پیچیدہ صورت حال میں مصلحت دکھانا کمزوری ہو گی


سابق وزیراعظم نواز شریف کو اس امر کا احساس تو ہو گیا ہو گا کہ پارلیمنٹ اور پارٹی کو نظر انداز کرنا ہر لحاظ سے غلط تھا، 2017 ءمیں پیش آنے والی مشکلات کا تعلق 2014 ءمیں پیش آنے والے واقعات سے جوڑا جائے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس تمام عرصے کے دوران نہ صرف پارٹی بلکہ کابینہ کو بھی لفٹ نہ کرائی جاتی، پارلیمنٹ جانے کا تو گویا راستہ ہی کہیں کھو گیا تھا۔ یہ وہی پارلیمنٹ تھی جس نے 2014 ءکے مہلک وار کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر حکومت کا دفاع کیا تھا۔2014 ءکے بعد 2016 ءمیں پھر بحران آیا تو پارلیمنٹ اور پارٹی کو استعمال میں لائے بغیر حکومت نے اپنے طور پر بعض اقدامات کر کے معاملہ نمٹا دیا۔ 2017 ءمیں جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے کوئٹہ میں خطاب کے دوران عدالتی فیصلے کے ذریعے وزیراعظم کی فراغت کو 58 ٹو بی کے مترادف قرار دیتے ہوئے عدلیہ اور فوج سمیت تمام سٹیک ہولڈر اداروں کو بیٹھ کر بات کرنے کی دعوت دی، یہ الگ بات ہے کہ اپنی پارٹی کی جانب سے دباﺅ آنے پر انہوں نے اپنا موقف مکمل طور پر تبدیل کرتے ہوئے کہہ ڈالا کہ عدالتیں آئین و قانون کے مطابق فیصلے کررہی ہیں۔

نواز شریف نے بطور وزیراعظم پارلیمنٹ میں موجود ان جماعتوں کو بھی سخت دکھ پہنچایا جنہوں نے اس سے پہلے ہر کڑے وقت میں ان کی عملی مدد کی تھی، پیپلز پارٹی ایک موقع پر اسٹیبلشمنٹ کے زیر عتاب آئی تو نواز شریف نے بالکل مدد نہیں کی بلکہ منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا، چودھری نثار نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے جو اقدامات خصوصاً پیپلز پارٹی کے خلاف کیے ان کے باعث اختلافات کی خلیج پاٹنا مشکل ہو گیا ہے۔

آزاد تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ نواز شریف کے ساتھ جو ہوا اس کی منصوبہ بندی بہت پہلے ہی سے کر لی گئی تھی اگرچہ اس ڈرامے کے بعض ایکٹ سکرپٹ کے مطابق نہیں ،مثلاً سکرپٹ میں لکھا تھا کہ پہلے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے ،استعفیٰ ملتے ہی شور مچا دیا جائے گا کہ ”چور“ خود ہی بھاگ گیا، اس طرح ان کی پارٹی پولیٹکس کو بھی زبردست نقصان پہنچتا۔ اگر واقعات اسی ترتیب سے رونما ہوتے تب بھی بعد میں نواز شریف کو عدالت سے نااہلی کا سامنا ضرور کرنا پڑتا، شاید اسی اندازے کی بنیاد پر نواز شریف نے عدالتی فیصلے سے قبل مستعفی ہونے سے متعلق تمام تجاویز مسترد کر دیں، جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد سے لاہور واپسی کے بارے میں ان کا دوسر ا فیصلہ بھی سکرپٹ رائٹر کی سوچ سے ہٹ کر تھا۔ اسی سفر کے ذریعے نواز شریف اپنے حامیوں کو ہی نہیں بلکہ تمام متعلقہ حلقوں کو یہ پیغام دینے میں کامیاب نظر آئے ہیں کہ ان کے ساتھ ”واردات“ کیسے ہوئی اور کون کون ملوث ہے۔

اب وقت گزر چکا لیکن اگر نواز شریف نے پارلیمنٹ کو ہی اپنی طاقت کا مرکز بنایا ہوتا تو شاید ان کی نااہلی کے بارے میں سب سے زیادہ شور منتخب ارکان کی جانب سے ہی مچایا جاتا، بحران پہلے دن ہی عروج پر پہنچ جاتا۔ کسی اور کو یاد ہو نہ ہو نواز شریف کو بخوبی یاد ہونا چاہیے کہ اپنی دوسری وزارت عظمیٰ کے دور میں جب وہ اس وقت کے ”بے قابو“ چیف جسٹس سجاد علی شاہ مرحوم کی یلغار کی زد میں تھے تو بچاﺅ کیلئے انہیں کئی طرح کے مشورے دئیے گئے تھے، ایک قانونی ماہر نے 1960 ءکی دہائی میں بھارتی ریاست اڑیسہ میں پیش آنے والے واقعہ کی نظیر بھی پیش کی تھی کہ کسی معاملے پرہائیکورٹ اور وزیراعلیٰ میں ٹھن گئی، بڑے جج بہادر نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ ریاستی اسمبلی نے اس نوٹس کو اپنی تضحیک جانا اور متحد ہو کر چیف جسٹس کیخلاف قرارداد منظور کر ڈالی، صرف یہی نہیں بلکہ اسمبلی کی استحقاق کمیٹی نے ”توہین اسمبلی“ کے الزام میں چیف جسٹس کو پیش ہونے کا نوٹس جاری کر دیا، اس سے پہلے بحران مزید سنگین ہوتا ریاستی گورنر حرکت میں آئے اور وزیراعلیٰ ،چیف جسٹس کو ایک ساتھ بٹھا کر اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنے کی نصیحت کر دی۔ یقینا اڑیسہ کا یہ واقعہ پاکستان کے موجودہ بحران سے خاصا ہٹ کر ہے مگر اس میں جمہوریت کی مضبوطی اور اسمبلی کے وقار کے تحفظ کیلئے منتخب ارکان کے متحد ہو جانے کی بات بہت بڑا پیغام ہے۔

خیر ہمارے ہاں تو واقعات تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ نواز شریف اور ان کے بچوں کو نیب نے طلب کر لیا ہے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شریف خاندان کیخلاف نیب ریفرنس تیار کرانے کے سارے عمل کی نگرانی سپریم کورٹ کے جج کررہے ہیں،ایسے میں اپنی نااہلی کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دائر کردہ نظر ثانی اپیل کو اتمام حجت سے زیادہ درجہ نہیں دینا چاہیے، عام لوگ بھی یہی محسوس کررہے ہیں کہ یہ درخواست محض خانہ پوری کے لیے دائر کی گئی ہے تاکہ کل کو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ سابق وزیراعظم نے اپنا قانونی حق استعمال ہی نہیں کیا، دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) بطور جماعت اس تمام صورت حال کا مقابلہ کرنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے، اب تک تو نواز شریف کی جانب سے عوامی رابطہ مہم چلانے کے فیصلے کو سیاسی تجزیہ کار بہت اہم قرار دے رہے ہیں، پہلے مرحلے میں جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد سے لاہور واپسی کا سفر کسی بھی لحاظ سے برا نہیں تھا، اگلا مرحلہ کیا اور کیسے ہو گا اس کے بارے میں ابھی تک الجھن پائی جاتی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ اس حوالے سے پارٹی کے اندر اختلافات پائے جاتے ہوں یا پھر واقعتاً خاندان میں بھی اتفاق رائے نہیں ،یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر دستیاب آپشن ہیں ہی کتنے؟ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ واضح طور پر ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ملک آئین اور قانون کی درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، ایک خطاب میں انہوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ملک کے تمام ادارے ایمانداری سے اپنا کام کررہے ہیں، آرمی چیف کے اس بیان کو کئی تجزیہ کار سابق وزیراعظم کی ان تقاریر کا جواب قرار دے رہے ہیں جن میں انہوں نے اپنے خلاف نااہلی کے فیصلے پر عدالت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ایسے میں طاہر القادری کو بھی طلب کر لیا گیا، عمران خان، شیخ رشید اینڈ کمپنی بھی میدان میں ہیں۔ ہنگامی بنیادوں پر ملی مسلم لیگ بنا کر امیدوار دریافت کر کے حلقہ این اے 120 میں بھی جھونک دیا گیا ہے۔ تاثر یہی ہے کہ جماعت الدعوة کا امیدوار خود تو بری طرح سے ہارے گا ہی مگر مسلم لیگ(ن) کے ووٹ بنک میں نقب لگانے میں کامیاب ہو جائے گا، سو مقتدر حلقوں کی سابق وزیراعظم کے انتخابی حلقے میں واحد دلچسپی شیر کو پچھاڑنے میں ہے، آگے جو ہو گا وہ سب کے سامنے آجائے گا۔ نواز شریف کو اپنی آئندہ حکمت عملی اور پارٹی کے حوالے سے کئی اہم فیصلے جلد کرنا ہونگے، سردار یعقوب ناصر کو قائم مقام پارٹی صدر بنانا دور رس مثبت نتائج کا حامل اقدام ہو سکتا ہے۔ اپنی ہی پارٹی کی وفاقی اور دو صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں نواز شریف کا بچوں سمیت جیل جانا کیسا منظر ہو گا؟

حکومت میں رہنا اگر نواز شریف کی طاقت نہیں تو پھر کمزوری بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے کوئی پلان تیار کیا گیا ہے یا نہیں، وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہاں مگر اس حوالے سے بھی تاخیر خطرناک ہو گی۔ جب ٹارگٹ قیادت سمیت پوری پارٹی ہے تو حکومتوں کو چلنے کون دے گا، سسک سسک کر مدت پوری کرنے کی کوشش سے کہیں بہتر ہو گا کہ کوئی فیصلہ کر لیا جائے، کنفیوژن پیدا کرنے والے عناصر کو ایک طرف کرنا لازم ہے خواہ وہ کتنے ہی بااثر اور قریبی کیوں نہ ہوں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کیلئے بہتر ہو گا کہ سپریم کورٹ سے از خود درخواست کرے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم ٹین فوری طور پر کھولا جائے، مخصوص میڈیا رپورٹس کے مطابق اس والیم میں شریف خاندان کو ہنود و یہود کا ایجنٹ قرار دیا گیا ہے، اگر ایسا ہے تو ’مودی کے یار‘ کیلئے اس میں کوئی نئی بات کیا ہے۔ مخالفانہ پروپیگنڈا تو ہر صورت ہونا ہے، کسی کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ کوئی چیز راز میں رکھ کر دھونس جماتا رہے۔ اس کے ساتھ ماڈل ٹاﺅن واقعہ کے حوالے سے جسٹس باقر علی نجفی کی رپورٹ بھی منظر عام پر لائی جائے۔ اس حوالے سے کوئی عدالتی قدغن ہے تو اسے دور کرنے کیلئے حکومت کو ہی رجوع کرنا چاہیے۔

دلچسپ بات ہے کہ اس رپورٹ کے کئی حصے بھی 2014ءمیں ہی مخصوص میڈیا میں نشر ہو چکے ہیں۔ اس رپورٹ کی جو بھی قانونی حیثیت ہے اس کے مطابق ڈیل کرتے ہوئے معاملہ آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ نظر تو یہی آرہا ہے کہ شریف خاندان کیلئے آگے مشکلات اور مصائب کے پہاڑ ہیں، ان کو سرکرنا ہے تو اپنے کندھوں سے ”فاضل“ بوجھ اتار پھینکنا ہو گا۔ آگے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے توپاﺅں میں پڑی خطرات، خدشات کی بیڑیوں کو کاٹ کر پھینکناہو گا، یہ عزم کر لیا جائے تو پھر خطرات میں کودنا بھی کسی طور مہنگا سودا نہیں، ایک لہر چل چکی، ایک بحث چھڑ چکی، قومی معاملات درست سمت میں جانے کے آثار ہیں، سب کچھ اچھے انداز میں طے پا جائے تو کیا بات ہے، اگر اس کی کوئی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے تو سودا مہنگا نہیں۔اب تک کی صورت حال میں یہ چیز بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پوری طرح سے گھیراﺅ میں آئے ہوئے سابق وزیراعظم کے مخالفین کی صفوں میں بھی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ نواز شریف کی حرکات و سکنات کو سنجیدہ چیلنج کے طور پر لیا جارہا ہے جو بذات خودبڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کی ایک بڑی علامت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).