آئین کی بالا دستی کیسے ممکن ہو گی؟


یوں تو اس ملک میں آئینی بالا دستی اور قانونی حقوق کی بات کرنا محال ہے جہاں ہمسایہ ملک کے یوم آزادی کو یوم سیاہ قرار دیا جائے اورجہاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایک تقریر میں دو قومی نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ اقرار کرنے میں کراہت اور تکلیف محسوس نہ کریں کہ غیرتقسیم شدہ ہندوستان میں دو قومیں آباد تھیں۔ ان میں سے ایک مسلمان تھے اور دوسری قوم کا نام بھی وہ لینا گوارا نہیں کرتے۔ جب ملک کے منصف اعلیٰ کے منصب پر فائز کوئی شخص دنیا کی 15 فیصد کے لگ بھگ آبادی اور ملک کی اہم اقلیت کے عقیدہ اور شناخت کے حوالے سے وکیلوں کے اجتماع میں اس قدر شدید تعصب اور نفرت کا اظہار کررہا ہو تو آئین و قانون کے الفاظ بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ پارلیمنٹ یا سیاسی رہنماؤں کی بجائے جب ملک کی فوج کے سربراہ قوم کو یہ خوشخبری سنا رہے ہوں کہ ملک آئین اور قانون کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے اور سب ادارے اپنی جگہ کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں معزول شدہ وزیراعظم ناانصافی کی دہائی دے رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ ملک کی سپریم کورٹ نے اپنے اختیار اور مروجہ طریقہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے عوام کے منتخب لیڈر کو وزارت عظمیٰ سے برطرف کیا ہے۔ اور نیا پاکستان بنانے کے دعویدار یہ اعلان کر رہے ہوں کہ اگر ملک کی پارلیمنٹ نے ان کی پسندیدہ آئینی شق کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تو وہ ایک بار پھر اسلام آباد کا پہیہ جام کر دیں گے کیونکہ اسی شق کی وجہ سے عمران خان کے اس دیرینہ خواب کی تکمیل ممکن ہوئی ہے کہ نواز شریف نااہل ہوں اور ان کےلئے قیادت کا میدان ہموار ہوسکے۔ اس سب کے باوجود یہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ملک میں تصادم اور انتشار سے نہ صرف جمہوریت کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوگا بلکہ ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے اندیشے بڑھ جائیں گے۔

یہ امر بھی باعث استعجاب ہے کہ چیف جسٹس ہندوؤں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے بعد نہ تو شرمندہ ہیں اور نہ اس ملک میں کوئی ایسا نظام موجود ہے جو ان سے یہ جواب طلب کرسکے کہ وہ اظہار رائے کے کس اصول و قانون کے تحت دنیا کے ایک اہم مذہب کو ماننے والوں کا نام لیتے ہوئے کراہت محسوس کرتے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا علاوہ تعصب کے لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ وہ دہشت گردی کے ایک واقعہ کی برسی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کرپائے کہ جس مزاج کی وجہ سے گزشتہ برس 8 اگست کو سول اسپتال کوئٹہ میں 70 سے زائد وکلا کو خودکش حملہ میں شہید کیا گیا تھا، وہ تعصب، فرقہ واریت اور دوسروں کو کمتر اور خود کو بہتر تسلیم کرنے کے رویہ سے ہی فروغ پا رہا ہے۔ ملک کا نیشنل ایکشن پلان اسی مزاج کو ختم کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن قانون کے رکھوالے شاید خود قاعدہ و قانون کی گرفت سے بالا ہوتے ہیں، اس لئے انہیں ان امور کی نزاکتوں پر غورکرنے کا وقت نہیں ملتا اور نہ یہ سوچنے کا موقع میسر آتا ہے کہ اگر ان کے دل کے کسی کونے میں مذہبی تعصب اور نفرت موجود ہے تو اپنے منصب کے پیش نظر اسے ظاہر کرنے سے گریز کریں۔ اثاثے ظاہر کرنے میں معمولی لغزش پر ملک کے منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کےلئے ’’امین و صادق‘‘ کی آئینی شق کا اطلاق کرنے والی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے اس طرح علی الاعلان نفرت کے اظہار پر تو انہیں صداقت کا ایوارڈ دینے کی سفارش ہونی چاہئے کہ جو ان کے دل میں تھا، وہی انہوں نے پوری دیانتداری سے بیان کر دیا۔

یہ ایک تکلیف دہ اور حیران کن صورتحال ہے لیکن سوشل میڈیا یا اکا دکا مضامین میں اس سانحہ کے ذکر کے علاوہ ملک کا کوئی ادارہ ایسے خیالات کے اظہار پر کوئی کارروائی کرنے کے قابل نہیں ہے کیونکہ پاک فوج کے سربراہ نے بتایا ہے کہ ملک کے سب ادارے احسن طریقے سے اپنا کام کر رہے ہیں کہ ملک کے آئین و قانون کے راستے پر گامزن ہونے کے بعد اب علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان بنانے کا اہم کام کرنا باقی ہے۔ لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس بات کا جواب بھی دینا چاہئے تھا کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے کون سے تصور کی بنیاد پر یہ ملک تعمیر کیا جائے گا۔ وہ جو عقیدہ، نظریہ اور سوچ کی آزادی فراہم کرتا ہے اور بلاتخصیص مذہب و ذات پات ہر شخص کو اس ملک کا واجب الاحترام شہری سمجھتا ہے یا وہ تشریح جس کے تحت ہندو ایک ایسی مخلوق کا نام ہے جو قابل نفرت ہے اور پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے درپے ہے۔ اور وہ تصور جو مسلمان کی بڑائی اور بہتری کا اعلان کرتے ہوئے دوسرے تمام عقائد کے لوگوں کےلئے عرصہ حیات تنگ کرنا چاہتا ہے۔ مسلکی فرق پر سر قلم کرتا ہے، نماز پڑھنے کے مختلف طریقہ پر کافر کا فتویٰ دیتا ہے اور رائے کے اختلاف کو قابل گردن زدنی قرار دیتا ہے۔ یہ وہی تعصبات ہیں جو دہشت گردی کے ہتھیار ہیں۔ اسی لئے جب چیف جسٹس ایک دسرے مذہب کے بارے میں نفرت اور حقارت کا اظہار کرتے ہیں تو یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ قوم کس منزل کی جانب گامزن ہے اور کون اس کی رہنمائی کر رہا ہے۔

ان حالات میں ایک سیاستدان سپریم کورٹ کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد آئین میں ترامیم کےلئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور دوسرا وہ آنکھ نکال لینا چاہتا ہے جو آئین کی ان شقات کے بارے میں ’’بدنظری‘‘ کا مظاہرہ کرتی ہو جو اس کے سب سے بڑے سیاسی حریف کو مسند اقتدار سے محروم کرنے کا سبب بنی ہے۔ پاک فوج آئین کی ضامن ہے اور پارلیمنٹ ایسے اقتدار کی سیڑھی بن چکی ہے جو صرف ایسی سواریاں فراہم کرنے کے قابل ہے جو بے بس شہریوں کو کچل تو سکتی ہیں لیکن انہیں زندہ رہنے اور زندگی گزارنے کا سامان بہم پہنچانے کے قابل نہیں ہیں۔ کیا کسی کو کوئی شبہ ہو سکتا ہے کہ یہ چلن قوموں کے زندہ رہنے کا سبب نہیں بن سکتا۔ ایسی ہی حرکتوں کی وجہ سے اس ملک کو دولخت کیا جا چکا ہے۔ ملک بھر کے لوگوں میں محرومی اور بے یقینی کو عام کیا گیا ہے۔ ترقی کے سفر میں جس اشتراک اور اتفاق کی ضرورت ہوتی ہے، اسے پارہ پارہ کرنے کا گھناؤنا کام کیا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ فوج کے سربراہ کو بار بار آئین کے تحفظ کا یقین دلانا پڑتا ہے اور اگر پھر بھی آئین ’’راہ راست‘‘ پر گامزن نہ ہو تو اسے کچھ عرصہ آرام کےلئے ’’معطل‘‘ کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کو اقتدار، مفاد اور لائسنس اور فنڈز حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ اسے قانون ساز ادارہ نہیں سیاسی دھینگا مشتی کا اکھاڑہ بنایا گیا ہے۔ آئین کی حفاظت اور نگرانی کے کام سے گریز کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کے غیرموثر ہونے کی صورت میں وہ قوتیں مستعد ہوں گی جو ہر دم چوکس رہتی ہیں کہ ملک کی حفاظت کی ذمہ داری انہیں سونپ دی گئی ہے۔ یہ ذمہ داری فوج کی بجائے حکومت اور پارلیمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ فوج ان اداروں کے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کےلئے اوزار کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان تلاش کرنے کی لگن میں اداروں کے رول تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔

اس کشمکش میں پاکستان ایک ایسے دوراہے پر آن پہنچا ہے کہ آگے قدم بڑھانے سے پہلے لمحہ بھر توقف کر کے ذاتی، گروہی، علاقائی، ادارہ جاتی اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے منزل کا تعین کرنے کی ضرورت ہے اور یہ طے کرنا اہم ہے کہ اس منزل کو پانے کےلئے کون سا راستہ اختیار کیا جائے۔ فیصلے کیسے ہوں، کون کرے اور ان پر عملدرآمد کس کی ذمہ داری ہو۔ تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون سازی کے بارے میں تردد نہ کریں اور آئین کی نگہبانی کےلئے فوج کو پریشان ہونے کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح نظریہ پاکستان یا اقبال اور قائد اعظم کے پاکستان کےلئے ایسے بے بنیاد اور لایعنی مباحث سے جان چھڑائی جا سکے جو اس وقت ملک میں تقسیم، تفریق اور تصادم پیدا کرنے کا سبب بن چکے ہیں۔ آگے بڑھنے کےلئے یہ جان لینا ضروری ہے کہ جمہوریت ہی واحد ایسا طریقہ ہے جس پر عمل کرتے ہوئے اس ملک کو سلامتی و خوشحالی کے سفر پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔

جمہوریت کو ڈھکوسلے کی بجائے حقیقی معنوں میں عوامی نمائندگی کا مظہر بنانے کےلئے فوج کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ منتخب حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے اور امور حکومت و مملکت میں اسے وہی کام سرانجام دینا ہے جو منتخب سیاستدان اور پارلیمنٹ اسے تفویض کریں۔ سیاستدانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی معاشرے میں جمہوریت اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب عام لوگوں کو اس کے ثمرات پہنچنے شروع ہوں۔ پاکستان جیسے محدود وسائل کے حامل ملک میں اگرچہ ایک دور حکومت یا چند برسوں میں لوگوں کا معیار زندگی بلند نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر لوگوں کو یقین ہونے لگے کہ ان کے منتخب نمائندے ان کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اور اگر وہ عوام کی خواہشات کے مطابق کام نہیں کریں گے تو انتخابات میں انہیں تبدیل کرنے کا حق ووٹ کی صورت میں لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔ وہ کسی دباؤ اور زور زبردستی کے بغیر یہ حق استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں اور ملک میں ایسے حالات پیدا نہیں کئے جائیں گے کہ انتخابی عمل میں دھاندلی اور ہیرا پھیری کے قصے عام ہوں۔ یہ مقصد صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب سیاستدان یہ سمجھنے لگیں گے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد ذمہ داری قبول کریں اور خود کو جوابدہی کےلئے پیش کریں۔ اگر یہ دو کام احسن طریقے سے کئے جا سکیں تو ملک کے باقی ادارے بھی مناسب طریقے سے کام کرنے لگیں گے۔

پارلیمنٹ کو کمزور کرنے اور سیاستدانوں میں اقتدار کےلئے رسہ کشی کی بدولت فوجی اداروں کو ملنے والے غیر معمولی اختیارات کی صورتحال تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کےلئے پارلیمنٹ کو فعال اور موثر بنانا اور ہر کس و ناکس کےلئے اس کی بالادستی اور حق و اختیار کو قبول کرنا ضروری ہے۔ پارلیمنٹ میں ہونے والے مباحث اور فیصلے اجتماعی دانش کا اظہار ہوتے ہیں، اسی لئے سیاسی پروگرام اور منشور کی بنیاد پر اختلاف کے باوجود پارلیمنٹ کو بطور ادارہ متنازع بنانا اور اس کے فیصلوں کو مسترد کرنا جمہوری راستے سے اقتدار کی کوشش کرنے والے کسی شخص یا سیاسی گروہ کو زیب نہیں دیتا۔ جس طرح فوج کےلئے حکومتی اور پارلیمانی معاملات میں مداخلت درست نہیں، اسی طرح عدالتوں کو بھی عوامی نمائندوں کے کئے ہوئے فیصلوں کی حدود میں رہتے ہوئے ہی فیصلے کرنے کا طریقہ اپنانا ہوگا۔ ایک فرد، ادارے، گروہ یا طبقہ کو مصلح قوم کا فریضہ سونپنا درست طریقہ نہیں ہے۔ اسی طرح ان نظریات اور تصورات کا تعین کرنا بھی پارلیمنٹ ہی کا کام ہے جن کی بنیاد پر اس ملک میں عوام آدمی کے مفادات کا تحفظ اور انصاف کی فراہمی عام کی جا سکتی ہے۔ تب ہی کوئی چیف جسٹس نظریہ پاکستان کی تشریح کرنا اپنا فرض منصبی نہیں سمجھے گا اور نہ فوج کے سربراہ کو ہمہ وقت آئین کے تحفظ کےلئے فکر مند ہونا پڑے گا۔

اقتدار سے محروم ہونے کے بعد نواز شریف کو پارلیمنٹ کی اہمیت اور ایسے سماجی و قانونی انتظام کی ضرورت کا احساس ہوا ہے جو توازن قائم کرنے اور سب کے ساتھ مساوی بنیادوں پر سلوک کرنے کےلئے ضروری ہے۔ باقی سیاستدانوں کو بھی نواز شریف کے انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی ان تقاضوں کو سمجھ لینا چاہئے۔ اگر یہ احساس پیدا ہو جائے تو ملک گیر احتجاجی جلسے کرنے اور عوامی عدالتیں لگانے یا اسلام آباد میں دھرنے دینے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ سیاستدان خود بھی کام کریں گے اور باقی سب کو بھی ملک و قوم کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کا موقع ملتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali