مغرب میں مقیم دیسی خاندان اور مخلوط نسلی شادیاں


مغرب میں بسنے والے بہت سے مہاجر خاندان اپنے بچوں کی پرورش کے سوال پر ایک ہی وقت میں متضاد خیالات اور آرا رکھتے ہیں۔ ان کے جذبات اور محسوسات کافی پیچیدہ اور گنجلک ہوتے ہیں۔
ایک طرف تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ان کے بچے اعلیٰ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے بہترین تعلیم حاصل کریں گے،اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے ساتھ ہی اچھی نوکریوں پر فائز ہوں گے جن سے ان کے پاس اتنے ڈالر آ جائیں گے کہ وہ ایک خوبصورت گھر، قیمتی گاڑی، مہنگی بادبانی کشتی کے ساتھ ایک آرامدہ کاٹیج خرید کر خاندان کا نام روشن کریں گے۔

دوسری طرف وہ پریشان ہوتے ہیں کہ کہیں ان کے بچے مغربی آدرش اور عقیدوں پر چلتے ہوئے اپنی روایت، زبان، مذہب اور ثقافت نہ کھو دیں۔ پرانی روایت کھو دینے کا خوف اور نئی ثقافت کو اپنانے کے غم سے ایک نفسیاتی مسائلہ معرضِ وجود میں آتا ہے جس سے لگتا ہے کہ یہ خاندان ایک دوراہے پر کھڑے ہوں۔ مختلف خاندان اپنے اپنے طریقے سے اس تضاد کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کچھ خاندان اپنے بچوں کو ہفتے بھر عام پبلک سکول بھیجتے ہیں اور پھر چھٹی کے دن ان کو خاص اسکول بھیجتے ہیں تا کہ وہ اپنی مذہبی روایات اور مادری زبان سیکھ سکیں۔
کچھ خاندان اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کے بچے اسکول کے بعد صرف اپنے ہم مذہبی اور ہم لسانی خاندانوں اور ان کے بچوں کے ساتھ کھیلیں۔ وہ اپنے بچوں کو دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کے بچوں سے ملنے نہیں دیتے۔

کچھ خاندان اس بات کا برا نہیں مانتے کہ ان کے بچے دوسرے سماجی حلقوں سے میل جول رکھیں مگر ان کو یہ منظور نہیں کہ ان کے جوان بچے اپنے مذہبی سماج کے باہر ڈیٹنگ dating کریں۔
کئی خاندان ضرور ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو اپنے سے مختلف لوگوں میں ڈیٹنگ برداشت کر لیتے ہیں مگر جب شادی کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو اپنے مذہبی اور لسانی حلقے سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ بہت سے خاندان اپنے جوان بچوں پر دبائو ڈالتے ہیں کہ وہ پرانے وطن واپس جا کر مختلف لڑکے لڑکیوں سے ملیں اور ان سے شادی کریں۔ بہت ہی کم مہاجر خاندان اپنے جوان بچوں کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے لیے مغربی دلہا یا دلہن کا انتخاب خود کر سکیں۔

ایسے حالات بزرگوں اور جوان بچوں کے درمیان ایک تضاد پیدا کرتے ہیں۔ والدین کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچوں کے مستقبل کے فیصلے کرتے ہوئے اپنی روایات کا پوری طرح خیال رکھیں جب کہ وہ بچے جو مغرب میں جوان ہوئے ہیں جذباتی اور سماجی طور اپنی مرضی سے فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے پیشے، دوستوں اور شریکِ حیات کا انتخاب خود کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایسے فیصلے کرنا چاہتے ہیں جن سے وہ پوری زندگی خوش رہ سکیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بعض بچوں اور والدین کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں۔ جوان بچے اپنے دوستوں کے ساتھ ایسے کام کرنے لگتے ہیں جن کی ان کے والدین کی طرف سے اجازت نہیں ہوتی۔ ان کی زندگی صیغہِ راز بننے لگتی ہے۔ ایسی رازدارانہ زندگی ایک دوسرے کے متعلق بے یقینی اور شک کو جنم دیتی ہے۔ مکالمہ ختم ہونے لگتا ہے جس سے ایک بحران کی راہ ہموار ہونے لگتی ہے۔

نوجوانوں کی طرف سے اپنی آزادی کا اعلان ہوتا ہے۔ وہ یہ اعلان تین طریقوں سے کرتے ہیں۔
گھر چھوڑ کر۔ ایک ایسے پیشے کی شروعات کر کے جس میں والدین کی مرضی شامل نہ ہو۔ یا کسی دوسرے کلچر میں ڈیٹنگ اور شادی کر کے۔
کئی والدین اس بغاوت کو برداشت نہیں کر سکتے اور غصے میں آ جاتے ہیں۔ بعض کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ بعض بچوں کو بے وفا سمجھتے ہیں۔ بعض بچوں کو عاق کر دیتے ہیں۔ بعض بچے والدین سے تمام تعلقات منقطع کر دیتے ہیں۔ بعض دوست اور رشتہ دار ایسے خاندان کو فیملی کونسلنگ کا مشورہ دیتے ہیں۔
میں آپ کو ایک کہانے سناتا ہوں جس سے آپ کو اس مسئلے کی سنگینی اور سنجیدگی کا اندازہ ہو سکے گا۔

چند سال پیشتر میرے ایک بنگلہ دیشی دوست کریم نے مجھ کو بتایا کہ اس کا خاندان آج کل بہت مشکل میں ہے۔ اس کا چھوٹا بھائی رحیم جو کہ کینیڈا میں پلا بڑھا ہے خاندان سے چھپ کر کچھ مہینوں سے ایک سفید فام عیسائی لڑکی جوعین JOANN سے ڈیٹنگ کر رہا ہے۔ اس نے جوعین سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جب رحیم اپنے والدین کو یہ خوشخبری دینے ان کے پاس گیا اور شادی میں مدعو کیا تو وہ لوگ غصے میں آ گئے۔ والدین نے کہا کہ وہ رحیم کو ایک غیر مسلم لڑکی سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اس کو چاہیے کہ وہ جوعین سےاپنی منگنی توڑ دے۔ اس پر رحیم نے ان کو بتایا کہ وہ ان لوگوں کو بہت خلوص سے مدعو کرنے آیا ہے نہ کہ اجازت لینے۔ اس بات سے رحیم کے والدین نے اپنی اتنی توہین محسوس کی کہ اسے گھر سے نکال دیا۔ رحیم اس کے بعد اپنے والدین کے گھر کبھی واپس نہ گیا۔ اس نے جوعین سے شادی کر لی اور ایک علیحدہ دنیا بسا لی۔

کریم نے اپنے والدین سے اس موضوع پر گفتگو کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اتنے دلبرداشتہ اور غصے میں تھے کہ اس موضوع پر بات کرنے پر تیار نہ تھے۔ دونوں فریقین بہت زیادہ دکھ اور تکلیف سے گزر رہے تھے۔ والدین کو لگا کہ بیٹے نے ان کی بے عزتی کی ہے اور ایک سفید فام عورت کے لیے اس نے اپنے والدین کی ساری روایات کو توڑ دیا ہے اس لیے اسے خاندان سے عاق کر دینا چاہیے۔ دوسری طرف رحیم کا خیال تھا کہ چونکہ اس کے والدین بہت قدامت پرست ہیں اس لیے وہ اس کی آزادی اور طرزِ زندگی کو پسند نہیں کرتے۔
کریم اپنے والدین سے چھپ کر رحیم اور جوعین سے ملاقاتیں کرتا رہا۔

شادی کے دو سال بعد جوعین اور رحیم کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ کیونکہ رحیم اپنے دادا سے جذباتی لگائو رکھتا تھا اس لیے اس نے اپنے بیٹے کا نام اپنے دادا کے نام پر حکیم رکھا۔ رحیم کے والدین میں پوتے کی پیدائش کی خبر سن کر ایک تبدیلی آئی۔ اب وہ اپنے بیٹے سے ملنا چاہتے تھے، جوعین کو قبول کرنا چاہتے تھے اور اپنے پوتے کو اپنے گھر بلانا چاہتے تھے۔ مگر رحیم اب تک غصے میں تھا اور والدین سے نہ مل کر بدلہ لینا چاہتا تھا۔ بہت سی گفت و شنید کے بعد آخر کار ایک دن جوعین اور کریم نے رحیم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنے والدین سے رنجش ختم کر دے۔ رحیم کو آخرِ کار بات سمجھ میں آ گئی۔ حکیم کی پہلی سالگرہ پر ایک دعوت کا انتظام کیا گیا جس میں دونوں اطراف کے والدین اور خاندان پہلی دفعہ ایک جگہ جمع ہوئے۔ جوعین پہلی دفعہ رحیم کے والدین سے ملی۔ کریم اس دن بہت خوش تھا کہ دونوں خاندانوں کو پھر سے ملوانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ کہ جب اس کے والد اور اس کا بھائی گلے ملے اور رحیم نے حکیم کو اپنے باپ کی گود میں دیا تو دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ رحیم کے والدین کو اس بات پر حیرانی ہوئی کہ جوعین رحیم اور ان کے درمیان رنجش دور کرنے میں پیش پیش تھی۔ انہیں اس بات کی بھی حیرانی ہوئی کہ جوعین کے والدین نے ان کے بیٹے کو اپنے خاندان کا حصہ بنالیا تھا۔

اب یہ مغربی دنیا میں عام مشاہدے کی بات ہے کہ کتنے ہی نوجوان مختلف ثقافتوں کے لوگوں سے ڈیٹنگ کر رہے ہیں۔ اسی لیے مخلوط شادیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
میرا یہ مشاہدہ ہے کہ بہت سے مہاجر خاندان مغرب میں رہنے کے باوجود یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مشرقی روایات کے مطابق پروان چڑھا سکین گے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اس طرح بچوں کے مغربی طرزِ زندگی اپنانے کے عمل کو آہستہ تو کر سکتے ہیں مگر اس کو روک نہیں سکتے۔ آپ جہاں جوان ہوتے ہیں وہاں کا طرزِ زندگی اپنانا ایک قدرتی عمل ہے۔ ہر آنے والی نسل اپنی طرزِ زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنے سے پہلے کی نسل سے چند قدم آگے ہوتی ہے۔

میرا خیال ہے کہ ہر بچہ اور ہر خاندان اپنے وجود میں منفرد ہوتا ہے۔ مہاجر خاندانوں کی زندگی پیچیدہ ہوتی ہے کیونکہ انہیں دو ثقافتوں اور دو نسلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر دونوں نسلوں میں مکالمہ جاری رہے تو مسائل حل ہوتے رہتے ہیں ورنہ مسائل ایک دیوار بن جاتے ہیں۔ وہ خاندان جو اپنے مسائل خود حل نہیں کر سکتے ان کے لیے پیشہ وارانہ مدد PROFESSIONAL HELPحاصل کرنا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہوتا ہے۔ تمام مہاجر خاندان اپنی ذہانت اور تجربے کی بنا پر فیصلے کرتے ہیں مگر کچھ فیصلے دوسرے فیصلوں سے زیادہ صحتمند اور دانا ہوتے ہیں۔

ترجمہ: زہرا نقوی

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail