عمران خان کے ایک ارب درخت سچ نکلے


عمران خان نے جب ایک ارب درخت لگانے کا اعلان کیا تھا تو مذاق اڑانے والوں میں ہم بھی شامل تھے۔ ایک آج ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ تصدیق کر رہا ہے کہ عمران خان نے یہ ناممکن کام کر دکھایا ہے اور ہم حیرت زدہ ہو کر اس کارنامے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔

ایک ارب بہت بڑا نمبر ہوتا ہے۔ ایک ارب درخت کا مطلب ہے کہ دس ہزار لاکھ درخت۔ اتنے درخت دو چار برس میں لگانا کیسے ممکن ہے؟ کیا اتنی زمین موجود ہے جس پر یہ لگائے جا سکیں؟ کتنی افرادی قوت چاہیے ہو گی؟ یہ سرکاری محکمے لگائیں گے جن کی سست ترین کارکردگی سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ یہ احمقانہ بات ہنسنے ہی کی تھی۔ لیکن اب ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ اور ماحولیات کے تحفظ کےلیے سرگرم عالمی ادارے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی سی یو این) جیسے اداروں نے تصدیق کی ہے کہ بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت خیبر پختونخوا کا شمار دنیا کے ان صوبوں میں ہونے لگا ہے جس نے عالمی معاہدے ’بون چیلنج‘ کے تحت ساڑھے آٹھ لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پودے لگانے کا ہدف پورا کیا ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم غلط تھے اور کپتان ٹھیک تھا۔ شجر کاری صوبے کے تین بڑے ڈویژنوں ہزارہ، مالاکنڈ اور جنوبی اضلاع میں کی گئی ہے اور 40 فیصد پودے اُن علاقوں میں لگائے گئے ہیں جہاں پہلے سے جنگلات موجود نہیں ہیں۔

اس رپورٹ پر صوبے کے کچھ افراد یہ اعتراض اٹھا رہے ہیں کہ ان کو اپنے علاقے میں یہ درخت دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ متعلقہ اداروں کے پاکستانی افسران کو پختونخوا کی صوبائی حکومت نے مختلف ٹھیکے دیے ہیں جن کی وجہ سے وہ حمایت میں رپورٹس لکھ رہے ہیں۔ یہ اعتراضات کرنے والوں میں تحریک انصاف کے پرجوش حامی بھی ہیں۔ لیکن ہماری رائے میں یہ اعتراضات اس لئے قابل اعتنا نہیں ہیں کہ بین الاقوامی اداروں کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام اچھا ہوتا ہے اور اس کے افسران کے لئے احمقانہ حد تک غلط رپورٹ دینا آسان نہیں ہے۔ پکڑے جانے کی صورت میں نیک نامی کھونے اور زندگی بھر کے لئے ان اداروں سے فارغ ہونے کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہ ادارے باقاعدہ پڑتال کرتے رہے ہیں۔ ان گواہیوں کو دیکھنے کے بعد ہماری رائے یہ بنی ہے کہ پختونخوا کی حکومت نے یہ اہداف بہت حد تک حاصل کیے ہیں اور اس پر پختونخوا کی حکومت کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔

ہمیں پچھے دو برس میں پختونخوا میں گھومنے کا کوئی خاص موقع نہیں ملا ہے لیکن شمالی علاقوں کی سیر کی ہے۔ بشام سے آگے نکلتے ہی ویران سنگلاخ پہاڑ شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہاں درخت نہیں ہیں۔ ہم نے بے شمار درخت دیکھے جو سڑک کنارے چھلے چھلائے شہتیروں کی صورت میں پڑے تھے۔ حیرت ہوئی کہ پہاڑ پر تو دور دور تک درخت دکھائی نہیں دیتا تو یہ کیا آسمان سے اترے ہیں؟ ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ دور آسمان پر ایک درخت اڑ کر اپنی سمت آتا دکھائی دیا۔ دور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کیبل لگا کر اس کے ذریعے درخت سڑک تک لائے جاتے ہیں۔ سڑک کے ارد گرد کے پہاڑ تو گنجے کر دیے گئے ہیں، اب دور کے پہاڑوں کی باری ہے۔ اب ایک پر آسائش شہری زندگی گزارنے والے نسبتاً خوشحال شخص کی حیثیت سے ہمیں خوب غصہ چڑھا کہ اس علاقے کے لوگ کتنے جاہل ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ درخت کاٹنے کے ماحول پر کتنے برے اثرات پڑتے ہیں اور یہ اپنا علاقہ ناقابل رہائش بنا رہے ہیں۔ مگر جب ہم یہ علاقے گھومے پھرے تو اندازہ ہوا کہ ادھر کے مجبور لوگوں نے زندہ رہنا ہے تو انہیں درخت کاٹنے پڑیں گے۔

وہاں غربت بہت زیادہ ہے۔ معیشت کے اسباب کم ہیں۔ صنعت نہیں ہے۔ مکان بنانے کے لئے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ لوہا یا سیمنٹ خرید پائیں تو لکڑی پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ سردیاں ظالم ترین ہیں۔ اس میں زندہ رہنا ہے تو آگ کا سہارا لینا پڑے گا اور ایندھن خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ کھانا بھی اسی آگ پر پکے گا۔ یا تو حکومت تعمیراتی سامان اور ایندھن پر سبسڈی دے ورنہ درخت تو کٹیں گے ہی۔ درخت کٹ رہے ہیں۔

ہم پھرتے پھراتے دیوسائی کے میدان میں نکل گئے۔ ادھر پہاڑوں پر ننھے ننھے درخت ایک غیر قدرتی ترتیب سے لگے دکھائی دیے۔ معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان کی حکومت پہاڑوں پر نئے درخت لگانے کا پراجیکٹ چلائے ہوئے ہے اور شجرکاری مہم واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے بعد ہمیں خیبر پختونخوا کی شجر کاری مہم پر بھی کچھ کچھ اعتبار آنے لگا۔ خبروں کے مطابق درخت لگانے کی مہم میں دریائے سندھ، دریائے سوات اور دریائے کنہار کے کناروں پر خاص فوکس کیا گیا ہے۔ پرانے جنگلات کو تحفظ دیا گیا ہے تاکہ وہاں قدرت نئے درخت خود اگا سکے، فضا سے بیج پھینکے گئے ہیں اور اربوں روپے کے بجٹ سے درختوں کے پودوں کی ہزاروں نجی و سرکاری نرسریاں قائم کی گئی ہیں۔

اب اگلے برس ہمارا سوات اور مالاکنڈ کا چکر لگا تو عینی شہادت فراہم کریں گے، جب تک صوبائی حکومت کی فراہم کردہ تصاویر اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں پر ہی گزارہ کرنا ہو گا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاست سے لاکھ اختلاف سہی، مگر اس کے فلاحی اور لانگ ٹرم بہتری لانے والے منصوبوں کی تعریف کرنے پر ہم مجبور ہیں۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar