زرداری نواز کشمکش اور بیچاری جمہوریت


پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور معاون چیئرمین آصف علی زرداری نے واضح کیا ہے کہ وہ نواز شریف کو درپیش سیاسی مشکلات سے نکالنے کےلئے مدد فراہم نہیں کریں گے۔ نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد آئینی ترامیم کے ذریعے سیاست میں واپسی کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان ترامیم کے حوالے سے کوئی ٹھوس تجویز ابھی سامنے نہیں آئی ہے تاہم خیال ہے کہ حکمران مسلم لیگ (ن) اپنی حلیف جماعتوں اور پیپلز پارٹی کی مدد سے آئین کی شق 62 اور 63 کو ختم کروانے یا ان میں ترمیم کروانا چاہتی ہے۔ اسی شق کے تحت نواز شریف کو امین اور صادق نہ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے انہیں تاحیات نااہل کیا ہے۔ اس کے بعد سے نواز شریف اگرچہ اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ سے پیدا ہونے والی صورتحال صرف ایک شخص کی نااہلی کا معاملہ نہیں ہے۔ آٹھ ماہ تک فیصلہ کی سماعت کرنے اور تحقیقات کروانے کے باوجود سپریم کورٹ پاناما کیس میں عائد بدعنوانی کے الزامات کے تحت سزا دینے میں کامیاب نہیں ہوئی بلکہ ایک غیر متعلقہ معاملہ میں غیر موصول شدہ تنخواہ کو اثاثہ قرار دے کر کاغذات نامزدگی میں اس کا ذکر نہ کرنے کی وجہ سے 5 رکنی بینچ نے کہا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے، اس لئے وہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز نہیں رہ سکتے۔ اس فیصلہ نے متعدد قانونی اور سیاسی سوالات نے جنم لیا ہے۔ قانونی سوالات کا جواب مقدمہ میں دائر اپیلوں کے دوران سامنے آ سکتا ہے لیکن اس کے سیاسی پہلو کے حوالے سے صرف چہ میگوئیوں اور افواہ سازی پر کام چلایا جا رہا ہے۔

آصف زرداری اور دیگر سیاستدان بخوبی جانتے ہیں کہ ملک کے سیاستدانوں اور اداروں کو کون سی مجبوریاں پیش آ سکتی ہیں اور وہ درپردہ کس قسم کے دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔ میمو گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے آصف علی زرداری کو اس مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی حساب برابر کرنے کےلئے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا تھا اور زرداری کو حکومت بچانے کے لئے فوج کے مطالبات کو تسلیم کرنا پڑا تھا۔ اسے مکافات عمل ہی کہا جا سکتا ہے کہ 2013 میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے نواز شریف کو فوج کی طرف سے مسلسل ایسے ہی دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ دنیا، علاقہ اور ملک کے تبدیل ہوتے ہوئے حالات کی وجہ سے فوج فی الوقت براہ راست اقتدار پر قبضہ کرنا مناسب نہیں سمجھتی لیکن پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے خاتمہ کے بعد سے فوج نے مسلسل یہ واضح کیا ہے کہ وہ ملک کے اہم سیاسی معاملات کو اپنی مرضی اور نقطہ نظر کے مطابق چلانا چاہتی ہے۔ اس لئے آج آصف علی زرداری اگر اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کریں گے تو وہ اس سچ سے انکار کر رہے ہوں گے جس کا وہ کل تک سامنا کرتے رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں دوبارہ کسی نہ کسی صورت میں وہی سچائیاں دوبارہ ان کے سامنے آ کر کھڑی ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ آصف علی زرداری نے نہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اور نہ وہ بھٹو کا نام بیچ کر سیاسی طرز عمل سے گریز کر پائے ہیں۔ بلکہ اب تو وہ ملک کا وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

نواز شریف ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور سب سے بڑے صوبے کے نمائندے ہیں۔ وہ بڑی اکثریت لے کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں بھی مسلسل عاجز کئے رکھا اور حکومت کو اہم قومی و عالمی امور پر کام کرنے کا موقع دینے کی بجائے ایک کے بعد دوسرے بحران کے ذریعے عاجز کئے رکھا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا ہے۔ ہو سکتا ہے اعلیٰ عدالت نے یہ فیصلہ میرٹ پر اور کسی دباؤ کے بغیر ہی کیا ہو لیکن فیصلہ کمزور قانونی بنیاد پر ہونے اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایک منتخب وزیراعظم کی اچانک تاحیات نااہلی کے معاملہ کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ خاص طور سے سپریم کورٹ کی مقرر کردہ جے آئی ٹی میں غیر معمولی اقدامات کرتے ہوئے جس طرح ملٹری انٹیلی جنس اور انٹر سروسز انٹیلی جنس کے نمائندوں کو شامل کیا گیا، اس سے اس سارے معاملہ پر شبہات کے سائے گہرے ہوتے رہے ہیں۔ اس ملک میں صرف سیاستدانوں نے ہی اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا بلکہ نوکر شاہی اور فوجی عہدیداروں نے بھی قانونی شکنی کی ناقابل یقین مثالیں قائم کی ہیں۔ ایسی صورت میں سپریم کورٹ اگر یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ سیاستدانوں کو تو قابل اعتبار نہیں سمجھتی لیکن فوجی ادارے قابل اعتبار اور قابل یقین ہیں تو عدالت عظمیٰ کے منصف ایک خاص گروہ کے بارے میں جانبداری اور تعصب کا اظہار کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سول اداروں کو معتوب ٹھہرا کر ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف شواہد اکٹھا کرنے کے لئے ایم آئی اور آئی ایس آئی کو استعمال کرنا بڑی تصویر میں ملی بھگت اور جمہوری نظام پر بداعتمادی کا عکاس کہا جا سکتا ہے۔ جے آئی ٹی کی کارروائی کے دوران ان دونوں فوجی اداروں کے نمائندوں نے مستعدی کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ حسین نواز شریف کی تصویر عام کرنے سے لے کر دبئی کی کمپنی کا سراغ لگانے تک کا کام انہی اداروں کا مرہون منت تھا۔ جے آئی ٹی نے 60 روز کی مختصر مدت میں جس طرح ضخیم رپورٹ تیار کی اور ناقابل یقین شواہد فراہم کئے وہ فوجی اداروں کے بھرپور تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس بارے میں بھی سوالات سامنے آ رہے ہیں۔

اس پس منظر میں نواز شریف کی نااہلی کو صرف ایک فرد کے خلاف فیصلہ کے طور پر قبول کرنا ممکن نہیں۔ اس فیصلہ سے یہ تاثر قوی ہوا ہے کہ جو بھی منتخب لیڈر فوج کی مقرر کردہ حدود کو تسلیم کرنے سے انکار کرے گا اور اہم قومی سلامتی اور خارجہ امور میں اپنی مرضی کی پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کرے گا، اس کےلئے کام کرنا مشکل بنا دیا جائے گا۔ اسی لئے آصف علی زرداری کی آج کی پریس کانفرنس اور اس میں کی گئی باتیں سیاستدانوں کی کمزوریوں اور مجبوریوں کی عکاسی تو کرتی ہیں لیکن اس عزم کا اظہار نہیں کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں مل کر قومی امور پر فوج کی نگرانی اور تسلط کی صورت حال کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ آج اگر نواز شریف جیسے طاقتور وزیراعظم کو حرف غلط کی طرح مٹایا جا سکتا ہے تو کل اس قوت کے ہاتھوں ملک کا کوئی بھی سیاستدان اور جمہوریت کی کوئی بھی روایت محفوظ نہیں رہے گی۔ کل نواز شریف نے ملک میں اپنے مذہبی حامیوں کی خوشی کےلئے پیپلز پارٹی کی طرف سے آئینی شقات 62 اور 63 میں ترامیم کو قبول نہیں کیا تھا تو آج آصف علی زرداری مسلم لیگ (ن) کی ایسی ہی کوششوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں تاکہ نواز شریف سے مستقل جان چھڑائی جا سکے۔ اس کا مطلب ہے کہ آصف زرداری کا یہ دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے کہ وہ اصول کی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور ملک میں جمہوریت کی حفاظت کےلئے سینہ سپر ہیں۔ وہ بھی نواز شریف کی طرح ذاتی اقتدار اور مفادات کے تحفظ کی سیاست کر رہے ہیں۔ اسی لئے وہ یہ امید کر رہے ہیں کہ پنجاب کے مقبول لیڈر اور اس کے خاندان کے سیاسی منظر نامہ سے غائب ہو جانے کے بعد عوام کے پاس بھٹو کے نام لیواؤں کے سوا کوئی متبادل نہیں ہوگا۔ انہوں نے آج اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ نواز شریف اور ان کا خاندان اب ملک کی سیاست میں غیر متعلقہ ہو چکا ہے اور مستقبل میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔

آصف علی زرداری کی یہ بات درست ہونے کا امکان موجود ہیں۔ لیکن اگر آصف علی زرداری اس نوشتہ دیوار کو پڑھ رہے ہیں تو انہیں اسی دیوار پر اپنے زوال اور سیاست سے مٹائے جانے کی کہانی بھی پڑھ لینی چاہئے۔ اگر سیاستدان، سیاسی مفاد کےلئے خفیہ قوتوں کا آلہ کار بنتے رہیں گے اور ذاتی سیاسی حساب برابر کرنے کےلئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے سے انکار کریں گے تو نواز شریف کے بعد آصف علی زرداری کا نام سرفہرست ہے۔ بدعنوانی کے جتنے الزامات نواز شریف پر عائد ہیں، اتنے ہی الزامات کا آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کو بھی سامنا ہے۔ دوسروں کے گناہ شمار کرنے سے اپنے گناہ کم نہیں ہو سکتے۔ نواز شریف کا کچا چٹھا کھولنے اور انہیں بدعنوان ترین حکمران کہہ کر قصہ پارینہ سمجھنے کی غلطی کرنے کے بعد آصف علی زرداری کو خود مشکلات کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کےلئے تیار رہنا پڑے گا۔ اس صورتحال کو صرف بعض سچائیوں کو تسلیم کرتے ہوئے تعاون کا راستہ ہموار کرکے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ 2015 میں فوج کے خلاف سرد گرم باتیں کرنے کے بعد آصف علی زرداری طویل خود ساختہ جلا وطنی گزارنے پر مجبور ہوئے تھے۔ وہ یہ بتانا ہرگز پسند نہیں کریں گے کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کے دور میں کیوں وطن واپس نہیں آ سکے تھے۔ اسی لئے انہیں نواز شریف سے اس بات پر ناراض نہیں ہونا چاہئے کہ جون 2015 کی تقریر کے بعد انہوں نے کیوں آصف زرداری سے ملنے سے معذوری ظاہر کی تھی۔

سیاستدانوں اور جمہوری نمائندوں کو ان مجبوریوں سے نجات دلائے بغیر ملک میں نہ جمہوریت بحال ہوگی اور نہ پروان چڑھے گی۔ زرداری کی یہ بات درست ہے کہ ملک میں جمہوریت کو خطرہ نہیں ہے کیونکہ ملک میں جمہوریت موجود نہیں ہے۔ البتہ اس کے نام پر ایک ناٹک ضرور رچایا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک میں جمہوریت بچانے کی نہیں، جمہوریت لانے اور اسے موثر بنانے کےلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali