چیف ایڈیٹر کی پراسرار شخصیت کا راز


لوگوں میں بے پناہ تجسس پایا جاتا ہے کہ چیف ایڈیٹر کون ہیں جن کے دانمشندانہ اقوال یہ طالب علم اکثر اوقات عوام الناس کے افادے کے لئے عام کرتا رہتا ہے۔ کچھ افراد کا خیال یہ بنتا جا رہا ہے کہ چیف ایڈیٹر دراصل ابن صفی کے ایکسٹو کی مانند ایک پراسرار شخصیت ہے جو اپنی اصل شخصیت چھپا کر دانش کے موتی رول رہا ہوتا ہے۔ چند دوستوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی بابا جی ہیں جو دیسی حکمت اور ڈیری سٹوریز کے ماہر ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ یہ تجسس ختم کر کے قوم کو بتا دیا جائے کہ چیف ایڈیٹر کی پراسرار شخصیت کے پیچھے کون پردہ نشین پوشیدہ ہے۔

آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ قوم میں دانش کا لیول خطرے کے نشان سے بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ عوام کے علاوہ دانش ور بھی دانش سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس صورت حال میں ہمارے لئے چیف ایڈیٹر کی شخصیت گویا آسمان سے خانہ انوری پر نازل ہوئی اور اس استادِ بے بدل نے اپنی حکمت سے جہانِ بے رنگ و بو کو نکہت آفریں کر دیا۔

آپ نے معلوم تاریخ کے سب سے پہلے یونانی استاد سقراط کا ذکر سنا ہو گا۔ اس کی دانش کے قصے عام تھے۔ وہ ایک کم علم شخص کے سے انداز میں دانشوروں سے سادہ سادہ سے سوالات کرتا رہتا تھا حتی کہ دانشوروں کی تمام دانش مع ریزرو ختم ہو جاتی تھی اور پھر ان کو پتہ چلتا تھا کہ معاملہ پیچیدہ ہے۔ اس کے بعد سقراط ڈیری سے متعلقہ واقعات کے پس منظر میں دیسی دانش استعمال کر کے ان مبینہ دانشوروں کو گنجلک مسائل کا حل بتا دیتا تھا۔

کسی نے ایک دن تنگ آ کر سقراط سے پوچھ ہی لیا کہ ”یا استاد، تم نے اتنی عقل کہاں سے سیکھی؟“ تس پہ سقراط نے اسے غور سے دیکھا اور کہا ”احمقوں سے“۔ اس شخص نے حیران ہو کر کہا کہ ”احمقوں سے کوئی عقل کیسے سیکھ سکتا ہے؟“ سقراط نے جواب دیا کہ ”جو کام احمق کرتے ہیں، ان کے حشر سے میں عبرت پکڑ کر خود وہ کام کرنے سے باز رہتا ہوں۔“

چیف ایڈیٹر کا بھی یہی اصول ہے۔ لیکن وہ سقراط سے بڑھ کر ہیں۔ سقراط کاہل شخص تھا اس لئے خود ہاتھ پاؤں ہلانے کی بجائے دوسرے احمقوں کے کام دیکھ کر ہی دانش سیکھ لیتا تھا جبکہ چیف ایڈیٹر ایک فعال شخص ہیں۔ وہ خود ذاتی طور پر کوشش کر کے دانش سیکھنے کے قائل ہیں۔ دانش کی ازلی دشمن دنیا چیف ایڈیٹر کو بھی سقراط کی مانند زہر کا پیالہ پلاتی رہتی ہے۔ مگر چیف ایڈیٹر درویش آدمی ہیں، ان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ پیالہ زہر پینے کے لئے دیا گیا ہے، وہ زہر کو ایک طرف پھینک کر پیالہ کھیسے میں ڈالتے ہیں اور اگلا پیالہ طلب کر لیتے ہیں۔

سقراط کے علاوہ دوسرے اہم ترین استاد اس کے چند برس بعد سلطنت عثمانیہ میں پیدا ہونے والے ملا نصر الدین تھے۔ ملا نصر الدین احمقوں کو دیکھ کر دانش سیکھنے کی بجائے خود احمق بن کر دوسروں کو عبرت پکڑنا اور دانش سکھایا کرتے تھے۔ یعنی وہ معلوم تاریخ کے پہلے چیف ایڈیٹر کہلائے جانے کے لائق تھے۔

آپ نے مشہور قصہ سنا ہو گا کہ ایک مرتبہ شہر کے ایک امیر نے دعوتِ عام کی تو ملا کو بھی کارڈ بھیج دیا۔ ملا صاحب منہ اٹھا کر چلے گئے تو کسی نے ان کو اندر گھسنے نہ دیا۔ ملا نصرالدین واپس گھر پلٹے اور اعلی پوشاک پہن کر دوبارہ دعوت میں گئے۔ اس مرتبہ ان کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ انہوں نے کھانے کی چمچے بھر بھر کر اپنی پوشاک پر ڈالنے شروع کر دیے۔ جملہ حاضرین نے پوچھا کہ ملا یہ کیا؟ کہنے لگے کہ دعوت میری ہوتی تو مجھے عام کپڑے پہنے دیکھ کر پلٹایا نہ جاتا، یہ میری نہیں میر ے اچھے کپڑوں کی دعوت ہے۔

چیف ایڈیٹر جو ہر وقت اچھی پوشاک ڈانٹے رہتے ہیں اور جہاں دیگیں چڑھی دیکھیں ادھر گھس جاتے ہیں تو اس کا مقصد بھی ملا نصر الدین کی پیروی کرنا ہی ہے۔ خدانخواستہ ایسا نہیں ہے کہ چیف ایڈیٹر کی نیت خراب ہے بلکہ یہ جو چیف ایڈیٹر بوٹیوں کے چمچے بھر بھر کر اپنے سوٹ کی جیبوں میں انڈیلتے ہیں، وہ ملا کی اسی تابناک روایت کا اتباع ہے۔

آپ نے ملا نصر الدین کا وہ واقعہ بھی سن رکھا ہو گا کہ ایک مرتبہ ایک ہمسایہ ان سے گدھا مانگنے آیا تو ملا نے اسے کہا کہ گدھا پہلے ہی کوئی دوسرا لے جا چکا ہے اور وہ گھر پر نہیں ہے۔ اتنی دیر میں گدھے کو نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ زور زور سے رینکنے لگا۔ ہمسایہ کہنے لگا کہ ملا صاحب، گدھا تو آپ کے گھر کے اندر موجود ہے، اس کی آواز آ رہی ہے۔ ملا صاحب شدید خفا ہوئے، کہنے لگے کہ احمق آدمی، تم میری بات پر اعتبار نہیں کرتے ہو اور ایک گدھے کی بات پر تمہیں اعتبار ہے؟ چیف ایڈیٹر کا بھی ایسا ہی المناک ماجرا ہے۔ لوگ ان کی بات سننے کے بعد یہی فیصلہ کرتے ہیں کہ گدھے پر اعتبار کرنا بہتر ہے۔ ملا نصر الدین لاکھ احمق مشہور سہی لیکن چیف ایڈیٹر ملا نصر الدین سے ایک قدم بڑھ کر ہیں کیونکہ یہ جینوئین ہیں، ملا نصر الدین کی طرح فیک نہیں ہیں۔

چیف ایڈیٹر کی ایک صفت ان کے بے لوث خدمت کا جذبہ ہے۔ اپنا کام چھوڑ کر وہ دور پار کے دوستوں کا کام سنوارنے میں زیادہ دلچسپی لیا کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کے ساتھ اکثر وہی ہوا کرتا ہے جو چچا چھکن نے جھگڑا چکایا تھا تو ان کے ساتھ ہوا تھا۔ لیکن چیف ایڈیٹر کی رائے میں قوم کی خدمت کے لئے یہ قربانی کچھ بھی نہیں ہے۔ عزت کا کیا ہے، وہ تو آنی جانی چیز ہوا کرتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف ایڈیٹر کون ہیں؟ اتنی نشانیاں آپ کو دے دی ہیں، اب آپ اپنے گرد و نواح پر نگاہ دوڑائیے اور ایسے چیف ایڈیٹر خود شناخت کیجیے جو بات کرنے کے بعد پچھتاتے ہیں کہ کیا بات کر دی ہے۔
(ختم شد)

چچا چھکن نے جھگڑا چکایا
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar