا! پھر بھی میں یہ کہوں کہ مجھے ایک ہندُستانی ہونے پر فخر ہے؟ پتا نہیں کیوں، مگر مجھ سے یہ کہا نہیں جاتا، کہ مجھے ہندُستانی ہونے پر فخر ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں خود سے منافقت کر رہا ہوں؛ خود کو شاید جھوٹی تسلی دینے کی کوشش کر رہا ہوں اور کچھ بھی نہیں!

میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پڑھائی کی ہے، سنا ہے اب آپ کی حکومت اس کا اقلیتی کردار بھی ختم کرنے جا رہی ہے اور اس کے لیے آپ کی حکومت سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرے گی۔ اگر اس کا اقلیتی کردار ختم ہو گیا تو ہم جیسے نوجوان کہاں جائیں گے، جہاں بہت ساری جگہوں پر صرف ہماری شناخت دیکھ کر داخلہ نہیں دیا جاتا۔ پھر ہم غریبوں کے پاس اتنی رقم بھی تو نہیں ہوتی کہ ہم بڑی یونیورسٹیوں میں موٹی رقم دے کر پڑھائی کر سکیں۔ آپ ہمیشہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کی بات کرتے ہیں تو پھر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔

آپ نے لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کے درمیان اِس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ ”ہمیں فرقہ پرستی اور نسل پرستی سے آزاد ہوناہے“۔ اس ’خواب‘ کو حقیقت میں بدلنے کا سپنا آپ کس انداز میں دیکھ رہے ہیں، مجھے اس کا اندازہ نہیں ہے، لیکن اِس بات کا اندازہ مجھے ضرور ہے کہ ’فرقہ پرستی‘ اور’نسل پرستی‘ کے خلاف اب تک آپ کے ذریع کہی گئی باتوں پر خود آپ کے نام لیوا بھی عمل نہیں کر رہے ہیں! حال کے دنوں میں جتنے بھی ایسے ناخوش گوار واقعات رونما ہوئے ہیں، اُن میں سے زیادہ تر معاملوں میں میڈیا کی زبانی جو خبریں سامنے آ رہی ہیں، اور ایسے معاملوں میں جو گرفتاریاں ہوئی ہیں، اُن میں سے کئی معاملوں میں کوئی دوسرا نہیں بلکہ خود آپ کی جماعت سے جڑے لوگوں ہی کو پولِس نے پکڑا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں، جو آپ کے خوش کن نعرہ ”سب کا ساتھ سب کا وکاس“ کا عملاً مذاق اُڑا رہے ہیں۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کی فکرمندیاں، آپ کی وارننگ اور آپ کی پھٹکار کے باوجود ایک خاص طبقے کے ’وناش‘ کی کوشش کیسے ہورہی ہے؟ میری باتوں پر اگر آپ کو یقین نہ آئے تو ’عدم تحفظ‘ کے شکار لوگوں کے ’من کی بات‘ آپ خود سن لیجیے! اپنی اُس ’رعایا‘ کو جسے جمہوری لفظوں میں ”عوام“ کہا جاتا ہے، ”جنتا“ پکارا جاتا ہے، اور جس کا تعلق بطور خاص مسلم طبقے سے ہے، کے ’دردِ دل‘ کوآپ نہیں سنیں گے، تو آخر کون سنے گا؟ آپ پردھان سیوک ہیں؛ آپ کے ’من کی بات‘ ہم سب سنتے ہیں؛ ہمارے ’من کی بات‘ آپ بھی تو سن لیجیے!

امید کرتا ہوں کہ آپ میری فکرمندیوں پر توجہ دیں گے اور میرے جیسے ان لاکھوں نوجوانوں کے اضطراب کو دور کرنے کے لیے جلد از جلد کوئی عملی اقدام کریں گے۔

آداب
ہندُستان کا ایک دکھی ناگرک

محمد علم اللہ
جامعہ نگر۔ اوکھلا، نئی دہلی

 

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 164 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah