بندہ بشر ہے، شعر پڑھ کے بشیر ہوتا ہے


کسی دوست یار سے ملاقات ہو اور آپ پڑھنے لکھنے کے شوقین ہوں تو سامنے سے پہلا سوال یہی آتا ہے، ہاں بھئی تمہاری شعر و شاعری کیسی جا رہی ہے؟ کم آن، کیا کتابیں صرف شعر و شاعری کا نام ہیں؟ اس سوال پر کوفت کا شکار ہونے کی بجائے اگر یہ سوچا جائے کہ اس کی وجہ کیا ہے تو سامنے کی ایک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شاعری وہ میڈیم ہے جو زمانہ قبل از تاریخ سے آج تک کسی نہ کسی طور محفوظ چلا آ رہا ہے۔ ادیب لمبی لمبی کتابیں لکھ مارتے ہیں لیکن سو دو سو برس بعد بمشکل ان میں سے اگر کچھ زندہ رہتا ہے تو وہ چند اقوال زریں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ارسطو، افلاطون، ارشمیدس، سقراط، ان سب نے بہت سا کام فلسفے میں کیا، سوشل سائینسز کی شروعات کی لیکن ان سب چیزوں کو آج کتنے لوگ جانتے ہیں؟

دیوجانس کلبی کا نام آتے ہی زیادہ سے زیادہ وہ واقعہ یاد آئے گا جب سکندر اعظم سے اس نے کہا تھا کہ میاں مجھے کچھ نہیں چاہیے بس ذرا دھوپ چھوڑ دو۔ افلاطون کا لفظ بذات خود ایک محاورے میں تبدیل ہو چکا ہے، کسی کو طنزیہ انداز میں عقلمند کہنا ہو تو افلاطون کہہ دیا جائے گا۔ ارشمیدس کا ذکر چھڑے تو اس کا نعرہ “یوریکا” (میں نے پا لیا) یاد آئے گا اور وہی قصہ کہ جب اسے دوران غسل ایک ریاضی کا فارمولا سوجھا تو وہ کیسے لباس فطری میں شہر کے چوک پر کھڑا ہو کر یہ نعرہ لگا رہا تھا۔ سقراط کے ساتھ زہر کا پیالہ ٹچ بٹن ہو چکا ہے، کیوں پیا کتنوں کو معلوم ہو گا، کیا کہتا تھا، کیا لکھتا تھا؟ کسے فکر ہے، یہی حال ان کے بعد اور ان سے پہلے والوں کا بھی ہوا۔ نثر بہت کم یاد رکھی جاتی ہے چاہے سائنسی علوم ہوں چاہے ادبی کارنامے ہوں، فکشن ہو، کچھ بھی ہو جائے۔ نثر پڑھنے اور بھلانے کے لیے ہوتی ہے۔ اس میں بھی ایک ارذل مقام ہے جو روزانہ کی بنیاد پر نیا کنواں کھودنے کے مترادف ہے اور وہ کنواں شام ڈھلتے ہی پاٹ بھی دیا جاتا ہے، وہ اخباری کالم کہلاتا ہے۔

شعر اس کے برعکس کلک کر جاتے ہیں۔ کوئی ایک شاعر تمام عمر شعر کہتا رہے گا لیکن ایک گھڑی ایسی آئے گی جب دس پندرہ الفاظ کے دو مصرعے ایسے کہہ جائے گا جو مرنے کے بعد بھی اسے زندہ رکھیں گے۔ ہمارے یہاں ابن حنیف صاحب نے قدیم مصری تہذیب اور ملتان یا ٹیکسلا وغیرہ کے ادب پر بہت کام کیا، ان کی ضخیم کتابیں اس موضوع پر موجود ہیں۔ کس نے یاد رکھا؟ مصر یا میسوپوٹیمیا وغیرہ میں ازمنہ قدیم کے نثر نگار کیا ہانکتے تھے، وہ مغرب میں بھی ڈی سائفر ہوا، پڑھا گیا لیکن سب کچھ عجائب گھروں کی زینت ہے، یا فلنڈرز پیٹری نے پڑھا ہو گا یا زاہی ہواس کو یاد ہو گا، یا ان دونوں ماہر مصریات کے چند شاگردوں نے مارے باندھے کچھ کتبے رٹ لیے ہوں گے، اور کون ہے جو جائے، گڑے مردے اکھاڑ کر پوچھے کہ بھیا کیا لکھتے پھرتے تھے۔ اس سب کے برعکس اس زمانے کی شاعری آج بھی زندہ ہے۔ میسوپوٹیمیا کی گلگامش، یونان کی الیڈ اور اوڈیسی، بھارت کی رامائن اور مہابھارت، عرب دور جاہلیت کے معلقات، یہ سب آج بھی پڑھے جاتے ہیں، مختلف حصے ان میں سے بچوں کے نصاب تک میں شامل ہیں۔ شاعری کی تعریف صفی لکھنوی سے بہتر شاید ہی کوئی کرے؛

شاعری کیا ہے دلی جذبات کا اظہار ہے
دل اگر بے کار ہے تو شاعری بے کار ہے

اچھی شاعری کی نہیں جاتی وہ ہو جاتی ہے، اس کے برعکس اچھی نثر کوشش کر کے لکھی جاتی ہے، کبھی ایڈیٹنگ کے بعد ممکن ہوتی ہے، بعض اوقات عطا بھی ہو سکتی ہے۔ ایک اچھا شعر کس طرح سے آتا ہے اور کیسا معصوم سا ہوتا ہے دیکھیے؛
ہمارے چہرے دم صبح دیکھتے آ کر
کہ ہم نے رات نہیں زندگی گزاری ہے

ضروری نہیں عباس تابش کا یہ شعر اسی وقت لپیٹ میں لے لے، کچھ وقت لگے گا، کچھ بالوں کی رنگت تبدیل ہو گی، ہو سکتا ہے اسی وقت کہیں ترازو بھی ہو گیا ہو، اچھا شعر اصل میں ایسا ہی ننھا سا کیوپڈ نما بچہ ہوتا ہے جو اپنا تیر سنبھالے تاکتا رہتا ہے، اب آیا کہ شکار اب آیا اور پھر چار چوٹ کی مار مارتا ہے۔
خود کو سو ناموں سے بہلاتے رہو چلتے رہو
سانس رک جائے جہاں، سمجھو وہیں منزل ہے
اور اس دوڑ سے تھک جاؤ تو سگریٹ پی لو

اخترالایمان بظاہر اس مختصر نظم میں سگریٹ نوشی کے فضائل بیان کر رہے ہیں لیکن دوبارہ پڑھیے، سانس رک جائے جہاں سمجھو وہیں منزل ہے، مر جائیے گا تو بھئی قبر ہی منزل ہے، اور اگر نہیں مرتے تو سگریٹ حاضر ہے، شغل کیجیے، موت بھی آ ہی جائے گی۔ رہی زندگی تو وہ سو ناموں ہی کا بہلاوا ہے جس مرضی نام کی مالا جپیں نام ایک ہی رہ جانا ہے!
ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر

عرفان صدیقی (انڈیا) کا یہ شعر کیا مزید کوئی بات بھی کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ مطلب اس قدر خوفناک حد تک اندر اتر جانے والا شعر ہے کہ دفتر سے آئیں، تھکے ہوئے بیڈ پر لیٹیں اور اس کی پٹی چلنے لگے گی۔ ذرا کوئی ٹریجڈی والا سین ہو جائے کھٹ سے اسی کے ٹِکر چلنے لگیں گے۔ بلاغت کا ایک دریا ہے جو صحرا کے استعارے میں بند کر دیا ہے۔ ہوا پر ہی پر نسیم صادق کا ایک بہت عمدہ شعر تھا؛
ہوا ہی ایسی چلی ہے ہر ایک سوچتا ہے
تمام شہر جلے، ایک میرا گھر نہ جلے

تو بھئی شاعری ایسے یاد رہ جاتی ہے کہ اتنی لمبی نثری خرافات میں سے پڑھنے والے کو ایک شعر پسند آیا، اس نے ڈائری میں لکھا یا وال پر چیپ دیا، فقیر بورئیے پر بیٹھے رہ گئے۔ اچھا شعر اصل میں بے وقوفانہ حد تک لمبی چوڑی بات کو دو مصرعوں میں سمو دیتا ہے۔ جس بات پر دفتر کے دفتر لکھے جائیں وہ اسے دو لائنوں میں سمیٹ لینے کی قدرت رکھتا ہے، مثلاً؛
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے

ساری شاعری بھری پڑی ہوتی ہے محبوب کی بے وفائیوں سے کج ادائیوں سے، احمد مشتاق آتے ہیں، دو مصرعوں میں مشاعرہ لوٹ کر چلے جاتے ہیں۔ لڑکپن کی یہ واردات کئیوں کے ساتھ گزری ہو گی لیکن اس طرح ردیف قافیے کی قید میں لا کے اسے امر کس نے کیا، ایک شاعر نے، نثر والا غریب بہت کرتا تو کیا کرتا، کوئی لمبا چوڑا افسانہ لکھ مارتا، کہیں سے ایران توران کی علمی توجیہات پیش کر دیتا لیکن اس طرح سے تصویر کی مانند خیال ایک کینوس پر اتار دینا یہ شاعر کا ہی کام ہے۔ شاعری لیکن اتنا سیدھا کام بھی نہیں ہے۔ اچھا شعر ٹائم ٹیسٹڈ ہوتا ہے، مشاعرے میں ہٹ ہو جانے والے شعر وقت کے ہاتھوں پٹ جاتے ہیں، اپنے وقت کے بڑے بڑے سپر سٹار شاعر کتابوں کے ریک میں تابوت کی صورت موجود ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو یوں بھی ہوتا ہے کہ عمر بھر کی ریاضت ایک شعر کے ہاتھوں مٹی ہو جاتی ہے، وہی شعر سب کو یاد رہتا ہے باقی دیوان دفن ہو جاتے ہیں۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

ثاقب لکھنوی کا دوسرا کوئی شعر جو یاد ہو؟
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

امیر اللہ تسلیم جنت مکانی کے نام سے کوئی اور شعر سنا دیجیے؟ تو بس یہ قصہ ہے۔ شاعری کارِ دیگر است۔ یہ جنون کا سودا ہے، جسے ہو جائے اس کا وارث خدا ہے۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا!
(بندہ بشر ہے، اشعار کی صحت میں غلطی کے امکان پر ایڈوانس دست بستہ معذرت)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain