نواز شریف کا سیاسی باؤنس بیک


عرب شاعر نزار قبانی کے الفاظ ہیں۔ ’’مجھے یقین ہے ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے جو مجھے پڑھنے میں غلطی کریں گے۔ نہیں تو سمجھنے میں غلطی کریں گے یا پھر مجھے غلطی سے ذبح کر ڈالیں گے۔ ‘‘ وجہ کوئی بھی ہو نواز شریف کے ساتھ کم و بیش ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ اس بار تو انہیں واقعی سیاسی طور پر ذبح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نواز شریف کی سیاست سے لاکھ اختلافات کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ وہ واحد پاکستانی رہنما ہیں جنہیں تین بار عوام نے منتخب کیا اور تینوں بار انہیں مدت پوری کرنا نصیب نہ ہوا۔

اس مرتبہ آئین اور قانون کے جس پنجرے میں انہیں بند کیا گیا ہے بظاہر وہ اڈیالہ اور لانڈھی جیل سے بھی کہیں زیادہ گھٹن زدہ ہے۔ وہ اس قید خانے سے باہر نکل پاتے ہیں یا نہیں فی الحال یہ کہنا بڑا مشکل ہے۔ البتہ جی ٹی روڈ کے ذریعے ان کی واپسی پر جو مناظر دیکھے گئے ہیں اس سے کسی حد تک اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ گر کر سنبھلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں یا کم از کم اس کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔ ہاں لاہور کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ ان کا سیاسی مستقبل کسی حد تک مزید واضح کر دے گا۔

ہمارے یہاں روایتی طور پر عدالتی فیصلے عوام کی سیاسی اپروچ کو زیادہ متاثر نہیں کرتے۔ اس کی متعد د وجوہ ہیں۔ ایک تو عوام کی سیاسی کمٹمنٹ بڑی سخت ہوتی ہے۔ دوسرا ماضی میں جسٹس منیر کے ’’نظریہ ضرورت‘‘ اور جسٹس ارشاد کے مشرف کو آئین کا ’’مختار کل‘‘ بنانے۔ ججز کے پی سی او پر ’’آمین‘‘ کہنے تک ہماری عدالتی تاریخ مفاداتی چنگل اور آمرانہ دباؤ کا شکار رہی ہے۔ اب اگر کوئی سیاسی قضیہ میرٹ کی بنیاد پر بھی نمٹایا جائے تب بھی عوام اسے شک و شبہات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ میاں صاحب کی نا اہلی کے فیصلے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

نواز شریف کو گھر بھیجنے کے لئے آئینی اور قانونی داؤ پیچ کاجس طرح استعمال کیا گیا اس پر عام آدمی کو ہی نہیں قانونی ماہرین کو بھی شدید تحفظات اور اعتراضات رہے ہیں اور اس کا اب زیادہ کھل کر اظہار ہو رہا ہے۔ اب جو فیصلہ آیا ہے اس کے سیاسی مضمرات دیوار پر لکھے ہیں جو وقت کے ساتھ مزید نمایاں ہوں گے لیکن جمہوریت پسند ذہنوں کو سوچ کے نئے زاویے بھی ملے ہیں۔ لوگ کھل کر کہہ رہے ہیں کہ منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کا سلسلہ بہرطور بند کرنا ہوگا۔ اب تو وہ لوگ بھی سر جوڑے بیٹھے ہیں جو یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی پر خوشیوں کے شادیانے بجا رہے تھے۔ یہ سوال بھی ہورہا ہے کہ کیا کسی بھی ادارے کو صادق اور امین کا فیصلہ کرنے کے ”خدائی اختیارات“ دیے جاسکتے ہیں؟ کیوں نہ یہ معاملہ اللہ پر ہی چھوڑ دیا جائے؟

قوم میں یہ تشویش بھی موجود ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک طبقہ تقدیس کا چوغا اتارنے پر رضامند ہوا تو کوئی اور اس کی جگہ لینے کی کوشش کر رہا ہے؟ فوج پر تو پھر لوگ کچھ کسی نہ کسی طرح کہہ سن لیتے ہیں مگر یہاں تو معاملہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ نہیں معلوم یہاں کون سا لفظ ”توہین ” کے زمرے میں آجائے اور آپ کی گردن ناپ لی جائے۔ اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ بہت ہی اچھا ہوگا اگر عدلیہ اپنا وقار بحال کرنے کے لیے خود اپنے اختیارات کی واضح حد بندی کرلے؟ خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ طاقت کے محور اداروں کے درمیان ایک دوسرے کو زیر کرنے کی نئی مہم شروع ہوجائے۔ جس کے واضح اشارے نواز شریف کی تقریروں میں مل رہے ہیں۔ اگر اختیارات کی رسہ کشی کا کھیل شروع ہو گیا تو پاکستان جیسی کمزور ریاست کے لیے تو یہ مرے پر سو درے ثابت ہوگا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ عدلیہ خود ایک فل بینچ تشکیل دے جو اس بات کا جائزہ لے کہ نواز شریف کی نا اہلی کے اس فیصلےنے اداروں کے درمیان طاقت کا توازن بالکل بگاڑ کر تو نہیں رکھ دیا؟ یہ بھی سوال ہو رہا ہے کہ کیا پانچ، سات یا سترہ افراد کی بصیرت پوری قوم کی سیاسی بصیرت سے زیادہ افضل اور صائب ہوسکتی ہے؟ اگر جواب ”ہاں“ میں ہے تو پھر مان لیا جائے کہ کروڑوں عوام لکڑی اور پتھر کی بنی ایسی مخلوق ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ پھر ہر پانچ سال بعد انتخابات کا ڈھونگ رچانے اور اربوں روپے خرچ کرنے کی بھی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟

اب ان آئینی شقوں کو بھی کالے پانی بھیجنے کی باتیں ہورہی ہیں جو عوام سے ان کا ”حق انتخاب یا حق ملکیت ”چھیننے کا جواز بنی ہیں۔ جو انسانوں سے فرشتہ ہونے کا تقاضا کرتی ہیں۔ جو جمہوری اور مخملی آئین میں ٹاٹ کا پیوند ہیں۔ جن کے استعمال سے سوائے اناوں کی تسکین کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ رہا سوال یہ کہ کیا شریف خاندان کا سیاست سے پتا صاف ہو گیا؟ پاکستانی قوم کے مزاج اور تاریخ کو دیکھا جائے تو جواب نفی میں ہے۔ ہمارے یہاں کسی سیاسی رہنما کو ادار ہ جاتی طاقت سے جس قدر دبانے یا کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ اسی طاقت سے واپس پلٹتا ہے۔ جسے ’’ سیاسی باؤنس بیک ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔

سیاسی رہنماؤں کو بلٹ کی موت تو مارا جاسکتا ہے لیکن ان کی سیاسی موت ہمیشہ بیلٹ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ بے نظیر دنیا سے چلی گئیں لیکن لوگوں نے اپنے ووٹ ان کی قبر کے کتبے پر کندہ کر دیے۔ سپریم کورٹ سے ثبوت اور تابوت ایک ساتھ نکلنے کی باتیں ”شیخ کی شیخی ”کے سوا کچھ نہیں کیونکہ سیاست دانوں کی مقبولیت اور نا اہلیت کے اصل ثبوت اور تابوت پولنگ اسٹیشنوں سے نکلا کرتے ہیں۔ سیاست ہویا صحافت یا پھر عدالت۔ اب ’’نقل بمطابق اصل‘‘ کا دور گزر چکا۔ لوگ سمجھ جاتے ہیں کون کہاں سے بول رہا ہے۔ فیصلے آئین سے ہو رہے ہیں یا انگریزی ناولوں کا اثر کام دکھا رہا ہے۔ عوامی شعور اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ وہ جعلی اور اصلی پروڈکٹ کی پہچان کر سکتے ہیں۔ وہ آئینی اور قانونی لبادے میں لپٹے فیصلوں کو انصاف کی کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں۔ نواز شریف کی برطرفی مخالفین کی سیاسی چالاکی اور ہوشیاری تو مانی جاسکتی ہے مگر بہادری یاکامیابی ہرگز نہیں۔ سیاست مقابلے کا نام ہے۔ آج تک ایسی کوئی ریس نہیں ہوئی جس میں اکیلا گھڑ سوار ہی دوڑا جا رہا ہو۔ حریف کو دوڑ سے باہر کرکے جیت کی خوشی منانا محبوب کے خط جیسا ہے جوکھولنے پر خالی نکلتا ہے۔

مان لیا امین اور صادق کی چھلنی سے نواز شریف نہیں نکل پائے لیکن جہان سیاست میں کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جو یہ معجزہ کر دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو؟ دوراندیشی اور فہم کا تقاضا یہی ہے کہ منتخب نمائندوں کی نا اہلی کے سیلابی ریلے کو یہیں پر روک لیا جائے ورنہ یہاں کسی کا گھر بھی فضاوں میں معلق نہیں۔ سب اسی زمین پر رہتے ہیں۔ ہمیں سیاسی کشتی صرف سیاسی اکھاڑے میں لڑنے کا آفاقی اصول اپنانا پڑے گا۔ خودساختہ“عظیم اچھائی“ کے لیے قانون مروڑنے جیسی ”چھوٹی برائی“ کو جائز قرار دینے کی سوچ کو دفن کرنا پڑے گا۔ ورنہ کسی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری کرتے دیکھنے کی آس میں ایک نسل تو ختم ہو چکی ایک اور ہوجائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).