شیر خان سے اختلاف کی حقیقی وجہ


محترم شیر خان صاحب سے تعلق کو کیسے بیان کیا جائے۔ یوں سمجھئے، اونٹ کے گلے میں بلی بندھی ہے۔ 19 برس سے گاڑی چلا رہے ہیں اور عاجز ان کی معیت کا گناہگار ہے۔ کامنی بیٹی کو پہلے روز اسکول چھوڑنے گئے تھے۔ کامنی تعلیم کی منزلیں طے کرتی کہیں سے کہیں نکل گئی ہے، شیر خان اور ان کے ہمراہی کے بال پورے سفید تو نہیں ہو پائے، خاکستری ضرور ہو گئے ہیں۔ ہر روش خاک اڑاتی ہے صبا تیرے بعد….

محترم شیر خان کے ساتھ مبینہ اور باہمی دل آزاری کے بہت سے پہلو ہیں۔ حضرت کو پہلے روز بتا دیا گیا تھا کہ گاڑی تیز چلانے کی کوئی حقیقی وجہ ہونی چاہیے۔ مثلاً یہ کہ کسی عزیز کا انتقال ہو گیا ہے۔ ایسے موقع پر یاد رکھنا چاہیے کہ قم باذنی کا نسخہ ہماری جیب میں نہیں۔ ہم مردے کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ پس گاڑی تیز چلانا غیر ضروری ہے۔ ایک ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ بیرون ملک سفر درپیش ہو اور جہاز چھوٹ جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو آپ سے ہرگز شکایت نہیں کی جائے گی کہ آپ کی سست روی تاخیر کا باعث ہوئی۔ گویا ایسے موقع پر بھی گاڑی تیز چلانا چنداں ضروری نہیں۔ گاڑی کو سرپٹ دوڑانے کی کوئی تیسری معقول وجہ احاطہ خیال سے باہر ہے۔ شیر خان صاحب کا تشکر واجب ہے کہ گاڑی صرف اس صورت میں اندھا دھند بھگاتے ہیں جب درویش گاڑی میں موجود نہ ہو۔ اس وقوعہ کی اطلاع مختلف احباب سے متواتر ملتی رہتی ہے۔

یہاں تک تو خیریت کا مضمون ہے۔ لیکن قضا و قدر کے کان بہرے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عقب سے ایک نئی نویلی گاڑی سبک رفتاری کا مطاہرہ کرتی ہوئی برابر میں آن پہنچتی ہے اور کچھ ایسی گج گامنی چال دکھاتی ہے جیسے وہ پتنگ جس کی ڈور ہم غلط طریقے سے باندھ دیتے تھے۔ ہم شمال کی طرف کھینچتے تھے اور البیلی پتنگ مشرق کی سمت جانے کی ضد کرتی تھی۔ ہمارے بچپن میں پتنگ کی اس کج روی کو “کنی کاٹنا” یا “جھونک کھانا” کہا جاتا تھا۔ خود عائد کردہ سنسر شپ کے مرحلوں سے گزرتے ہوئے کنی کاٹنے کا محاورہ تو ہم سب کو سمجھ آ گیا ہے۔ کالم نویس کو سامنے کی بات کہنے سے گریز ہو تو کنی کاٹ جاتا ہے۔ “جھونک” کی سند بیسویں صدی کے غزل گو شہاب جعفری کے کلام سے ملی۔

چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے

نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے

ہائے شہاب جعفری۔ ہائے خمار وجود، دل خانہ خراب کی باتیں…. ذکر تو اس طرح دار چکا چوند گاڑی کا تھا جو اپنی جھونک میں اس طرح دباؤ بڑھائے جاتی تھی جیسے غیر پہلو دبائے جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دباؤ برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ درویش کے منہ سے ایک ناقابل اشاعت آوازہ برآمد ہوتا ہے۔ شیر خان ایک جھٹکے سے اپنی رفتار کم کرتے ہیں۔ مبارزت پر آمادہ گاڑی آگے نکل جاتی ہے۔ کھڑکی سے صاف نظر آیا کہ کترواں داڑھی والے صاحبزادے نے موبائل کان سے لگا رکھا ہے۔ کوئی ضروری بات کر رہے ہوں گے۔ کنپٹیوں تک اچھل کر تپش دیتا لہو آہستہ آہستہ نیچے اترتا ہے تو شیر خان صاحب سے احتیاط کی درخواست کی جاتی ہے۔ فرمایا، ’چالیس پر گاڑی چلا رہا ہوں۔ اس سے زیادہ آہستہ خرامی مقصود ہے تو انجن بند کر دیتا ہوں۔ نیچے اتر کر دھکا لگائیے۔ وہ لڑکا تو موبائل سنتے ہوئے ایک ہاتھ سے غلط ڈرائیونگ کر رہا تھا‘۔ اس پر ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا۔

میرے عزیز بھائی، آپ کے بیان میں انصاف کی دہائی پائی جاتی ہے۔ آپ معقول بات کر رہے ہیں۔ یہی آپ کی غلطی ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ ہم ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں کہ تین آئین ہم نے توڑ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیے، کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔ آدھے سے زیادہ ملک ہم نے گنوا دیا، اس سانحے پر غور کرنا تو درکنار، ہم اسے یاد رکھنے کے روادار نہیں۔ گن کر بتائیے کہ آپ کے ارد گرد کتنے افراد بنگالی زبان جانتے ہیں۔ بس اسی سے سمجھ لیجئے کہ بنگالیوں کے ساتھ رہنے کی ہماری خواہش حقیقت تھی یا خوش فہمی۔ پچھلے ہفتے کوئٹہ میں ایک دوست نے نصیحت کی کہ اپنی گفتگو میں بلوچ، بلوچی اور بلوچستان کی اصطلاحات سوچ سمجھ کر برتنا۔ ایسی لسانی لغزش پر یہاں گولی چل جاتی ہے۔ ایک قابل احترام دوست کا ذکر ہو رہا تھا،۔ راز یہ کھلا کہ سندھی بھائیوں کو کالاباغ ڈیم کا مقدمہ پیش کرنے پر گلہ ہے اور پنجابی بھائی یہ کدروت پالے بیٹھے ہیں کہ سندھو کا بیٹا اعلیٰ مناصب تک کیسے جا پہنچا۔ لاہور یا کسی بھی صوبائی دارالحکومت میں کوئی ایسا ادارہ ہے جہاں پاکستان کی مختلف زبانیں سکھائی جاتی ہوں؟

ہم اہل پنجاب اردو کا تین لفظی جملہ بولیں تو تلفظ کی ایک غلطی نکل آتی ہے۔ اچانک کوئی حرف ساکن ہو جاتا ہے جیسے منتخب رہنما بیٹھے بٹھائے نااہل قرار پاتا ہے۔ ایک حرف نامعلوم کیوں متحرک ہو جاتا ہے جیسے یکایک عوامی احتجاج فعال ہو جاتا ہے۔ اس قدر مشکل زبان ہے اردو مگر ہم سیکھتے ہیں کیونکہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ راضی بالرضا ہیں، رغبت کا معاملہ نہیں۔ اگر احساس اور شعور کا یہی درجہ کچھ دیگر معاملات میں بھی اپنا لیں تو سپھل ہو جائیں۔ اگر ہم دوسروں کا نام لینے کے بھی روادار نہیں تو اسے شعور کی بجائے بے جا جوش سمجھا جائے گا۔ زندگی کے مسائل تو بنیادی حقائق کو تسلیم کرنے اور سمجھنے سے حل کئے جاتے ہیں۔ اگر ہم نام نہیں لیں گے تو ایک ارب پندرہ کروڑ کم ہو کر ساٹھ کروڑ نہیں رہ جائیں گے۔ مردم شماری میں پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت کی شناخت معدوم نہیں ہو جائے گی۔ زندگی کی سڑک ہمارے ننھیال کا پچھواڑا نہیں، یہاں دوسری گاڑیاں بھی چل رہی ہیں۔ ہمارا ایک موقف ہے۔ مخالف فریق نے بھی اپنا بیانیہ مرتب کر رکھا ہے۔ جہاں ہم دوسرے فریق کا نام لینے کے روادار نہیں ہوتے، ناپسندیدہ دستاویزت اور شواہد قلم زد کر دیتے ہیں، وہاں سے ذہن انسانی کا تاریک منطقہ شروع ہوتا ہے۔ اندھیرے سے ڈرنا چاہیے۔ باقی یہ کہ شیر خان صاحب ہر طرح سے محبت اور احترام کے لائق ہیں، ان سے کوئی مستقل پرخاش نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).