کچھ جنسی معاملات کے بارے میں (1)


نازک موضوع ہے۔ بہت سنبھل کر بات کرنا ہو گی۔ اپنے ہی گھر میں بات ہو رہی ہے۔ گھر بھی ایسا کہ مارچ کے مہینے کی خوشگوار دھوپ کا ٹکڑا تاحد نظر پھیلا ہوا ہے۔ ایک روزن میں حاشر ارشاد اور لینہ حاشر درشن دے رہے ہیں۔ میں چندے آفتاب چندے ماہتاب کا مطلب نہیں جانتا۔ قریب ہی ایک گھر میں عمار مسعود اور شنیلہ سکندر رہتے ہیں۔ یہ دونوں متحرک ایٹمی بجلی گھر ہیں۔ کچھ فاصلے پر استاد مکرم انور مسعود رونق افروز ہیں۔ انور مسعود کا تعارف کرانا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ میرا سچ تو یہ ہے کہ میں انور مسعود مدظلہ تعالیٰ کی اہلیہ کے لب و لہجے اور شخصیت کا قتیل ہوں۔ شراٹے کی برسات میں پانی سے بچنے کے لئے سائبان تلے پناہ لے رکھی ہو تو ہوا کے رخ پر جو خنکی اندر تک اترتی چلی جاتی ہے اس کا اندازہ بیگم انور مسعود سے مل کر ہوتا ہے۔ روشنی اس قدر بڑھ جائے تو نظر بھر کر دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ “مرے دل کو تاب نظر کہاں” کا امتحان درپیش ہوتا ہے۔

لینہ حاشر نے ایک بے حد سنجیدہ تحریر شائع کی ہے جس میں ایک جوڑے کی خلوت کے معاملات زیر بحث لائے گئے ہیں۔ شوہر صاحب کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ دن کا زیادہ وقت جنسی تصویریں اور فلمیں دیکھنے پر صرف کرتے ہیں۔ بیوی سے حمام نہیں۔ وہ غریب عورت جسمانی ضرورت اور ذہنی رفاقت کو ترس جاتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ  شوہر کی بے اعتنائی سے مایوس ہو کر عورت گناہ کی مرتکب ہوتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے۔ اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیے۔

میں ایک اوسط درجے سے نیچے کا انسان ہوں۔ زندگی میں ان گنت غلطیاں کی ہیں۔ ذات اور کردار کی ہر ممکنہ کمزوری سے واسطہ رہا ہے۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں اپنے ہر فعل کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر بساط بھر غور و فکر کرتا ہوں۔ اسے صحیح یا غلط قرار دیتا ہوں۔ گناہ کا لفظ میں استعمال نہیں کرتا۔ میں اس لفط کے ٹھیک مفہوم سے آشنا نہیں ہوں۔ میری رائے میں ہم انسان جو کچھ کرتے ہیں، اس کا صحیح یا غلط نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمیں اپنے ہر فعل کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ غلطیوں کو دہرایا نہ جائے۔ اس کے لئے غلطی کو غلطی کہنا اور سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ گناہ یا اس طرح کی مبہم اصطلاحات میں پناہ ڈھونڈنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اپنے قول و فعل کی ذمہ داری قبول کرنے سے فرد میں ایسی اخلاقی توانائی پیدا ہوتی ہے جو معاشرے کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔

میں نفسیات کا علم نہیں رکھتا۔ دو چار سامنے کی اصطلاحات جاننے اور استعمال کرنے کو علم نہیں کہتے۔ میں نفسیات کی الجھنیں سمجھنے کے لئے بھائی اختر علی نقوی اور بھائی وقار احمد ملک کی رائے پر اعتماد کرتا ہوں۔ نفسیاتی معاملات کہیں دور جا کر کیمیائی حقیقتوں سے جا ملتے ہیں۔ میں اس عمل کی نزاکتوں کا شناور نہیں۔ خدا ڈاکٹر محمد ایوب اعوان کو سلامت رکھی۔ ان سے رہنمائی ملتی ہے۔ نفسیات، کیمسٹری، طبعیات اور فلسفے کی حدود جہاں ملتی ہیں، وہاں سے ادب شروع ہوتا ہے۔ میری رائے ادب پر سند کا درجہ نہیں رکھتی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ارشد وحید اور حارث خلیق کے خیالات کو وزن دیتا ہوں۔

جنس کے بارے میں تجسس ناگزیر معاملہ ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہم جس ماحول میں پلے بڑھے وہاں جنس کے بارے میں بات کرنا اس قدر معیوب گردانا جاتا تھا  کہ اپنے آپ سے بات کرنا بھی دوبھر تھا۔ اس سے بہت سی جسمانی، فکری اور نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ بات کہنے کا ہنر نہیں سیکھ سکے۔ سوال اٹھانے کی ہمت میں کوتاہی نمودار ہوئی۔ انگریزی حروف سے شناسائی ہوئی تو جنس کے بارے میں جاننے کا ایک راستہ نکلتا نظر آیا۔ ہیرلڈ روبنز اور اس قبیل کے لکھنے والوں کو پڑھنا چاہا۔ انارکلی میں بائبل سوسائٹی کی دیوار کے ساتھ پرانی کتابوں والے فٹ پاتھ پر بیٹھتے تھے۔ بظاہر ادبی کتابیں تلاش کرتے ہوئے کن انکھیوں سے “گندے” عنوانات ڈھونڈے جاتے تھے۔ کئی دفعہ تو سخت مایوسی ہوئی کہ دکاندار سے بات کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔ سخت احساس جرم طاری رہتا تھا۔ دکاندار بھی ایسا کاری گر تھا کہ موٹی موٹی کتابوں کے نیچے سے ایک میلی سی کتاب نکال کر معنی خیز نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے کچھ اس انداز سے “الگ والا مال” دکھاتا تھا کہ بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ جاتی تھی۔ ابھی پروفیسر ایوان پاولوف (Pavlov) کے خیالات سے آگہی نہیں ہوئی تھی۔ جن سے معلوم ہو سکتا کہ دماغ جسم کے مختلف حصوں کو پیغام کس طرح بھیجتا ہے۔

ایک روز پرانی کتابوں سے چھانٹ کر تاریخ کی ایک کتاب خریدی اور ساتھ ہی بزعم خود چابک دستی سے ایک جنسی کتاب بھی خرید لی۔ عنوان تھا Married Love۔ مال روڈ پر قدم رکھا ہی تھا کہ میخ کی طرح سیدھے پروفیسر آر اے خاں صاحب کا سامنا ہو گیا۔ خان صاحب کی نگاہوں میں جادو کی سی گرفت تھی۔ چہرے کے تاثرات سے یہ بھانپنا تقریباً ناممکن تھا کہ استاد محترم شفقت فرما رہے ہیں یا طالب علم کی جہالت پر خندہ زن ہیں۔ دبنگ آواز میں پوچھا۔ کیا خریدا۔ کانپتے ہاتھوں سے دونوں کتابیں بڑھا دیں۔ اقبالی مجرم کی طرح گردن جھکا لی۔ یہ التزام البتہ کیا کہ تاریخ کی کتاب اوپر رکھی اور مبینہ طور پر “گندی کتاب” نیچے۔ خان صاحب نے دونوں کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھیں اور بغیر کسی تبصرے کے واپس تھما کر آگے بڑھ گئے۔ شرمندگی اور خجالت کے مارے برا حال ہو گیا۔ ستم یہ کہ ہاسٹل پہنچ کر جنسی کتاب پڑھنا چاہی تو معلوم ہوا کسی مسیحی مشنری خاتون نے مذہبی احکامات کے دائرے میں رہتے ہوئے شادی کرنے والے جوڑوں کے لئے اخلاقی پند و نصائح قلم بند کئے ہیں۔ دیہاتی طالب علم Married Love کی اشتہاری چمک سے دھوکہ کھا کر آٹھ روپے گنوا بیٹھا تھا۔ اس کتاب میں نہ تو شادی کا پرچہ ترکیب استعمال مل سکا اور نہ ہی محبت کرنے کا صحیح قرینہ سکھایا گیا تھا۔ آپ ہنسیے مت۔ انسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے۔

Havelock Ellisکی پانچ جلدیں خریدیں۔ ابھی تین پڑھ پایا تھا کہ کوئی بدمعاش پانچوں جلدیں چوری کر کے چمپت ہو گیا۔ کنزے رپورٹ کا نسخہ خریدا۔ اعداد و شمار کی کثرت سے طبیعت گھبرا گئی۔ جنسیات پر سگمنڈ فرائیڈ کے لکھے مضامیں خریدے۔ ایک دفعہ پڑھے۔ دوبارہ پڑھنے کا ارادہ تھا کہ گلباز آفاقی اور بہار علی کاظمی نے شرارت کرتے ہوئے کتاب کہیں چھپا دی۔ خدا دونوں سے سمجھے۔ ایک برطانیہ کی دھند میں زندگی گزار رہا ہے۔ دوسرا اسلام آباد میں مہنگے سیگرٹ حقے کی طرح چوتھی اور پانچویں انگلی میں دبا کر موالیوں کے مافک کش لگاتا ہے۔ برے کاموں کا یہی انجام ہو تا ہے۔

لیجئے ورق نبڑ گیا۔ کام کی بات تو اب شروع ہونا تھی۔ چلئے آج اتنا ہی کافی ہے۔ باقی بات کل کریں گے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).