سنہ 47ء کی جبری قربانیاں اور ہمیں پڑھایا آدھا نصاب


قربانیاں تو بہت تھیں۔ وہ جن کی قربانی سب سے بڑی مگر سب سے خاموش تھی۔ لکیر کے دونوں اطراف وہ ہزاروں خواتین جنہیں ظلم، جبر، زیادتی، اجتماعی زیادتی، جبراً مذہب کی تبدیلی اور جسمانی سے زیادہ ذہنی اذیت سے گزارا گیا۔ وہ کنویں جس میں داستانیں چیختی رہیں مگر وقت کی سماعتیں کم پڑ گئیں۔ وہ دریا جن میں کرب بہتے رہے مگر کسی نے پرواہ نہ کی۔ جس کو مار کر پھینکا گیا اس کیاذیت تو کم تھی بنسبت اس کے جسے زیادتی کے بعد جبرا مسلمان، ہندو یا سکھ بنکر زندگی کی چکی میں ہر روز پیسا گیا۔ الم کو بھی شاید اپنی شدتیں کم محسوس ہوئی ہوں گی جب اس ماں کا حال دیکھا ہو گا جس نے بیٹی کو اذیت سے بچانے کے لئے اپنے ہاتھ سے اس کا گلا دبایا ہو گا۔ منٹو نے تو ایک سکینہ کا نوحہ لکھا تھا۔ امرتا پریتم نے تو ایک پنجر لکھا تھا مگر داستانیں تو ہزاروں میں تھیں۔ محفوظ نہ کوئی آمنہ لکیر کے اس پار تھی اور نہ کوئی پریت لکیر کے اس پار۔ جن محلوں میں پیدا ہوئیں، جن گلیوں میں بڑی ہوئیں وہی گلی محلے جہنم کی شکل اختیار کر گئے۔ جن ہمسائے کے لڑکوں کو بھائی جان کہہ کر حلوے کھلاتی تھیں یا جن کی شادی کی مٹھائیاں اپنےہاتھ سے بانٹا کرتی تھیں اب وہی لڑکے ان کی عزتوں کے دشمن ہوئے پھرتے تھے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو نیوز نے ایک رپورٹ شائع کی کہ تقسیم ہند کے وقت ایک لاکھ عورتیں زیادتی اور قتل کا شکار ہوئیں۔ اس ایک لاکھ میں کنویں والیاں شامل نہیں، دریاؤں میں بہتی لاشیں شامل نہیں، وہ زندہ لاشیں بھی شامل نہیں جو ساری زندگی کسی اور مذہب کا لبادہ اوڑھ کر جیتی رہیں۔

لکیر کھنچنے کے بعد بھی ایک پنجابی کہاوت کے مصداق اپنوں نے مار مار کے چھاویں ڈالا۔ کہیں پنچایتوں نے کہا کہ روند ڈالو تو کہیں اپنے سگوں نے کہا جلا دو۔ جو جو آواز اٹھا سکی باغی، بد چلن اور کرموں جلی ٹھری۔ ان کے پاس نربھایا ہے تو ہمارے پاس مختاراں۔ وہاں امیر کے کھیت میں دو بہنوں نے رفع حاجت کی تو انہیں زیادتی کے بعد مار کر درختوں سے لٹکا کر نشان عبرت بنایا گیا۔ یہاں ایک ذہنی معذور لڑکی کو زیارت کے بہانے لے جا کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک درندگی سی ہے ان فضاؤں میں۔ کیوں؟ کیونکہ بر صغیر کو جس لکیر سے بانٹا اس لکیر کے نیچے کئیں داستانیں دفن ہیں۔ فضاؤں میں درندگی ہے کیونکہ یہاں کی جڑوں میں ظلم کی آبیاری کی گئی۔ مقصد تھا بدلہ، مقصد آج بھی ہے بدلہ۔ کیونکہ اجارہ داری کو بغاوت ہمیشہ للکارا کرتی ہے۔ جشن مناتے وقت ان قسمت کی ماریوں پہ بھی دو بول پھینک دیا کرو۔ شاید ان کی تکلیف کا احساس ہو پائے۔

ہمیں اندھا کیا گیا تاکہ ہم سچائی نہ دیکھ سکیں۔ ظلم ہوا مگر دونوں طرف ہوا۔ ہمیں صرف مذہب کی پٹی آنکھوں پہ باندھ کر سوال پوچھنے کی جسارت نہ کرنے کا کہا گیا۔ آج منصف اعلی ایک قوم کا نام نہ لے کر قوم کو بتاتے ہیں کہ یہاں چور، غنڈوں، لٹیروں کو صاحب، عزت مآب اور حضرت کہہ لو مگر اس کا نام مت لو جس کو فطرت نے اس کی پہچان دی۔

وہ آزادی جس کا کریڈٹ ہم سب صرف اپنی اپنی پسند کے لوگ اور اپنی اپنی ذات کے بزرگوں کو دیتے ہیں، اس میں ایک بہت بڑی قربانی اس بہادر نوجوان کی بھی تھی جس کا نام تھا بھگت سنگھ۔ جس عمر میں آج کے بچے اسمارٹ فون پہ یا تو شدید نفرت یا پھر شدید محبت کو تلاش کرتے ہیں، یہ لڑکا وہ طریقے دنیا کو سکھا رہا تھا جس سے اس کی زمین کو غلامی اور تذلیل سے نجات مل جائے۔ 23 مارچ 1931 کو وہ صرف 23 سال کا تھا مگر سامراج کے لئے ناقابل برداشت خطرہ بن چکا تھا۔ قرارداد، تحاریک اور جشن سب بہت بعد میں ممکن ہو پائے۔ آگہی اور مطالبہ ایسی بہت سی قربانیوں کے بعد ممکن ہو پائے جب بھگت سنگھ اور اس جیسے بہت سے لڑکوں نے اپنی جان دے کر سامراج کو جھنجھوڑا۔

آزادی اس کے لئے ایک خواب نہیں تھی۔ آزادی اس کا جنون، اس کا مقصد حیات اور جیسے وہ کہتا تھا اس کی دلہن تھی۔ وہ صرف بھارت کا نہیں پاکستان کا بھی ہیرو ہے کیونکہ وہ آزادئی ہندوستان کا ہیرو ہے۔ لاہور جہاں اسے پھانسی دی گئی، وہاں اس کی یادگار نجانے کب تعمیر ہو پائے گی کیونکہ اس کا تعلق ہمارے مذہب سے نہ تھا۔ اگر اس نے بھی یہ سوچا ہوتا تو وہ صرف سکھوں کی آزادی کے لئے لڑتا۔ وہ تو ہندوستان کے لئے مر چلا۔ میرا ہیرو بھگت سنگھ اور مجھے کوئی عار نہیں کہ میرے ہیرو کی فہرست میں ایک سکھ کیوں ہے؟ کیونکہ آج ہم سب جس آزادی کو محض جشن اور ناچ گانے کی نظر کرتے ہیں، اس نے اپنی زندگی اس آزادی کو دی۔ ہمارے ساتھ بڑی نا انصافی ہوئی۔ ہم سے ہمارے ہیرو چھین لئے۔ ہمیں بتایا ہی نہ گیا کہ ہمارا اصل محسن کون کون ہے۔ خود بھگت سنگھ کا کہنا تھا کہ میں ایک انسان ہوں اور ہر وہ چیز جس سے انسانیت کو فرق پڑتا ہے اس سے مجھے فرق پڑتا ہے۔ وہ انسان تھا اس لئے وہ قید میں بھی آزاد تھا۔ ہم سوچ کے قیدی، آزاد ہوکر بھی قید ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).