سورج گرہن کے خطرات اور بچاؤ


ہمارے خاندان میں سب لوگ چشمہ لگاتے ہیں۔ میں‌ بھی اور میرے بچے بھی۔ میری امی کے پاس ہمیشہ دو چشمے ہوتے ہیں تاکہ ایک گم جائے تو دوسرا لگا کر اس کو ڈھونڈا جاسکے۔ ان کے بہن بھائی کہتے تھے کہ آپی چشمہ لگا کر سوتی ہیں تاکہ خواب صاف صاف دکھائی دیں۔

ہر طرف سورج گرہن ہونے کا انتظار اور اس کو دیکھنے کی تیاری ہورہی ہے۔ پچھلے 38 سال سے یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ میں‌ مکمل سورج گرہن ہوجائے گا۔ 21 اگست پر سورج گرہن نئی دلی اور لاہور میں بھی دیکھا جاسکے گا۔ ہمارے بچے خاص طور پر سورج گرہن دیکھنے دوسری اسٹیٹ میں‌ جارہے ہیں جہاں‌ سے بہتر نظر آئے۔ اس کے لئے انہوں‌ نے اسپیشل چشمے لئے ہیں‌ تاکہ سورج کو دیکھنے سے آنکھیں خراب نہ ہوجائیں۔ چشمہ بھی خیال سے لینے کی ضرورت ہے۔ کافی جگہوں‌ پر ”سن گلاسز“ کے نام سے عام چشمے مل رہے ہیں جو سورج گرہن دیکھنے سے آنکھوں‌ کو نہیں‌ بچا پائیں گے۔ سورج ہم سے 93 ملین میل دور ہے لیکن پھر بھی اس کو نہیں‌ دیکھ سکتے۔

تاریخ میں‌ پہلا ریکارڈ چین میں‌ ملتا ہے جہاں‌ چار ہزار سال پہلے سورج گرہن کے بارے میں‌ لکھا گیا۔ لوگ اس منظر سے نہایت خوفزدہ ہوگئے تھے۔ انہوں‌ نے سمجھا کہ ڈریگن سورج کو کھا رہا ہے۔ لیکن چند منٹوں‌ میں‌ سورج پھر سے دکھائی دینے لگا۔

زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے اور چاند زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ اگر زمین سورج اور چاند کے درمیان آجائے تو زمین سے چاند گرہن دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح‌ اگر چاند زمین اور سورج کے درمیان آجائے تو سورج گرہن دکھائی دیتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ہم چاند پر کھڑے ہوں اور چاند سورج اور زمین کے درمیان آجائے تو زمین کیسی دکھائی دے گی؟ زیادہ تر زندگی شہروں‌ میں‌ گزری جہاں‌ زمین پر اتنی روشنیاں‌ ہوتی ہیں‌ کہ آسمان کی طرف دھیان نہیں‌ جاتا۔ ایک سال رات کے دو بجے چاند گرہن ہونا تھا۔ الارم لگا دیا۔ ٹھیک دو بجے بچوں‌ کو جگایا اور ہم باہر گئے، پہلے ادھر ادھر دیکھا پھر اوپر دیکھا تو بالکل ہمارے سروں کے اوپر آسمان میں‌ چاند گرہن ہورہا تھا۔

ہم سارے زمین پر لیٹ گئے اور آسمان کو دیکھنے لگے۔ رات کے گھپ اندھیرے میں‌ چاند گرہن ہوتے دیکھنا بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وسیع کائنات میں‌ انسان کتنا چھوٹا سا ہے۔ کمر زمین سے لگی ہو تو ایک لمحے کو ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم خلا میں‌ ستاروں‌ کے بیچ گر جائیں‌ گے۔ پہلے زمانے میں‌ جب زمین پر اتنی روشنیاں‌ نہیں‌ تھیں یقینا“ انسان آسمانوں‌ سے نہایت گہرا تعلق محسوس کرتے ہوں گے۔ پہلے زمانے کے انسان سمجھتے تھے کہ زمین سپاٹ ہے اور وہ اس میں‌ ایسے رکھے ہوئے ہیں‌ جیسے پلیٹ میں‌ کچھ رکھا ہو، اسی لئے وہ دور سفر کرنے سے گھبراتے تھے کہ اس کے کناروں سے نیچے گر جائیں‌ گے۔ کچھ لوگ کشش ثقل کو زمین کی چپکنے والی کوئی طاقت بھی سمجھتے تھے جس کی وجہ سے وہ خلا میں‌ نہیں‌ اڑ جاتے۔

سورج گرہن کو دیکھنے سے آنکھیں‌ خراب ہوسکتی ہیں جس کو سولر ریٹیناپیتھی کہتے ہیں۔ سولر ریٹیناپیتھی میں‌ روشنی کو محسوس کرنے والے خلئے جب سورج کی روشنی سے ضرورت سے زیادہ متحرک ہوجائیں تو ان میں‌ سے ایسے کیمیکل نکلتے ہیں جو ریٹینا کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ چونکہ یہ پروسس تکلیف دہ نہیں‌ ہے، لوگوں‌ کو احساس نہیں‌ ہوتا کہ ان کی نظر خراب ہورہی ہے۔

میڈیکل جرنلز میں‌ ایسی کیس رپورٹس ہیں جن کے مطابق اگر نشے کے شکار لوگوں‌ نے سورج کو دیر تک دیکھنے کی کوشش کی تو ان کی آنکھوں‌ کو سنگین نقصان پہنچا۔ سورج کی پوجا کرنے والے افراد بھی اس بیماری کے شکاروں میں‌ شامل ہیں۔ 1988 میں‌ ایک اٹالین آنکھوں‌ کے ماہر ڈاکٹر نے سورج کو دیکھنے والی رسم کے بعد 66 افراد کی آنکھوں‌ کا علاج کیا جن کو نقصان پہنچا تھا۔ اس بات سے مریضوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ جس کو بھی سورج کی عبادت کرنی ہو تو آنکھیں‌ بند کرکے کرے یا سورج کو دیکھے بغیر کرلے۔ سورج گرہن ہونے کے دوران زیادہ لوگ آنکھیں خراب ہوجانے کے خطرے میں‌ ہوتے ہیں کیونکہ سورج زیادہ تر ڈھکا ہوا ہوتا ہے اور اس کو زیادہ آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے اور مدافعتی نظام جیسا کہ پلکیں‌ جھپکنا یا پتلیوں‌ کا سکڑنا مدد نہیں‌ کرتے جس طرح‌ ایک نارمل دن میں‌ کرتے ہیں۔ اگر الائزا بلی یا راجہ کتے کے ساتھ باہر بیٹھ کر سورج گرہن دیکھنا ہو تو ان کو بھی چشمہ پہنانا ہوگا تاکہ ان کی آنکھیں خراب ہونے سے بچ جائیں۔

جو بھی معلومات آج ہمارے پاس ہیں وہ تاریخ‌ میں‌ گزرے ہوئے ان گنت لوگوں‌ کی غلطیوں‌ سے سیکھے ہوئے سبق ہیں۔ 1612 میں‌ تھامس ہیریٹ نے لکھا کہ سورج کو دیکھنے کے بعد ایک گھنٹے تک ان کی نظر دھندلی رہی۔ آکسفورڈ کے ایسٹرانامسٹ جان گریوز نے کہا کہ سورج کے مشاہدے کے بعد کافی دیر تک ان کو آنکھوں‌ میں‌ کالے کووں کا جھرمٹ دکھائی دیتا تھا۔ سر آئزک نیوٹن نے آئینے میں‌ سورج کو دیکھنے کی کوشش کی اور خود کو تین دن کے لئے اندھا کرلیا تھا۔

1999 میں‌ سورج گرہن ہونے کے بعد 45 مریض یو کے میں‌ آنکھوں‌ کا علاج کرنے پہنچے۔ ان میں‌ سے پانچ افراد کے ریٹینا میں‌ باقاعدہ ڈیمیج دیکھا گیا۔ ان میں‌ سے بیس مریضوں کی آنکھوں‌ میں‌ تکلیف تھی اور بارہ افراد کی نظر درست ہونے میں‌ سات ماہ لگ گئے۔ زیادہ تر لوگ پورے اندھے نہیں‌ ہوجاتے لیکن یہ ممکن ہے۔ زیادہ تر نقصان ٹھیک ہوجاتا ہے لیکن کچھ مستقل بھی ہوسکتا ہے اس لئے احتیاط ضروری ہے۔ 1995 میں‌ ایک اسٹڈی میں‌ 58 لوگوں‌ کو فالو کیا گیا جنہوں‌ نے 1976 میں ترکی میں‌ سورج گرہن دیکھا تھا۔ ان میں‌ سے کچھ مریضوں‌ کی آنکھیں ٹھیک ہوتے ہوتے 15 سال لگ گئے۔

پیر کے دن اوکلاہوما سٹی میں‌ 84% سورج گرہن ہو گا۔ ہسپتال کی گفٹ شاپ یہ اسپیشل چشمے بیچ رہی ہے۔ کل لے لوں‌ گی۔ آنکھیں تو پہلے سے ہی کمزور ہیں، پورا اندھا ہوجانا افورڈ نہیں کرسکتے۔ ​


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).