کوئی حال نہیں بس یہ حال ہے
پچھلے پندرہ سال کی شعوری زندگی میں ملکی سیاست کو دیکھتے اور پڑھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آمریت کسی بھی رنگ میں چاہے وہ بظاہرکیسی ہی عمدہ کیوں نہ ہو اجتماعی ہیئت و شعور کے لئے فیصلہ ساز نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کسی بھی قومی و ریاستی مفاد کا تعین نہیں کرسکتی ہے۔ اس ضمن میں غیر منتخب اداروں کے تشریح شدہ قومی مفاد کے نام پراٹھائے گئے اقدامات سے نہ صرف سماج مجموعی طور پر کمزور پڑتا ہے بلکہ وہ ملکی سالمیت، جس کے تحفظ کا کھوکھلا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ بھی داؤ پہ لگی رہتی ہے۔ میں یہ بھی سمجھا ہوں کہ غیر منتخب ہتھیار بند ادارے اس حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں کہ وہ اپنے اقدامات سے ریاست اور سماج دونوں ہی کو کمزور کر رہے ہیں پھر بھی اس مسلسل تحریک کو اس بناء پر جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ان کے اِن اقدامات کے نتیجے میں ان کی غیر آئینی طاقت کو، جو انہیں سالہا سال کے استبدادی رویئے کے سبب حاصل ہوئی ہے، دوام رہے گا۔
اب جبکہ ملک کی طبعی عمر ستر برس ہوچکی ہے یعنی قوموں کی زندگی کی زبان میں کہیے تو پاکستان جوان ہوگیا ہے۔ اگرچہ پاکستان تو جوان ہوگیا مگر پاکستانی اشرافیہ بالغ نظرنہ ہوئی۔ جبری طور قابض آمر جو آمریت کی سیڑھی ادارے کے کندھے پہ رکھ کے چڑھتے تھے تا کہ ان کی سیڑھی کو سہارے کے لئے اشرافیہ کا ہاتھ موجود رہے۔ یونہی ستر برس کا نصف سے زائد آمریت کے سائے میں نہیں گزرا۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی اشرافیہ اپنے ان سیاہ اعمال سے غافل تھی اور ایسا بھی نہیں تھا کہ اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہتھیار اور اقتدار کا یہ گٹھ جوڑ نہ صرف ایک روز اسی ملک کو دولخت کردے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ نفرت اور بداعتمادی کی ایسی مستقل فضاء قائم کردے گا یوں ملک کے اندرونی و بیرونی ہردو طرح کے تحفظ پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ اشرافیہ یہ بات جانتی ہے مگراس کے باوجود یہ سیڑھی ہل جائے تو اسے پھر سے جماکرمضبوط کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے۔ میری دانست میں اس کی وجہ یہی ہے کہ سماج میں اشرافیہ کو اپنی حثیت کو دوام دینے کےلئے ایسے ہی کسی کمزور اور لرزتے سماجی ڈھانچے کی ضرورت رہتی ہے جو اپنے ارتقاء کے سفر کو دائروی رکھے تاکہ جمود باقی رہے اور اگر کہیں کوئی نچلے طبقے سے چیلنج کرنے کو اٹھے بھی تو وہ بھی اسی دائرے کا حصہ بن جائے۔
درج بالا قسم کے ریاستی ڈھانچے اور جغرافیائی خطے میں بسنے والے افراد اگر لاکھوں کروڑوں میں ہوں تو انہیں باآسانی مختلف گروہوں کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن انہیں ایک قوم کہنا شاید درست نہ ہوگا۔ قوم کی اصطلاحی تشریح یہ ہے کہ افراد کا ایسا منظم گروہ جو لسانی، علاقائی یا مشترکہ سیاسی و معاشی مفادات کے حصول کے لئے کسی خطہ ارضی کا مالک ہو۔ پاکستان معروضی طور پر اپنی اصل میں ان صورتوں میں سے شاید ہی کسی پر مکمل طور سے پورا اترتا ہو۔ لہذا سماجی، معاشی، معاشرتی، لسانی اور کئی دیگر طرح سے منقسم گروہ جو ایک تاریخی واقعے کے طور ایک ملک میں اکٹھے کر دیے گئے ہیں جسے ہم پاکستان کہتے ہیں اور ہم اس جغرافیائی اکائی کا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں۔ یہاں بسنے والے افراد کی اکثریت کا بنیادی مطمع نظر فقط جینا ہے۔
افسوس کہ یہاں جینے سے مراد محض جینا ہی ہے۔ اس طرح کے بس سینے میں سانس کا بھونپو بجتا رہے۔ یہاں رہنے والوں میں سے اکثریت کا مقصدِ حیات موقع ملتے ہی یہاں سے کسی اور ملک کی سمت ہجرت کرجانا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ درج بالا ریاستی و سماجی طبقات کی موجودگی میں یہاں پوری طرح کی سیاسی سماجی اور معاشی حثیت سے باعزت جینا ازحد مشکل ہے۔ تو وہ لوگ جو یہاں جی رہے ہیں وہ اس کیفیت کو برقرار رکھنے کے لئے مجبور ہیں کہ وہ تمام اوامر بروئے کار لائیں جو اس حجت کو پورا کرنے کےلئے لازم ہیں۔ اخلاقیات اور سماجی اقدار نامی چیزیں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ سماجی و اخلاقی اقدار جیسی گفتگو ئیں وہاں جنم لیتی ہے جہاں مجموعی سماجی ڈھانچہ ایک یکساں بنیاد پہ کھڑا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ فضاء میں فکر و شعور کی اتنی آزادی بہرحال میسر ہوں کہ اس بنیاد پہ سوال اٹھانا کوئی جرم خیال نہ کیا جائے۔ بہرحال سوال ہی اصلاح کا راستہ ہے اور اس راستے کو ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔
چونکہ میری دانست کے مطابق کی گئی منظر کشی میں دیکھنے والوں کو یہاں ایک نا امید ی اور جمود دکھائی دے رہا ہے اور اس سماج کی شکل فیتے میں آگ لگے بم کی سی ہے تو اس صورت میں یہاں کے لوگ سوائے اس کے کہ کوئی اوتار اتر آئے اور چشم زدن میں یکلخت سب کچھ ٹھیک کردے کے علاوہ کوئی اور امید کیسے رکھ سکتے ہیں۔ سو وہ خمینی یا ماؤ جیسے کسی رہبر کے منتظر ہیں۔ ایسی سماجی صورت ہی تو ہمارے خودساختہ رہبران کو راس آتی ہے لہذا وہ ہمیشہ ظلمت کی رات میں ضیاء بننے کے لئے ہردم تیارو کامران رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ جس کسی نے بھی افراد کے کسی بھی گروہ کی حمایت سے ان کے طےکیے غیر تحریری ضابطے توڑنے کی کوشش کی تو وہ کسی بھی ذریعے کو بروئے کار لاتے ہوئے راستے سے ہٹا دیا گیا۔
- جب ایمان کو اتحاد پہ فوقیت دی گئی - 25/01/2023
- جمہوریت کی مضبوطی میں کشمیر کے مقدمے کی جیت ہے - 10/11/2020
- 14 جون۔ چی گویرا کی سالگرہ کا دن - 15/06/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).