آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ اور نواز شریف


سابق وزیراعظم کی عدالت عظمی سے نا اہلی کے بعد سیاسی حلقوں میں آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے خاتمے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ماضی میں باسٹھ، تریسٹھ کو آئین کے ماتھے کا جھومر سمجھنے والےمیاں صاحب اب ان آرٹیکلز کو نہ صرف عوامی مینڈیٹ کی توہین سمجھتے ہیں بلکہ اسےجمہوریت کے لئے بڑا خطرہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ یہ شریف سیاست کا ایک بڑا یوٹرن ہے۔ دراصل مقدمہ یہ نہیں کہ آرٹیکل باسٹھ، تریسٹھ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے یا نہیں؛ بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں سیاست اخلاقیات کے تابع رہنی چاہیے؟ کیا سیاسی عمل پر اخلاقی حدود باندھی جا سکتی ہیں؟ اور کیا قومی سیاست میں غلط بیانی کی اجازت دی جا سکتی ہے؟

جمہوری دنیا کے کسی ملک میں ان سوالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں مگر کچھ اور ہی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اپنے دور اقتدار میں متعدد بار علانیہ غلط بیانی کے مرتکب قرار پائے ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی رہنما اس کے بعد اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہتے۔ برسوں قبل سابق امریکی صدر نکسن اس اخلاقی جرم کے مرتکب ہوئے تھے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے حزب اختلاف رہنماؤں کے فون ٹیپ کیے۔ اس الزام کو انہوں نے مسترد کر دیا مگر ان کوائری کمیشن کی تحقیقات میں الزام سچ ثابت ہوا۔ اس غلط بیانی پر امریکی صدر نکسن کو نہ صرف عہدہ چھوڑنا پڑا بلکہ انہوں نے ہمیشہ کے لئے سیاست کو خیر آباد کہہ دیا۔

قریب دو دہائیاں قبل سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھی ایسی ہی مشکلات سے دوچار ہوئے تھے۔ ان پر بھی قوم سے غلط بیانی کا الزام سچ ثابت ہوا۔ امریکی صدارتی انتخابات میں بل کلنٹن نے واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ وہ سابق پاکستانی وزیراعظم محمد نواز شریف سے زیادہ ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔ مگر ان کے خلاف بھی مواخذے کی کارروائی کا آغاز ہوا۔

گزشتہ چند روز سے جاری سابق وزیراعظم کی کی تقاریر کچھ فکری مغالطوں پر مبنی ہیں۔ یہ ایک کمزور مکالمہ ہے کہ کروڑوں ووٹوں سے منتخب شدہ عوامی نمائندگان پر اخلاقی اصول لاگو نہیں ہوتے۔ قانون کی نظر میں یہ توجیح قابل قبول نہیں۔ سابق وزیراعظم کے دفاع میں اسے ایک مضبوط دلیل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ آرٹیکل باسٹھ، تریسٹھ محض عوامی نمائندگان کو مروج اخلاقی اصولوں کا پابند کرتا ہے۔ یہ دنیا بھر کی مضبوط جمہوری روایات کا اٹوٹ انگ ہے، جسے کسی ایک سیاسی جماعت یا عوامی رہنما کی خواہش پر جمہوری نظام سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).